کون نہیں جانتا کہ ہجرت میں زندگی کیسی بکھر سی جاتی ہے۔ اس کرب کو ہم نہیں جان سکتے کیوں کہ یہ ہم نے دیکھا اور نہ بھگتا۔ لیکن ترقی کے تیز ترین سفرکی بدولت ہجرت کے یہ جاں گسل مناظرکیمرے کہ آنکھ سے ہماری نگاہوں تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ میں جب بھی ان کرب ناک تصاویرکو دیکھتی ہوں، ان میں بے بسی کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔
کہتے ہیں کہ تصاویر بولتی ہیں لیکن اگر حقیقت میں ان کو زبان دے دی جائے تو سوائے بین کے اورکچھ سنائی نہ دے گا۔ اگر اس وقت آپ بھی یہ بین سننا چاہتے ہیں تو آئیے میرے قلم کی نوک تھامے بوسنیا اور ہرزیگوینا چلیے۔
ویسے تو کرۂ ارض کا یہ مقام زمین پر بہشت جیسا ہے لیکن یہاں لیپا مہاجرکیمپ نامی ایک جہنم بھی دہک رہا ہے۔ برف باری، سرد ہوائیں اورکھلا آسمان، اس پر قیامت یہ کہ درجۂ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی گر چکا ہے۔ لیپا کے بدقسمت مکین دو ہفتے قبل یہاں ہونے والی آتش زدگی کی وجہ سے دربدر ہوچکے ہیں۔ غیرانسانی ماحول کے سوا اب یہاں مہاجرین کے لیے کچھ نہیں۔ لیپا کیمپ کے ان مہاجرین میں افریقا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی جنگوں اور غربت کے ہاتھوں پریشان حال افراد شامل ہیں۔
یہ یورپ میں داخل ہونے اور اپنے اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے کے جرم میں آج لاوارث پڑے ہیں۔ اس وقت ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یورپی یونین ان مصیبت کے ماروں کے لیے اگرچہ اضافی امداد کا اعلان کرچکی ہے لیکن اس وقت زیادہ ضروری مقامی حکومت پر یہ دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ آتشزدگی کے نتیجے میں تباہ ہونے والے کیمپوں کو دوبارہ تعمیرکرے تاکہ موسم کے برفیلے تھپیڑے ہجرت کے عذاب کو مزید بڑھاوا دینے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
لیکن اس وقت حال یہ ہے کہ کئی ہزار افراد بھوکے پیاسے موسم کے خطرناک تیور جھیل رہے ہیں اور چاروں طرف مسئلے کے حل کا بس شور مچایا جا رہا ہے کہ مہاجرین کے لیے فوری کیمپ تعمیرکردیے جائیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ خالی شور سے مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ کب ہوگا اور کون کرے گا؟ شور مچانے سے المیوں کا بھلا بگڑتا ہی کیا ہے؟ بوسنیا کے ان مہاجرین کے لیے رہائشی منصوبے جب تک کاغذ سے میدان تک کا رخ کریں گے اس وقت تک جانے کتنی معصوم جانیں برف کا کفن اوڑھ چکی ہوں گی۔
ہجرت کی اس صلیب پر کتنے ہی حضرت انسان مصلوب ہوچکے ہوں گے۔ بوسنیا میں اس وقت کُل دس ہزار مہاجرین موجود ہیں۔ 2016 سے یورپ کا رخ کرنے والوں نے بوسنیا کو اپنی گزرگاہ بنا رکھا ہے۔ 2018 سے اب تک تقریباً 68000 لوگ بوسنیا کے راستے یورپ میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہاں سے کروشیا کی سرحد پر قدم رکھتے ہی اکثر سرحدی فوج انھیں جبرا واپس بوسنیا میں بھی دھکیل دیتی ہے جو کہ غیرقانونی عمل ہے لیکن ہمیشہ کروشیا حکومت اس کو ماننے سے انکارکردیتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ واپس دھکیلنے سے پہلے ان کا بچا کچھا سامان لوٹنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
اس وقت مہاجرین کا دوسرا بڑا دشمن برف باری ہے جس کی وجہ سے وہ سرحد پارکرکے یورپ میں داخل ہونے کی ہر کوشش میں پکڑے جاتے ہیں، کیوں کہ برف پر پڑے قدموں کے نشانات ان کا پیچھا کرنے میں سرحدی فوج کی معاونت کرتے ہیں۔ سرحد پارکرنے میں ناکام ہونے والے یہ لوگ بدترین حال میں زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں۔ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ماضی میں متعدد بار اس امر پر زور دیا گیا کہ بوسنیا میں عالمی معیار کے مطابق مہاجرین کے مزید کیمپ قائم کیے جائیں تاکہ افراد کو المیے میں تبدیل ہونے سے بچایا جاسکے لیکن اس معاملے پر سب گویا آنکھیں موندے بیٹھے رہے اور اب تک کوئی پیش رفت نہ کی گئی۔ کورونا کی وبا کے دوران بوسنیا کے تمام مہاجرکیمپ بھیڑکی وجہ سے سنگین خطرات کی لپیٹ میں ہیں۔
بوسنیا کی کل تین ملین کی آبادی میں تقریباً نوے ہزارکورونا کے کیسز سامنے آ چکے ہیں جب کہ مرنے والوں کی تعداد ستائیس سو تک پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ مہاجرین میں کورونا کے پھیلنے کی شرح نسبتاً کم رہی لیکن مہاجرین کے دکھوں کو یہاں کے سیاست دانوں نے خوب بڑھایا اور بار بار انھیں بوسنیا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اصل ذمے دار قرار دیا۔ یوں مصیبت کے یہ مارے جو پہلے ہی مجرم، چور اور بوجھ جیسے ناموں سے پکارے جاتے تھے اب ایک نیا الزام بھی اپنے سر لیے سسک رہے ہیں۔ دنیا بھر سے کئی غیرسرکاری ادارے مہاجرین کی بحالی کے لیے یہاں سرگرم ہیں لیکن کوئی بھی باہرکا ادارہ مقامی مسائل پر قابو کیسے پاسکتا ہے۔
ڈینش ریڈ کراس کے مطابق بوسنیا کے کیمپوں کے یہ مہاجرین ایسی حالت میں رہنے پر مجبور ہیں کہ ان میں سے نصف کو دن میں بس ایک وقت کا کھانا میسر آتا ہے۔ ان مہاجرین میں سے بانوے فی صد صحت کے شدید مسائل کا شکار ہیں۔ این جی اوز اس سرد موسم میں مہاجرین کو کمبل اور گرم کپڑے فراہم تو کر رہی ہیں لیکن ان کی رسائی ہر فرد تک بھلا کیسے ممکن ہے۔ این جی اوز کا یہ کردار جانیں بچانے کا ایک ہنگامی قدم تو ہوسکتا ہے لیکن اسے مستقل حل ہر گز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بوسنیا کے ان بدقسمت کیمپوں کے مکینوں میں دو سوکے قریب بچے بھی ہیں جن کی عمریں چھ ماہ سے دس سال تک کے درمیان ہیں، ان مہاجرین میں پاکستان، افغانستان، الجزائر اور مراکش کے باشندے شامل ہیں۔ تلخ سہی پر سچ تو یہی ہے کہ بوسنیا کی حکومت ہو، یورپی یونین ہو یا پھر اقوام متحدہ، ان میں سے کسی کی دل چسپی مہاجرین کی فلاح و بہبود میں نہیں بلکہ عالمی بے حسی دیکھ کر تو یوں لگ رہا ہے کہ سب گویا موسم کے سرد تھپیڑوں کے شکرگزار ہیں جو مہاجرین کے "بوجھ" سے ان کی زمین پاک کرنے کا سبب بن کر وارد ہوئے ہیں۔
یہ مہاجرین جو اپنے دیس میں بھی کم زور، اجنبی اور پریشان تھے کہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے، یہاں آکر بھی ان کا مقدر نہیں بدلا بلکہ یہ کم زور تر ہوچکے ہیں۔ ہجرت کا یہ المیہ ہر بار اس بات پر ایک اور مہر ثبت کرجاتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اور طاقتور ممالک بھی سیاسی اعتبار سے اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ انھیں کئی دہائیوں بعد بھی اتنے بڑے انسانی بحران کا کوئی موثر اور پائے دار حل نہیں مل سکا۔ ملین بلین ڈالرز کے فنڈز پڑے ہونے کے باوجود دنیا کے یہ کرتا دھرتا چند ہزار افراد کی تقدیر سنوارنے سے قاصر ہیں۔
بوسنیا کے ان مہاجرکیمپوں کے مکینوں پر موسم مزید ظلم ڈھانے کو تیار ہے۔ سرد موسم جو ہمارے لیے راحت ہے، موت کا فرشتہ بن کر ان کے سروں پر کھڑا ہوا ہے۔ ہر سال موسم سرما ایسی ہی قیامت بن کر نازل ہوتا ہے اور ہر بار دنیا کے چاروں کونوں سے ایک ہی آواز بلند ہوتی ہے کہ یورپی یونین کو مہاجرین کے حوالے سے پالیسیوں میں ردوبدل کرنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ اس بڑے انسانی المیے کو روکا جاسکے لیکن افسوس موسم سرما کے ساتھ ہی یہ آوازیں بھی رخصت ہوجاتی ہیں۔