اتوار کے روز وزیر اعظم عمران خان کی عوام کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو نے پاکستان کے عدالتی نظام کی ایک بار پھر قلعی کھول دی۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خاتون عائشہ نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ ان کے لاہور میں واقع گھر پر نہ صرف کرائے دار نے قبضہ کیا بلکہ قبضہ چھڑوانے کے لیے الٹا کرائے دار کو پانچ لاکھ روپے دینے پڑ رہے ہیں۔ یہ تصفیہ لاہور پولیس نے کروایا جبکہ سٹے آرڈر کی وجہ سے خاتون کو ایک سال عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑے۔ محترمہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے التجا کی کہ وہ سٹے آرڈر دینے کی اس روایت پر از سر نو غور کریں۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ سٹے آرڈر قانونی چارہ جوئی کا ایک اہم اور ضروری حصہ ہے جس سے فریقین کو معاملے کی حقیقت تک پہنچنے اور عدالتوں کو انصاف پر مبنی فیصلے دینے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان میں سٹے آرڈر کی بدنامی کی وجہ اس کا غلط استعمال نہیں بلکہ اس کی آڑ میں کیسز کو طول دینا ہے، جس کی معیاد بعض اوقات دہائیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سٹے آرڈر کو جتنا کھینچا جائے اتنا ہی وکلا کو کیس کی فیس کی صورت میں فائدہ پہنچتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ساٹھ فیصد کیسز میں سٹے کا غلط استعمال کر کے مجرموں کو تحفظ دیا جاتا ہے جبکہ دوسرا فریق جائز حقوق رکھنے کے باوجود یا تو اپنی پراپرٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا اسے اپنے موقف سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن اگر ہسپتال کے کسی شعبے کو سیل کردے یا کلینک کو صحت کے معیارات پر عمل در آمد نہ کرنے کی صورت میں بند کر دے تو بہت بار ہسپتال کے مالک یا ڈاکٹر عدالت سے رجوع کر کے سٹے آرڈر لے لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ تو ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا کر ان کو غلط پریکٹس سے روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی غلط طریقہ علاج کا سد باب ہوتا ہے کیونکہ بیشتر کیسز میں کلینک کے مالک کسی اور جگہ پر اپنی غیر معیاری پریکٹس شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ مل کر بند ہسپتال یا کلینک سے آلات اور ادویات اٹھا لی گئیں تاکہ نئی جگہ پر استعال ہو سکیں۔ بظاہر تو جس ہسپتال یا کلینک میں غیر معیاری سہولیات دی جارہی تھیں بند ہے لیکن پکڑے نہ جانے کی وجہ سے و ہی لوگ کسی اور جگہ اپنی غلط پریکٹس کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی جرم بھی اپنی جگہ قائم ہے، مجرم بھی اور بے ایمانی سے پیسے کمانے کا عمل بھی۔ مہذب ممالک میں ہر کیس کی معیاد کیس شروع کرنے سے پہلے طے کر دی جاتی ہے تاکہ بروقت انصاف دیا جاسکے۔
ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لاء (قانون کی حکمرانی) کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 128 ممالک میں 120 نمبر پر ہے۔ زیادہ رینکنگ والا ملک قانون کی حکمرانی کے نفاذ میں کمزور مانا جاتا ہے۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے مطاق قانون کی حکمرانی کے عمل کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی ملک میں احتساب کا عمل مضبوط ہو، وہاں منصفانہ قوانین بنائے جاتے ہوں، حکومت اپنے معاملات میں شفافیت رکھتی ہو اور تنازعات کے حل کے لیے غیر جانبدارنہ اور واضح طریقہ کار اپنایا جاتا ہو۔ یہ چاروں عوامل آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایک بھی کمزور ہو گا تو اسکی وجہ سے قانون کی حکمرانی متاثر ہو گی۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہم تواس سیڑھی کے پہلے قدم ہی پر کئی عشروں سے رکے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں احتساب صرف سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کرپشن اج تک رک سکی اور نہ ہی ان کرداروں کو سزا دے سکے جو ملک کو معاشی اور سماجی طور پر کنگال کر گئے۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے عدالتی نظام کے بگاڑ کی سب سے بڑی مجرم خود وکلا برادری ہے، پھر حکومت اور وہ طاقتور ادارے جو عدالت کو ماورائے آئین اقدامات کی توثیق کے لیے استعمال کرتے رہے۔ ہمارے قوانین بوسیدہ ہیں۔ گو کہ بہت حد تک ان کو جدیداصولوں پر استوار کیا گیا ہے لیکن ابھی بھی جس طرح کی کاوش انہیں از سر نوترتیب دینے کے لیئے میں صرف ہونی چاہیے تھی وہ نظر نہیں آتی۔ پارلیمانی نظام میں قانون سازی منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پارلیمان کو عزت نہیں ملتی۔ پارلیمانی روایات کو سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کی حکومت میں ہوا ہے۔ نہ تو کمیٹیاں پوری طرح فعال ہیں، اپوزیشن حکومت کی قانون سازی میں مدد کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی حکومت اپنے رویے میں لچک لانے پر آمادہ ہے کہ ملک کے مفاد میں مل بیٹھ کر کام کیا جاسکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومت آرڈینیس کی بیساکھیوں کے سہارے قوانین بنا رہی ہے۔ حالانکہ ہر آرڈینینس کو قانون بنانے کے لیے 120 دن کے بعد پارلیمان میں بھیجنا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت کے پاس قوانین کی نشوونما اور اس کی حکمرانی کے حوالے سے کوئی پلان نہیں ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے پاس نئے قوانین جدید طرز پر بنانے کی صلاحیت دوسری پارٹیز سے زیادہ ہے لیکن اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی صلاحیت نے پارٹی کی اس خوبی کو بھی خرابی میں بدل دیا ہے۔
عدالتی نظام میں اصلاحات بھی اسی پارلیمانی شورش کی نظر ہو گئی ہیں۔ اس وقت ضرورت ہے کہ جلد از جلد عدالتوں میں مزید ججوں کی تقرری کی جائے۔ نئی عدالتیں بنائی جائیں تاکہ زیر التوا کیسز کو نمٹایا جاسکے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 20 لاکھ سے زیادہ کیسز اعلیٰ اور نچلی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ اسی طرح حکومت نے 120 نئی احتسابی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پولیس کو پابند کیا گیا ہے کہ جب تک مجرم پر فرد جرم عائد نہ ہو جائے اسے ضمانت پر رہنے دیں۔ دوسری طرف پراسیکیوشن اور انویسٹیگیشن کا عمل اسقدر جانبدار اور غیر معیاری ہے کہ مجرم پر فرد جرم عائد کرنا جوئے شیر لانے کے برابرہے۔ اسی لیے پاکستان میں سزاکی شرح صرف تین فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اسی لیے عموما پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے بعض اوقات مجرم کو مقابلوں میں قتل کر دیتے ہیں۔ یہ پریکٹس مسلم لیگ نون کے پہلے دور حکومت میں اپنائی گئی جس کا انہوں نیذاتی اور حکومتی سطح پر خوب فائدہ اٹھایا۔
ملک کے قانونی نظام کو بہتر کرنے ہی سے سستا اور بر وقت انصاف فراہم کیا جا سکتاہے۔ یہ بہتری سوشل میڈیا پر عدالتی نظام کی تحقیر کر کے نہیں آئیگی بلکہ اس کے لیے عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ عدالتی نظام میں دخل اندازی سے دوررہا جائے۔ عدالتوں کواپنی مرضی کیتابع رکھ کر نہ تو ملک میں ترقی ہو گی اور نہ ہی قانون کی حکمرانی۔ بلکہ اس سے قوم کا مزاج ہی بگڑے گا۔ شائداسہ وجہ سے پاکستان میں لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے اور معاملات کے حل میں متشدد رد عمل پر یقین رکھتے ہیں۔