Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Donald Trump Aur Self Marketing Ka Junoon

Donald Trump Aur Self Marketing Ka Junoon

امن کے نوبیل انعام کا جب سے اعلان ہوا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے توگویا دونوں جہاں لڑکھڑا گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ صدمے نے ان کے رہے سہے حواس بھی سلب کر لیے ہیں، اسی لیے وہ پہلے سے زیادہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے ہیں۔

سچ کہوں تو اپنے وزیر اعظم عمران خان نے ہمیں اس قابل چھوڑا کب ہے کہ ہم دنیا کے کسی بھی رہنما کے بے سروپا اقوال و افعال پر انگلی اٹھاسکیں بلکہ بعض اوقات تو وہ ’زبان دانی" میں ٹرمپ کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ ان کے اکثر بیانات پڑھ اور سن کر دل سے صدا نکلتی ہے " ٹرمپ جنگل میں اکیلا ہے، انھیں جانے دو " خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔

بہرحال ابھی بات ہو رہی ہے نئے ٹرمپی بیان کی۔ یہ بیانات ایک عالمی رہنما کے بیانات کم بلکہ ایسی ساس بہوکا رونا ہوتے ہیں جوکرتی توککھ نہیں پر ڈھول رج کے پیٹتی ہیں۔

چند دن قبل جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال امریکا میں کینسر سے ہونے والی اموات کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ امریکن کینسر سوسائٹی کے فلیگ شپ جرنل میں کینسر کے سالانہ اعداد وشمارکی اپ ڈیٹ شایع ہونے کی دیر تھی کہ ٹرمپ نے ٹوئیٹر پرآکر کامیابی کا یہ ہار اپنے گلے میں ڈال کر خود امریکیوں کو حیران و پریشان کر دیا۔ انھوں نے کہا کینسر سے ہونے والی اموات میں نمایاں کمی ٹرمپ انتظامیہ کی ایک بڑی کامیابی ہے۔

میڈیا کے نمائندوں نے وائٹ ہاؤس میں اس بیان کی وضاحت کے لیے درخواستیں جمع کروائیں لیکن وہاں سے سوائے سناٹے اور خاموشی کے کوئی وضاحتی جواب سامنے نہ آیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو شاید اس بات کا کچھ زیادہ ہی یقین ہے کہ مزاح صحت مند زندگی کے لیے بہت اہم چیز ہے، اسی لیے وہ ہر وقت دوسروں کو خود پر ہنساتے رہتے ہیں۔ یقیناً وہ امریکیوں کو ایک صحت مند قوم بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے اس اخلاص کو بدقسمتی سے کوئی نہیں سمجھتا، بلکہ لگتا ہے امریکی صدر کا سب سے بڑا دشمن تو امریکی میڈیا ہی ہے جو ان کی کریڈٹ لینے کی ساری تدبیریں الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ان کی تمناؤں کا کام تمام کر دیتا ہے اور ایسے ایسے سوال اٹھاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی دیواریں تک سنسنانے لگتی ہیں۔ اب اسی معاملے کو دیکھیے ذرا۔

امریکا میں کینسر سے ہونے والی اموات کی شرح تو بے شک ٹرمپ کے دورِحکومت میں گری لیکن اس کے پیچھے تین دہائیوں سے جاری وہ کوششیں اور تحقیقات تھیں جو بڑی عرق ریزی سے امریکا میں کی جا رہی تھیں۔ ابھی پچھلے سال مارچ کے مہینے کی تو بات ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیکل اور سائنسی تحقیقات کے بجٹ میں کمی کا پرو پوزل پیش کیا تھا، جس میں نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کو فراہم کیے جانے والے فنڈ میں پندرہ فی صد کٹوتی کا کہا گیا تھا۔ اگر یہ پرو پوزل کانگریس کی طرف سے منظورکرلیا جاتا تو امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کو ساڑھے چار بلین ڈالرکٹوتی کا سامنا کروانے کے لیے مسٹر ٹرمپ تیار بیٹھے تھے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس کٹوتی کا سب سے زیادہ نقصان کینسر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کو ہوتا۔ سب سے بھونڈا مذاق تو یہ ہے کہ کئی مواقع پر ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے نظر آئے ہیں کہ وہ کینسر اور ایڈز سے امریکا کو پاک کرنے کا عزم رکھتے ہیں، لیکن ان کا عمل اپنے کہے کے بالکل الٹ ہے۔ بہرحال امریکا میں اس پروپوزل کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات پر شدید ردِعمل سامنے آیا، جس کے بعد کانگریس نے اسے مسترد کرکے انسانیت پر ایک بہت بڑا اور حقیقی احسان کیا۔

اب کیا کریں کہ کینسر کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح میں کمی اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سامنے آئی لیکن اس میں ان کا کوئی کردار سرے سے نہیں ہے، بلکہ اس کامیابی کا تعلق ان عوامل پر ہے جن پر کئی سال سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے مسلسل کام اور تحقیق کی جارہی تھی، لیکن افسوس سیلف مارکیٹنگ کے جنون میں وہ سارے حقائق بھلا بیٹھتے ہیں۔ ان کی تسلی کو یہی بات کافی ہے کہ اس ٹویٹ کو ان کے ایک لاکھ اکسٹھ ہزار فالوورز نے لائیک اور پچیس ہزار نے ری ٹوئیٹ کیا ہے۔

نہ کیے ہوئے کاموں پرکریڈٹ لینے کا یہ کوئی پہلا ٹرمپی کارنامہ نہیں ہے بلکہ اسی مہینے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ " ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی احمد کو امن کا نوبیل انعام کیوں دیا گیا، جب کہ میں نے معاہدہ کروایا، میں نے ایک ملک بچایا، لیکن پھر سنا کہ نوبیل انعام ملک کے سربراہ کو مل رہا ہے۔" واضح رہے کہ ایتھوپیا کے وزیر اعظم ایبی احمد کو ایریٹیریا سے سالوں سے جاری تنازعات کے خاتمے پر حالیہ نوبیل امن انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا اور ٹرمپ کو اب تک یہی دکھ کھائے جا رہا ہے کہ اس ضمن میں وہ اس انعام کے زیادہ حق دار تھے، پھر کیوں محروم رہے۔ لیکن کیا کریں امریکی صحافتی اقدارکا جو سچائی کا دامن تھامے بیٹھی ہیں اور بنا کسی لحاظ کے ان اقدار کی چھری اپنے ہی صدر کی تمناؤں پر پھیر دیتی ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ ٹرمپ کے اس رقت آمیز بیان کے جواب میں لکھتا ہے، "ایریٹیریا امن معاہدے میں امریکا نے کوئی واضح کردار ادا کیا ہی نہ تھا۔" لو کر لو بات، بلکہ ہاؤس آف فان افیئرزکمیٹی کی طرف سے ہونے والی ٹوئیٹ میں تو یہ بھی کہا گیا کہ مسٹر ٹرمپ شدید کنفیوز ہیں۔ انھوں نے ایریٹیریا امن معاہدے کو ایتھوپیا اور مصر کے مابین ہونے والے ڈیم کے معاہدے سے الجھا دیا ہے۔ اصل میں تو مصر کے ساتھ ڈیم کے معاملے پر ایتھوپیا کے تنازعے کو حل کرنے میں امریکا نے کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح 2018 میں ٹرمپ نے رونا دھونا مچایا تھا اورکہا تھا کہ انھیں شمالی کوریا کا تنازعہ حل کرنے کے کریڈٹ کے طور پر امن کا نوبیل انعام دینا چاہیے تھا لیکن ساتھ انھوں نے نہایت افسوس کے ساتھ کہا کہ نوبیل امن انعام کمیٹی ہر بار ان کے ساتھ دھاندلی کرجاتی ہے۔ ستمبر 2019 میں یو این جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں بھی انھوں نے دبی دبی خواہشوں کا کُھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے لیے انھیں نوبیل انعام مل جانا چاہیے۔ لیکن اس بات کے اظہار کے وقت وہ ہر بار یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر نوبیل انعامات کسی کام کے نہ کرنے پر دیے جانے لگیں تو ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑا ان کا حق دار بے شک کوئی بھی نہ ہوگا اور ان کا شیلف بے تحاشا انعامات اور اعزازات سے بھرنا شروع ہوجائے گا۔

لگتا تو یہ ہے کہ نوبیل انعام کی خواہش نے ٹرمپ کا سکون غارت کر دیا ہے۔ وہ اس کو کسی محبوبہ کی طرح پاس بلانا اور ساری عمر ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو کوئی یا د دلا دے کہ بھیا! آپ سپر پاورکے منصبِ صدارت پر فائز ہیں، کیوں بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں، لیکن ایک بات اپنی جگہ سچ ہے کہ دنیا میں جس ملک کا مسئلہ ہو وہاں نظریں امریکی صدرکی طرف ہی اٹھتی ہیں کہ اب صاحب بہادر اپنے بڑے ہونے کا کردار ادا کریں لیکن جب یہ صاحب خود ٹوٹ کر بکھرنے اور مارے صدمے کے رونے دھونے لگتے ہیں تو سب کھی کھی کرتے پرے کھسک جاتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ اتنا تو احساس کریں کہ ٹرمپ کے سینے میں بھی ایک ننھا سا دل ہے، اب وہ ہر وقت کریڈٹ لینے کو ہمکتا ہے توکیا کریں۔