موت سے واپسی کا عنوان ہم سے پہلے سرکاری مہمان خانے سے بسلامت واپسی کے لیے استعمال کیاگیاتھا لیکن ہم نے یہ عنوان کرونا کے خوف ناک حملے سے جانبرہوجانے کے لیے موزوں جان کر زیب قرطاس کیاہے۔ گزشتہ کئی ہفتے سے تناظر کے قارئین سے ملاقات نہ ہونے کا سبب یہ تھاکہ اواخرفروری میں ہم کروناکے حملے کا شکار ہوئے، ہفتے عشرے تک تو معلوم ہی نہ ہواکہ یہ کروناہے، گلے کی خراش جان کر اینٹی بائیوٹک کے ذریعے علاج کی کوشش کی جاتی رہی لیکن حقیقت تب کھلی جب یہ انکشاف ہواکہ ہم تو کرونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب تک پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکاہے اتناکہ نصف سے زیادہ پھیپڑے اس کی نذر ہوچکے ہیں اور ہمارا بخار جسے ہمارے ڈاکٹر صاحب گلے کی خرابی کانتیجہ خیال کررہے تھے نمونیہ میں بدل چکاہے۔ فوری طور پر ہسپتال میں داخلہ تجویزکیا گیا لیکن ہسپتالوں کی موجودہ صورت حال کے باعث ہسپتال کے جملہ انتظامات گھرپر مہیاکرکے کروناکا علاج شروع ہوا۔ اب کہ علاج معالجے کے عمل کو ایک مہینہ گزرچکاہے اور وہ دوائیں جوطرح طرح کے آئی وی انجیکشنز کے ذریعے دی جارہی تھیں وہ اب دسیوں گولیوں کی صورت میں کھائی جارہی ہیں تو ہم بصدہمت اس قابل ہوئے ہیں کہ قارئین تناظرسے ملاقات کرسکیں۔
کروناکا حملہ اتنا شدیدتھاکہ ڈاکٹرصاحبان کی جانب سے تو ہمیں موت کا سندیسہ سنادیاگیاتھا لیکن یہ ایک ایسی منزل ہے جس کے برحق ہونے کے باوصف اس کا صحیح علم دنیامیں کسی کو بھی نہیں ہوتا۔ قرآن کے مطابق پانچ مفاتیح الغیب میں شامل یہ ایسا عجیب اسرارہے جس میں خودمسافرکو بھی اس کے سفرسے بے خبررکھاگیاہے۔ زندگی، شاعر کے عندیے کے مطابق محض عناصر میں ظہورترتیب نہیں کہ انہی اجزاکا پریشاں ہونا موت قرارپائے۔ یہ تو جوئے شیروتیشہ و سنگ گراں ہے، کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے۔ بیماری کے ان ایام میں حیات وموت کے باہمی رشتوں اور بندے اور خداکے تعلق پر غور کرنے کا موقع ملا۔ ایک روایت کے مطابق دنیامیں بیماررہنے کااجر جب عقبیٰ میں ملے گا تواس کی عظمت دیکھ کر انسان تمناکرے گا کہ کاش وہ دنیوی زندگی میں بیمارہی رہاہوتا۔
کروناکے تجربے سے گزرنے کے بعد ہم اپنے قارئین سے احتیاط ہی کی درخواست کریں گے کہ انسانیت، ، کروناکی صورت میں جس بلائے بے درماں کا شکارہے اس کا تدارک احتیاط ہی سے کیاجاسکتاہے۔ دیکھنے میں یہ آرہاہے کروناکے پھیلائومیں توروز بروز شدت آرہی ہے لیکن ہمارے ہاں عوام پہلے کی طرح بے احتیاطی کی روش پر گامزن ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت وزارت تعلیم کی جانب سے طالب علموں کے امتحانات کے حوالے سے اختیارکیاجانے والے موقف پر ہے خاص طورپر کیمبرج امتحانات کے حوالے سے جب دنیابھر میں اور خودبرطانیہ میں بھی جہاں سے یہ امتحانات لیے جاتے ہیں، متوقع گریڈزدینے کی پالیسی اختیارکی جارہی ہے تو پھرپاکستان کیوں اپنی نسل نوکو کروناکے اس عروج کے زمانے میں فزیکل امتحانات کے عمل سے گزارنے پر مصر ہے؟ امیدہے کہ وزیرتعلیم صاحب اس پر ضرور نظرثانی کریں گے۔ قارئین سے ہماری گزارش ہے کہ خدارا ترقی پذیرملکوں کی عمومی معاشرتی روش کے مطابق اس کے پس پردہ کسی سازش کا تاروپود تلاش کرنے کے بجائے خودکو اور اپنے پیاروں کو اس آفت سے بچانے کی کوشش کیجیے اور ہمارے پیاروں میں ساری انسانیت شامل ہے کیوں کہ" الخلق عیال اللہ" مخلوق تواللہ کا کنبہ ہے اور ہمیں یہی سکھایاگیاہے کہ ؎
بندئہ عشق از خداگیرد طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق
کہتے ہیں جب البیرونی کا آخری وقت تھا تو اس نے ایک دوست سے وراثت کا مسئلہ سیکھنے کی خواہش ظاہرکی تھی جب اس سے پوچھاگیاکہ اس وقت یہ مسئلہ سیکھنے کی کیا ضرورت ہے تو اس نے کہاتھا کہ مسئلہ سیکھ کرمرنا مسئلہ سیکھے بغیرمرنے سے بہترہے۔ اسی طرح جب بحری جہاز ڈوبنے کی اطلاع ملی تو سب مسافر اسے اپنی زندگی کا آخری وقت جان کر عرشے پر جاکرکف افسوس ملنے لگے یاآہ وزاری میں مصروف پائے گئے لیکن پروفیسرٹی ڈبلیو آرنلڈا س وقت بھی اپنی کیبن میں بیٹھے مطالعے میں مصروف تھے جب ان سے کہاگیاکہ ادھر زندگی ختم ہونے جارہی ہے اور آپ اپنے مطالعے میں مصروف ہیں تو انہوں نے کہا تھا کہ پڑھتے ہوئے مرنا بغیرپڑھے مرنے سے بہترہے۔ ہمیں توحیات و موت کے اس سنگم پربھی اپنی تکمیل ہی کی فکرلاحق رہی۔ شکرہے کہ ان دنوں میں سیرت کے کچھ ایسے پہلووں پر غوروتدبرکا موقع ملا جو اس سے پہلے ہماری تحقیق کا حصہ نہیں بنے تھے۔ اگرچہ کمزوری کے باعث کتاب تھامنا بھی دشوارتھا لیکن جیسے تیسے آکسیجن سلنڈر کی معیت میں ہم نے سیرت پر کچھ ایسی چیزیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی جنہیں پڑھنے کا پہلے موقع نہیں ملاتھا۔ اس کے ساتھ اپنے باقی ماندہ فرائض کی انجام دہی کا احساس بھی غالب رہاچنانچہ جیسے ہی کچھ ہمت مجتمع ہوئی اوربہ قول غالب " پارئہ جمع گر حواس کنم "کا احساس ہواتوہم نے بسترعلالت سے اپنی یونی ورسٹی کے رسالے "بازیافت" کے وہ شمارے مرتب کرڈالے جو ہمارے پیش روکے دورسے تاخیرکا شکارچلے آرہے تھے۔ بحمدللہ اب بازیافت کے تمام شمارے آن لائن دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس مشکل مرحلے میں یوں تواندرون و بیرون ملک کے بہت سے احباب نے خیال رکھا لیکن جن احباب اور عزیزوں نے بہ طور خاص دعااور پرسش کا اہتمام فرمایاان میں بہن بھائیوں اور اہل خانہ کے علاوہ ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب، ڈاکٹر حامداشرف ہمدانی صاحب، شیخ زایدہسپتال کے ہیڈآف اناٹومی ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹرمحمد سہیل صاحب، خلیل احمدکھوکھر صاحب، پرنسپل کالج آف سٹیٹسٹیکل سائنسز ڈاکٹرسہیل چاند صاحب، انسٹی ٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹوسائنسزکے ڈاکٹر کاشف راٹھور صاحب، اردو دائرئہ معارف اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر محمد ارشد صاحب، شیخ زایداسلامک سنٹر کے سابق استاذ پروفیسرڈاکٹر حافظ محمدعبداللہ صاحب جو اب راولپنڈی چلے گئے ہیں۔ نعیم اقبال قریشی صاحب، محمدعامرخورشید، برطانیہ سے ڈاکٹر محمدعاصم خورشید، نیدرلینڈسے جناب فاروق خالداوران کی بیگم، مہربان فزیشن ڈاکٹرعبدالرحمن، ایمرجنسی سپیشلسٹ ڈاکٹر بلال پراچہ اورقلم فائونڈیشن کے علامہ عبدالستارعاصم صاحبان، راقم ان تمام احباب اور ان سب لوگوں کے لیے جنہوں نے ٹیلی فون اور پیغامات کے ذریعے تنہائی کے احساس کو کم کیا، اپنے دل میں تشکرکے جذبات پاتاہے۔ یوں تو اس دوران ملنے والے تمام پیغامات ہی محبتوں کے صحیفے تھے لیکن آخر میں دعااور خیرخواہی کے نمونوں کے طور پرفقط تین پیغامات میں قارئین کو بھی شریک کیاجارہاہے:وطن عزیز کے نام وردانش ور اور ادبیات کے جلیل القدر عالم ڈاکٹرخورشیدرضوی نے لکھا:
"میں آپ کی طویل زندگی اورصحت وعافیت کے لیے دعاگوہوں، جس میں آپ کو سکون واطمینان کے ساتھ اپنے بچوں کی بہاریں دیکھنا نصیب ہوں۔ آمین اللہم آمین"۔ ممتاز ممتاز مذہبی اسکالر جناب جاویداحمدغامدی نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: "ڈاکٹر منیر احمد صاحب سے آپ کے بارے میں معلوم ہواتھا، ہم سب دست بدعاہیں، ہر وقت اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے دوستوں پر احباب پر ملنے والے پر سب پر اللہ رحم فرمائے۔ آپ تو صاحب علم شخصیت ہیں ایسے لوگ امتوں کا اثاثہ ہوتے ہیں، میں دست بدعاہوں اللہ تعالیٰ کرم کرے، رحم کرے اس وقت توہر شخص دعائوں کا محتاج ہے۔ مجھے امیدہے کہ اللہ تعالیٰ خصوصی کرم فرمائیں گے اور آپ بالکل صحت یاب ہوجائیں گے ان شاء اللہ "۔۔۔ ممتاز دانش ور، شاعر اور مربی جناب احمدجاوید نے لکھا:"ارے جناب آپ تو خاصی تکلیف میں رہے اللہ فضل فرمائے اور آپ کو ایسی صحت وعافیت کی طرف لوٹائے جو گمان اور طلب سے بھی زیادہ ہو آمین"۔