آخرکار عائشہ مظہر کا مسئلہ حل ہوگیا۔ گھر تو سابق سی سی پی او عمر شیخ نے پہلے ہی دلوا دیا تھا لیکن بلوں اور کرائے کی مد میں لادا گیا پیسوں کا بوجھ ابھی باقی تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کی مداخلت سے اس سے بھی چھٹی مل گئی۔ خاتون کوپیسے دینے کی کارروائی کا فوٹو سیشن کیا گیا جسے اسی دن پنجاب پولیس کے ٹویٹر اکائونٹ پر پولیس کی کامیاب کاروائی کے طور پر چسپاں کر دیا گیا۔ حیران ہیں کہ کیسے کچھ لوگ اور ادارے فریب کو ذاتی کامیابی قرار دینے میں ذرا سا بھی تامل نہیں برتتے۔ وزیر اعظم بھی آسودہ ہونگے کہ انہوں نے کہیں تو انصاف دینے میں کردار اداکیا۔ یا شاید دل ہی دل میں سوچتے ہوں کہ یہاں بھی مجھے مکمل کامیابی نہیں مل سکی۔ شائد وہ چاہتے ہوں کہ اس ایس ایس پی کو جس کی پشت پناہی کے زور پر اس کے بھائی نے عائشہ اور اس کی ماں کو تقریباً دو سال سڑکوں پر خوار کیا عہدے سے ہٹا دیا جاتا۔ شاید وزیر اعظم یہ بھی چاہتے ہوں کہ اس کرائے دار کو ایسی سزا دے پاتے جو مدینہ کی ریاست کے شایان شان ہو۔ ہو سکتا ہے وہ یہ بھی چاہتے ہوں کہ جس پولیس سٹیشن میں عائشہ کو ایک گالی دے کر مخاطب کیا جاتا تھا ان افسران کو ملا زمت سے فارغ کیا جاتا اور آئی جی پولیس سے پولیس سٹیشن میں ایسے غیر مہذب کلچر کی جوابدہی کی جاتی۔ ممکن ہے عمران خان ان ججوں پر بھی فرد جرم عائد کرنا چاہتے ہوں جنہوں نے جھوٹا سٹے آرڈر جاری کیا۔ یقینا عمران خان چاہتے ہونگے کہ ان تمام پارٹی ورکرز اور افسران سے باز پرس کرتے جن کے پاس عائشہ وقتا فوقتا گئی مگرمدینہ کی ریاست بنانے میں مصروف ان کارکنان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ اس خاتون کو انصاف دلا سکتے۔ یہ سب کارروائیاں مطلوب تھیں کیونکہ پی ٹی آئی کا منشور اسی قسم کے انصاف کی بات کرتا ہے۔ خود عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت ور کے لیے ایک قانون اور کمزور کے لیے دوسرا قانون ہے۔ اگر اس معاملے کو ٹیسٹ کیس کی طرح لیا جاتا اور تمام مجرمان کو جوابدہی کے عمل سے گزارتے ہوئے سزائیں دی جاتیں تو آئندہ طاقت کے غلط استعمال کا سلسلہ بھلے رکتا نہ، اس میں کمی ضرور واقع ہوتی۔
سابق سی سی پی او عمر شیخ کو عمران خان نے قبضہ گروپوں کو پکڑنے اور ان کا خاتمہ کرنے کے لیے لاہور میں تعینات کیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف بہت سی آوازیں اٹھیں لیکن عمران خان نے عمر شیخ کو یقین دلایا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عمر شیخ کے لیے ہر قبضہ چاہے وہ آٹھ مرلے کا عائشہ کا گھر ہی کیوں نہ ہو اس قابل تھا کہ اس کو ختم کروایا جاتا۔ وہ تھانے میں کھلی کچہری لگاتے تاکہ براہ راست لوگوں کی داد رسی کی جاسکے۔ وہ بہت پر اعتماد تھے کہ ان کے پیچھے ایسا وزیر اعظم ہے جو غریبوں، بیواوں اور یتیموں کی فکر کرتا ہے اور ان کا دستو بازو بننا چاہتا ہے۔ لیکن پھر وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ عمر شیخ کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گا۔ یہ برطرفی عمران خان کی رضا مندی سے کی گئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے اس معاملے پر بھی وزیر اعظم چاہتے ہوں کہ عمر شیخ کو ہٹانے کی بجائے ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا جنہوں نے شہر کی ایک اہم جگہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ پھر عمر شیخ کے تبادلے کا جرس بج گیا اور یتیموں، بیواو ںاور غریبوں پر رحم کرنے والا یہ قافلہ نامعلوم سفر کی طرف بھیج دیا گیا۔ صرف چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ چاہنے کے اس زائچے سے تو پی ٹی آئی کا منشور بھرا پڑا ہے۔ غریبوں کو کھانا کھلانے اور ان کے لیے آرام گاہیں بنانا بھی ضروری تھا لیکن انصاف نہ دے سکنا اور اسکی خواہش دل ہی دل میں لیے وزیر اعظم کی کرسی پر برا جمان رہنا کم از کم عمران خان کو زیب نہیں دیتا۔ یقینا بہت سے اچھے کام پی ٹی آئی حکومت کر رہی ہو گی جن کے ثمرات کچھ مدت بعد نظر آئیں گے لیکن انصاف کا معاملہ ایسا ہے کہ اگر اس کے نتائج آج نہیں مل رہے تویہ ہمارے ضمیروں کو مزید تھورزدہ کر دے گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہیں۔ ابھی تو فیٹف کے ڈر سے ہم اپنے قوانین میں ترامیم لا کر پاکستان میں پنپنے والے جرائم چھپا رہے ہیں۔ اگر یہ تلوار بھی ہمارے سروں پر نہ لٹک رہی ہوتی تو ہم نے کہاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے نظام انصاف کو ترتیب دینے کی کوشش کرنی تھی۔ قانون بنانا اور اس پر عمل نہ کرنا بھی اس خواہش کی مانند ہے جس میں ہر جگہ کاش کی پیوند کاری کی گئی ہو۔
چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اگر چاہنے سے بات بننے لگتی تو پولیس کے نظام میں بہتری لانے کے حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہدایت پر لا اینڈ جسٹس کمیشن کی پولیس رفارمز کمیٹی نے 2019ء میں جو رپورٹ مرتب کی تھی اس پر عمل درآمد ہوچکا ہوتا۔ اس رپورٹ میں مجموعی طور پر 14 پارلیمانی 105 انتظامی رفارمز کی نشاندہی کے ساتھ 22 پالیسیاں حکومت کے گوش گزار کی گئیں۔ رپورٹ میں پولیس ایکٹ کا نیا ماڈل تجویز کیا گیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں پولیس کے نظام کو ایک طرح سے چلائے جانے کی سفارش کی گئی ہے یعنی پولیس کو صوبوں کے اختیار سے نکال کر وفاق کے سپرد کر دیا جائے۔ اسی طرح پولیس میں احتساب کے عمل کو موثر بنانے کی بات کی گئی ہے۔ تنازعات کو حل کرنے کے متبادل طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر مفصل بحث کی گئی ہے۔ آخر میں ان تمام قوانین کا احاطہ کیا گیا ہے جن کو یا تو خارج کرنے کی ضرورت ہے یا ان میں ترامیم کر کے انہیں جدید تقاضوں کے ہم آہنگ بنایا جا سکتاہے۔ بقول سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید حکومت کے پاس ایک پکی پکائی رپورٹ تیار ہے صرف اسے نافذ کرنے کی ہمت درکار ہے۔ کیا پی ٹی آئی حکومت میں دم ہے کہ وہ سٹیٹس کو کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ صرف آئی جی اور سی سی پی او بدلنے کا نام ہمت نہیں۔ مصیبت تو یہ ہے کہ ہم ملک چلانے کے لئے حکومت میں نہیں آتے بلکہ اپنے عہدے چلانے آتے ہیں۔ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ نیتوں پر انحصار کرنے والے عمل کے میدان میں کمزوری دکھائیں تو ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔