اور بالآخر نربھیا کے قاتلوں کو بھارتی عدالت کے فیصلے پر پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے بعد نربھیا کی ماں اپنی بیٹی کی تصویر سے لپٹ کر رو پڑی۔ اس کا کہنا ہے کہ" میں اپنی بیٹی کو نہیں بچا سکی اور یہ پچھتاوا مجھے ہمیشہ رہے گا، لیکن یہ فیصلہ بہت سی لڑکیوں کو اس ظلم سے ضرور بچائے گا۔"
پھانسی کی سزا سے نہ تو نربھیا واپس آسکتی ہے اور نہ اس کی ماں کا غم کبھی ختم ہوسکتا ہے لیکن اس سے بھارت میں ریپ کی بڑھتی ہوئی وہ شرح شاید کچھ کم ہو سکے جس نے ایک عام عورت کا سکون غارت کر رکھا ہے۔ نربھیا کا ریپ اور اندوہناک قتل ایسا واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کی توجہ بھارت کی جانب مبذول کردی۔
چاروں طرف سے انصاف انصاف کی آوازیں بلند ہوئیں، جو وقت کے ساتھ تیزتر ہوتی گئیں، اس کے باوجود نربھیا کو انصاف ملنے میں سات سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس عرصے نے بھارتی عدالتی نظام میں موجود خامیوں کی بھی قلعی کھولی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چاروں مجرم آخر وقت تک عدالت کو گم راہ کرکے بچنے کے حربے آزماتے رہے۔ نربھیا کے قاتلوں کی پھانسی کے فیصلے پر عمل درآمد اگرچہ بہت دیر سے ہوا پھر بھی اسے ایک بڑی مثال کے طور پر بھارت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
یہ دسمبر 2012کی ایک سرد رات تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے دہلی کے ایک تھیٹر سے نربھیا اپنے دوست کے ساتھ فلم دیکھ کر نکلی۔ واپسی کے لیے دونوں ایک پبلک بس میں سوار ہوگئے۔ بس میں پہلے سے بیٹھے بدمعاش ٹولے نے ان سے پہلے تو سارا سامان چھینا اور پھر ڈرائیور سمیت سب نے نربھیا کا بہیمانہ ریپ کرکے اسے اور اس کے دوست کو زخمی اور برہنہ حالت میں چلتی بس سے پھینک دیا فرار ہوگئے۔
اس واقعے کے ٹھیک دو ہفتے بعد سنگاپور کے ایک اسپتال میں نربھیا دورانِ علاج انتقال کرگئی۔ نربھیا ریپ اور قتل کیس کے کل ملزمان کی تعداد چھے تھی، جن میں سے ایک نے سزا کے خوف سے جیل میں ہی خودکشی کرلی تھی جب کہ ایک ملزم نابالغ تھا جسے جیوینائل میں رکھ کر2015میں رہا کر دیا گیا۔
نربھیا کا اصل نام جیوتی سنگھ تھا۔ 23سالہ جیوتی پیرامیڈیکل کی طالبہ تھی۔ بھارتی قانون کے مطابق اس طرح کے ظلم کا شکار خواتین کو ان کے اصلی نام سے میڈیا میں نہیں لایا جاتا بلکہ ان کو کسی فرضی نام سے پکارا جاتا ہے۔ جیوتی کو بھی دنیا کے سامنے نربھیا کا نام دیا گیا جس کے معنی" بے خوف" کے ہیں، جب کہ اس کے والدین کی خواہش ہے کہ دنیا ان کی بیٹی کو اصلی نام سے یاد رکھے۔ اسی لیے نربھیا کی یاد میں بننے والے ایک میوزیم میں اس کے والدین نے اصلی نام لکھنے پر ہی زور دیا۔ ان کا کہنا ہے، "ہم جیوتی کی شناخت کو کیوں چھپائیں؟ ہماری بیٹی کا کیا قصور تھا؟ "
بھارت جیسے روایتی اور قدامت پسند معاشرے میں جیوتی کا نربھیا بننے تک کا تکلیف دہ اور کٹھن سفر اس کے والدین نے جس استقامت سے طے کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ نربھیا کے نام سے امر ہونے والی جیوتی کے والدین کے لیے یہ سب سہنا ہرگز آسان نہیں تھا، لیکن وہ مجرموں کی پھانسی پر عمل درآمد ہونے تک اپنی بیٹی کے حق میں بہادری سے ڈٹے رہے۔
چاروں ملزمان کی پھانسی کے لیے تین بار تاریخیں طے ہوئیں لیکن تینوں بار اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں ذات پات کا وہ بدترین نظام ہے جس میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے اکثروبیشتر فائدے سمیٹتے ہیں۔ ان ملزمان کا تعلق معاشی اعتبار سے اگرچہ نچلے طبقے سے تھا لیکن وہ صنفی برتری اور اعلیٰ ذات سے تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زندگی کی ڈور کو سات سال مزید کھینچنے میں کام یاب ہوگئے۔
نربھیا کی ماں اپنی بیٹی کے قاتلوں کو تختہ دار تک پہنچانے کے لیے کتنے ہی محاذوں پر بیک وقت لڑی۔ اس کے سامنے بیٹی کے قاتل صرف چار چہرے ہی نہیں بلکہ ایک پورا سسٹم تھا، گھنائونی سیاست تھی، صنفی امتیازات کی ایک مکمل تاریخ تھی، دوغلے پن اور منافقت سے سجے کریہہ چہرے تھے۔ اس مکروہ سسٹم نے نربھیا کے والدین کی کمر توڑنے کے لیے کیا کیا حربے نہیں آزمائے، حتٰی کہ بھارتی سپریم کورٹ کی ایک نام ور وکیل اندرا جئے سنگھ نے تو یہاں تک کہا کہ "نربھیا کی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے قاتلوں کو معاف کردیں بالکل ایسے ہی جیسے سونیا گاندھی نے اپنے شوہر کے قاتلوں کو معاف کردیا تھا۔"
پھر وہی لوگ جو 2012کے بعد نربھیا کے حق میں قاتلوں کی سزائے موت کے مطالبے کرتے رہے، آہستہ آہستہ پیچھے کھسکنے لگے۔ بھارت کی سڑکوں پر وومن سیفٹی کے نعرے لگاکر ریلیاں نکالنے والے سیاسی فائدوں کے عوض سودے بازی کر بیٹھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور ان کی کابینہ نے نربھیا کے لیے ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے اسے علاج کے لیے سنگاپور بھیج دیا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جیوتی ہندوستانی اسپتال میں دم توڑے اور مظاہرے مزید پُرتشدد رخ اختیار کرکے ان کی حکومت کے لیے مسئلہ بن جائیں۔
سیاست تو سیاست، ہندو مذہب کے بڑے بڑے ٹھیکے دار بھی نربھیا کے لیے انصاف کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر کھڑے نظر آئے۔ مشہور ہندو پنڈت آسارام باپو نے مجرموں کی حمایت کرتے ہوئے جیوتی کوہی اس سانحے کا موردالزام ٹھہراتے ہوئے کہا، "تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔" یہ وہی پنڈت ہیں جن پر اپنی کئی معتقد خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے الزامات ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ سابق صدر پرناب مکھر جی کے بیٹے ابھیجیت مکھر جی نے نربھیا کے حق میں مظاہرے کرنے والی عورتوں کی تضحیک کرتے ہوئے کہا، " موم بتی ہاتھ میں لیے سڑکوں پر آنا اب فیشن بن گیا ہے۔ یہ سب دو منٹ کی شہرت کا پیچھا کر رہے ہیں۔" ان حالات میں جب بگاڑ ہر سطح پر موجود ہو، مجموعی رویے تبدیلی کے متقاضی ہوں، ایسے میں نربھیا کے لیے انصاف کا حصول حقیقت میں ایک تکلیف دہ اور کٹھن سفر تھا۔
اس حقیقت سے تو خود بھارتی بھی انکار نہیں کرتے کہ ریپ کے حوالے سے انڈیا دنیا کی ایک بدترین جگہ ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں یہاں ہر سولہ منٹ پر ایک عورت کا ریپ ہوا۔ صرف اس ایک سال میں 33000 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2017 میں یہ تعداد 32559 تھی۔ یعنی ایک دن میں ریپ کے بانوے واقعات، جن میں تیس فی صد شکار بچے تھے۔
انڈیا کی عدالتوں میں ان میں سے صرف18300کیسز پر کارروائی شروع ہوئی جب کہ باقی اب تک التوا کا شکار ہیں۔ اترپردیش، مہاراشٹر اور مغربی بنگال ریپ کی شرح کے اعتبار سے عورتوں کے لیے تین خطرناک ترین جگہیں ہیں۔ عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باوجود بھارت کا نظام عدل اس معاملے میں سُستی کے راستے پر گام زن ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ نربھیا ریپ اور قتل کے اس بڑے سانحے کے بعد انڈیا میں ریپ کے واقعات تھمے نہیں بلکہ کئی گنا اور بڑھ گئے۔
ریپ اب وہاں ایک واقعہ یا حادثہ نہیں بلکہ کلچر بن چکا ہے۔ اس کی وجہ مذہبی عبادت خانوں میں بیٹھے پنڈتوں سے لے کر سیاست کے ایوان سجانے والوں تک کے وہ بیانات اور رویے ہیں جو بھارتی پدرسری معاشرے کی پیٹھ ٹھونکنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ اگرچہ نربھیا ریپ کیس نے بھارتی سماج میں صنف سے متعلق نئے نظریات کو پروان چڑھایا، نئی تحریکوں کو جنم دیا۔ طبقاتی فرق، ذات پات کے نظام اور صنفی برتری پر لاتعداد سوالیہ نشان لگائے، لیکن عورت کی حقیقی آزادی کی منزل اب بھی وہاں کئی دہائی دور نظر آتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جنس اور اس سے متعلق معاملات بھارتی معاشرے میں اب بھی ایک ٹیبو (ممنوعہ معاملہ ) ہیں جن پر بات کرنے سے لوگ ہچکچاتے ہیں۔ جنس اگر وہاں واقعی ایک ٹیبو ہے تو جنسی حملے کرنے میں لوگوں کو آزادی کیوں؟