Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Maqam e Adam Aur Nuqta e Nazar

Maqam e Adam Aur Nuqta e Nazar

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر

 انسان کو دنیامیں اس لیے بھیجا گیاہے کہ وہ سورج، چاند، ستاروں کا حساب کتاب رکھے، یہ دیکھے کہ یہ سورج ٹھیک کام کررہاہے، چاند وقت پہ نکل رہاہے۔ ستارے اپنافرض ٹھیک انجام دے رہے ہیں۔؟ انسان کویہ مقام اوریہ حیثیت حاصل ہے، انسان اس مقام کو چھوڑ کرپستیوں میں جاگراہے، انسان کو دیکھنا چاہیے کہ اس کی سرگرمیاں کیا اسے اس مقام پر لے جارہی ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جسے یہ حیثیت دی گئی، جسے اس شرف سے نوازا گیا لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا گیا (۹۵:۴)۔ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ……اور بنی آدم کو عزت مقام اورشرف عطاکیاگیا (۱۷:۷۰)خشکی اور تری میں سواریاں عطاکیں پاکیزہ رزق دیا دوسری مخلوقات پر فضیلت دی اور یہ کہا گیا تھا کہ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً (۲:۳۰) میں تو اپنا نائب بنا کے تجھے بھیجنا چاہتا ہوں اور نائب کاکام یہ ہے کہ وہ اس کائنات کے اسرار و رموز پر نظر رکھے۔ دیکھے کہ یہ سارے جو ستارے اور سیارے جو planets ہیں، یہ ٹھیک کام کررہے ہیں یانہیں۔ اس نے تو یہ دیکھنا تھا۔ سعدیؒ نے کہا کہ یہ جو سورج چاند ستارے ہیں یہ سب آپ کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ؎

ابر و باد و مہ و خورشید و فلک در کارند

تا تونانی بکف آری و بغفلت نخوری

ہمہ از بہرِ تو سر گشتہ و فرمان بردار

شرطِ انصاف نبا شد کہ تو فرمان نہ بری

 یہ آپ کے خدمت گار ہیں تا کہ آپ کو روٹی روزی ملتی رہے اور آپ مبتلائے غفلت نہ ہوجائیں۔ یہ سب آپ کے لیے سرگرم عمل ہیں، آپ کے تابع فرمان ہیں۔ پھر اگر آپ اپنے پالنہار کے تابع فرمان نہ ہوں تو یہ انصاف نہیں، یہ تو بڑی ناانصافی ہے۔ اگر آپ اپنے اس فرض سے غافل ہوں گے تو پھر روزی روٹی کے پیچھے ہی ساری زندگی گزر جائے گی تو وہ جو إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الأَرْضِ خَلِیْفَۃً والی بات تھی کہ میں تو اپنا نائب بنا کر آپ کویہاں بھیجنا چاہتا ہوں۔ میں تو تمھیں عزت دینا چاہتا ہوں، میں تو تمھیں تکریم دینا چاہتا ہوں۔ احترام دینا چاہتا ہوں، مقام دینا چاہتا ہوں۔ اس کو چھوڑ کے ہم کس سطح پر گرتے ہیں یہ ہمارے سامنے ہے، سوال بھی اور صورتحال بھی۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیں لفظوں کی حرمت کا سبق دینا ہے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیں فرق کرنا ہے امتیازکرناہے اورامتیازکرناسکھاناہے۔ آپ دیکھیے ابھی میں نے جن پرانے صحافیوں کا ذکر کیا، وہ لفظ کی حرمت کے بارے میں کتنے حساس تھے کہ اخبارمیں ایک خبرچھپی اور خبر نگار نے اس پر اپنے اخبار کا نقطہ نگاہ بھی لکھ ڈالا۔ ایڈیٹرنے، جو سیدجالب دہلوی تھے، اسے کاٹ کر زاویہء نگاہ لکھ دیا؟ خبرنگار کو یہ بات اچھی نہ لگی اور اس نے ایڈیٹر کی اس اصلاح کو محض اس کے احساس افسری کا شاخسانہ سمجھا۔ یہی نہیں ایڈیٹر کے پاس 

جاکرشکایت بھی کی کہ آخراس سے کیا فرق پیدا ہو گیاتھا جو آپ نے میری عبارت میں سے نقطہ نگاہ کاٹ کر زاویہ نگاہ لکھ دیا ہے؟ ایڈیٹرنے کہا بہت بڑا فرق ہے…… نقطہ نگاہ، تیقن کے موقع پر بولتے ہیں اور زاویہ نگاہ میں شک کا احتمال باقی رہتاہے۔ گویا یہ بات سمجھنے کی ہے کہ نقطہء نگاہ یا نقطہء نظر کسے کہتے ہیں؟ نقطہ نظر کیا ہوتا ہے؟ اب ہم سب یہ ترکیب استعمال کرتے ہیں کہ میرا نقطہ نظریہ ہے آپ کانقطہ نظروہ ہے۔ جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو میں اسے اپنے زاویے سے دیکھتا ہوں آپ اسے اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں مسٹر"الف" اپنے زاویے سے، مسٹر۔ اپنے زاویے سے،۔ اپنے زاویے سے۔ جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو اسے دیکھنے کے یہ تمام زاویہ ہائے نظر ہیں۔ تو جب ایک فوری طور پرواقعہ ہوا ہے یہ ایک object ہے۔ ابھی اس کو دیکھا ہے تو یہ میرا زاویہ نظر ہے۔ ابھی نقطہ نظر نہیں بنا۔ ابھی تو صرف ایک طرف سے دیکھا ہے۔ ابھی میں نے ادھر جا کر بھی نہیں دیکھا۔ ادھر سے بھی نہیں دیکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میز کے اس جانب کیا ہے، دوسری جانب سے یہ کیسا دکھائی دیتاہے اور کیساہے۔ جب میں تمام اطراف سے اس کودیکھ لوں گا یعنی ان تمام زاویہ ہائے نظر کو جمع کرلوں گا تو وہ تمام زاویے جس نقطے پرایک دوسرے کو کاٹ رہے ہوں گے وہ نقطہ نظر ہوگا تو جو حادثہ کل ہوا ہے اس پر آج نقطہ نظر کیسے آسکتاہے بلکہ کیسے بن سکتاہے؟

اس پر تو نقطہ نظر ابھی بنا ہی نہیں۔ نقطہ نظر تو کچھ وقت کے بعد بنتا ہے۔ اس کے بننے کے لیے تو وقت چاہیے، اس کے لیے تو تحقیق چاہیے، اس کے لیے آپ کو سارے زاویہ ہائے نظر سے واقفیت چاہیے۔ پھریہ دیکھنا ہے کہ وہ سارے زاویہ ہائے نظر کس نقطے پرمرتکزہورہے ہیں۔ وہ آپ کا نقطہ نظرہوگا۔ کیا آج کا صحافی اس نکتے کوجانتا ہے کہ زاویہء نظر کیاہوتا ہے اورنقطہ نظر کیا ہوتا ہے؟ وہ تو اسے فوراً نقطہ نظر بناتا ہے اور فوراً اسے آپ نقطہ نظربنانا چاہتے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا تھا کہ پاکستان کے قیام کے بارے میں آپ کی تاریخ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ میں علی وجہ البصیرت یہ بات کہہ رہا ہوں۔ میں نے ان چیزوں کو جہاں تک موقع ملا ہے، ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھا ہے، پڑھاہے۔ میں نے بنیادی ماخذوں کودیکھاہے۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ ہمارا ملک کیوں بنایا گیا۔ پاکستان کس لیے بنایا گیا؟ اگرآپ نے اقبال کاخطبہ الہٰ آباد پڑھا ہے، اگر میرا بس چلے تو میں پاکستان کے تمام نصابات میں اقبال کے خطبہ الہٰ آباد کوشامل کردوں، اس میں وضاحت ہے کہ ایک الگ ملک کی ضرورت کیوں ہے؟ اس خطبے میں یہ بات تک موجود ہے کہ یہ ایک مسلم سٹیٹ ہوگی اوریہ کہ مسلم سٹیٹ میں غیرمسلموں کے ساتھ مراسم و روابط کس طرح کے ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ …… اصول یہ ہوگا کہ اے اہل کتاب آؤ۔ ہم اور آپ اکٹھے ہوجائیں۔ ان باتوں پر جوہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمارا ان سے توحید پراختلاف نہیں۔ ہمارا ان سے آخرت پر اختلاف نہیں۔ ہمارا ان سے شرک کی برائی پر اختلاف نہیں۔ اقبال نے خطبہء الہٰ آباد میں یہ کہا ہے کہ افسوس کہ صلیبی جنگوں کی پیدا کی گئی نفرتوں کی وجہ سے انسانیت نے اس آیت کے مطالب کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے بھی نہیں سمجھا اس کو کہ یہ آیت کیا سکھاتی ہے؟ کیا یہ آیت سکھارہی ہے کہ آپ ہر ایک کے ساتھ لڑائی کرتے پھریں ……

شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا

دل ِ دشمنان ہم نہ کردند تنگ

ترا کی میسر شود این مقام 

کہ بادوستانت خلاف است و جنگ

میں نے سنا ہے کہ جومردانِ خدا ہیں وہ تو دشمنوں کو دوست بنالیتے ہیں تو تجھے یہ مقام کس نے دے دیا کہ تو دوستوں کوبھی دشمن بنالے۔ تو اہلِ کتاب کے ساتھ توہم توحیدوآخرت میں متفق ہیں۔ ہمارا اوران کارشتہ قرآن نے واضح طورپربیان کردیا ہے، کھول کر بتادیا ہے، اس کااصول بھی بتادیا ہے کہ کن باتوں پر آپ اتحاداوراشتراک کرسکتے ہیں اور ان باتوں پراکٹھے ہوجائیں جب ان کے ساتھ اتحادہوسکتاہے تو پھریہ ہمارے ہاں جو مختلف فرقے بنے ہوئے ہیں، یہ اس اصول پرغورکرلیں کہ وہاں کیا بات ہو رہی ہے اور یہاں کیا بات ہو رہی ہے توآپ کے لیے میرا یہی پیغام ہے۔