کچرا پھینکنے پرگلی محلوں میں آئے دن لڑائی جھگڑے تو دیکھنے کو ملتے ہی ہیں، بات گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک بھی جا پہنچتی ہے، لیکن کچرے کے ایشو پر مختلف ممالک بھی آپس میں لڑ پڑیں گے، یہ وقت بھی آنا تھا۔
جس تیزی سے پوری دنیا میں فضلہ بڑھتا جارہا ہے، اتنی ہی تیزی سے اس سے منسلک دیگر مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ہی سال کے وسط کی تو بات ہے جب فلپائن نے کینیڈا کو اس معاملے پر جنگ کی دھمکی دے ڈالی تھی۔
پہلی نظر میں تو معاملہ محض مذاق لگا اور اس بیان کو فلپائن کے صدرکے مختلف متنازعہ بیانات کی طرح کا ہی ایک بیان سمجھا گیا تھا لیکن وقت آگے کھسکا تو ادراک ہوا کہ یہ مذاق نہیں بلکہ ایک بھیانک سچ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کچرے کے مسئلے پر آپس میں لڑ رہے ہیں اور دنیا جو پہلے ہی بہت سے مسائل سے سر پھوڑ رہی ہے، وہاں اب Trash War کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔
فلپائن کے بپھرنے اور ٹریش وار کی دھمکی پر کینیڈا کی حکومت نے گزشتہ سال مئی کے مہینے میں یقین دلایا کہ انھوں نے فرانسیسی شپنگ کمپنی سے معاہدہ کرلیا ہے اور جون تک کینیڈا کی حکومت اس فضلے کو اپنی سر زمین پر واپس اُتروا لے گی، لیکن فلپائن کے صدر نے پلٹ کر وارکیا اور کہا کہ کسی بھی نجی شپنگ کمپنی کے ذریعے اس کوڑے دان کو واپس کینیڈا ہم خود روانہ کردیں گے اور اس کے اخراجات بھی کینیڈا ہی برداشت کرے گا اور پھر فلپائن نے ایسا ہی کیا۔
اب خبر آئی ہے کہ ملائیشیا نے امیر ممالک سے آنیوالا ٹنوں پلاسٹک ویسٹ یہ کہہ کر واپس روانہ کردیا کہ ہمارا ملک امیروں کا کچرا خانہ نہیں ہے، اور پلاسٹک ویسٹ کے ڈیڑھ سو شپنگ کنٹینرز امریکا، برطانیہ، فرانس اورکینیڈا سمیت تیرہ ممالک کی طرف واپس بھیج دیے ہیں۔ 2018 میں جب چین نے اس پلاسٹک ویسٹ کو اپنی حدود میں آنے سے روکا اس وقت سے ملائیشیا غیرقانونی فضلے کی ان کھیپوں کی لپیٹ میں آکر فضلہ اسمگلنگ کا بڑا ہدف بن گیا۔
اب ملائیشیا کی حکومت نے اس سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کرتے ہوئے فضلہ بڑے ممالک کی طرف واپس روانہ کردیا کہ بھیا! اپنا گند آپ ہی سنبھالو تو بہتر ہے۔ 3737 میٹرک ٹن کچرا تیرہ ممالک کی طرف واپس روانہ کر دینا، ملائیشیا کا ایک بڑا قدم ہے۔
یہاں کے وزیرماحولیات کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے عزت اور وقارکا مسئلہ ہے۔ ہم کسی کو یہ اجازت کیسے دیں کہ وہ ہماری زمین کو اپنا کچرا خانہ بنالے۔ چین نے ماحولیاتی مسائل کے پیشِ نظر دو سال قبل پلاسٹک کے فضلے کو درآمد کرنے پر پابندی عاید کر دی تھی۔ اس کے بعد دنیا کے کرتا دھرتاؤں نے اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے نئی منزلیں تلاش کرنا شروع کردیں تاکہ انھیں ردی کی ٹوکری بنایا جا سکے، ان منزلوں میں سے ایک ملائیشیا بھی ہے۔
گرین پیس رپورٹ کیمطابق 2018 میں صرف امریکا سے یہاں آنیوالا پلاسٹک فضلہ گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنا زیادہ تھا۔ پچھلے سال اس معاملے پر فلپائن نے کینیڈا کو آنکھیں دکھائیں اور اس سال ملائیشین حکومت کی برداشت جواب دے گئی۔ واپس کیے جانے والے اس فضلے میں کیبل تاریں، دودھ کے کارٹن، کمپیکٹ ڈسکس، الیکٹرانک اور گھریلو کچرا تک شامل ہے۔
ملائیشیا کی وزیر ماحولیات نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ برطانیہ کی صرف ایک ری سائیکل کمپنی نے گذشتہ دو سال میں ملائیشیا کی طرف پچاس ہزار میٹرک ٹن فضلہ روانہ کیا۔ ساتھ انھوں نے کہا کہ ملائیشیا چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اپنے حق کا دفاع کرے گا اور بڑے ممالک کی اس غنڈاگردی کو برداشت نہیں کرے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے ملائیشیا کی حکومت نے پچھلے چھ ماہ میں اپنی حدود کے اندر کام کرنیوالی بے شمار غیرقانونی پلاسٹک ری سائیکل فیکٹریوں کو بھی بند کردیا ہے جو پورے ملائیشیا میں تیزی سے ابھر رہی تھیں۔
ملائشیا اور فلپائن کے یہ اقدامات ماحولیاتی آلودگی سے بھری اس دنیا میں ایک بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کم ازکم یہ پوری دنیا میں بسنے والے افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ اتنا زیادہ کچرا پیدا کرنے کی آخر تُک کیا ہے؟ اور اس میں کمی کیسے کی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی بڑے اور امیر ممالک بھی ہوش میں آئیں اور اپنے کچرے کو اپنی حدود میں سڑاتے ہوئے یہ بھی سوچیں کہ اس فضلے کی ری سائیکلنگ آخر کیسے کی جائے۔
اس بات کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے کہ فضلے کی عالمی تجارت کس طرح کام کرتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ امیر ممالک اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے باقاعدہ ادائیگیاں کرتے ہیں اور غریب ممالک اس فضلے کو ری سائیکل کرنے کے معاہدوں کو قبول کرتے ہیں۔ دو سال قبل چین نے اس پلاسٹک فضلے پر پابندی لگاکرنا دانستہ طور پر شاید دنیا پر احسان کیا تھا۔ صرف 2016 میں چین نے دنیا کے دو تہائی پلاسٹک فضلے کو درآمد کیا تھا۔ چین کی طرف سے اس درآمد پر عاید پابندی نے دنیا کے بڑے ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ویسٹ مینجمنٹ کے نظام کو آخر کس طرح بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کیمطابق امریکا کا ہر شہری سالانہ 3700 بوتلوں کے برابر پلاسٹک کا کچرا پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ امیر ممالک اپنا پلاسٹک ویسٹ غریب ممالک کی طرف روانہ کرکے بھی فائدے میں رہتے ہیں اور اس کچرے کی فروخت سے بلین ڈالرز کا منافع کماتے ہیں۔ چین کی طرف سے درآمد روکنے کے بعد دنیا کے یہ امیر ممالک اپنا ایک بڑا خریدار کھو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں پلاسٹک ویسٹ کی تجارت باسل معاہدے کے تحت کی جانی چاہیے جو صرف صاف اور قابل ِ استعمال پلاسٹک کی تجارت کی اجازت دیتا ہے، لیکن افسوس اس معاہدے پر دستخط کرنیوالے ممالک بھی اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔
آسٹریلیا سمیت کئی ممالک کو انڈونیشیا نے پچھلے سال ستمبر میں بھی ان کا کچرا لوٹانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا، امریکا، جرمنی اور ہانگ کانگ سے یہاں آنیوالے پلاسٹک فضلے میں زہریلا مواد موجود ہے۔ عالمی اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پلاسٹک فضلے کی تجارت ایک بڑا اور منافع بخش کاروبار ہے۔ ملائیشیا میں پلاسٹک کی ری سائیکلنگ اور مینوفیکچرنگ کی صنعت 7.2 بلین ڈالرکا بزنس ہے۔
ترکی میں بھی جرمنی اور یوکے سے درآمد کیے جانے والے پلاسٹک فضلے کو ری سائیکل کرکے بڑے پیمانے پر اشیاء بنائی جاتی ہیں، لیکن یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ اس پلاسٹک فضلے کا کروڑوں ٹن حصہ ری سائیکلنگ کے قابل نہیں ہوتا اور اس سے نجات پانے کے لیے اسے سمندربرد کرکے آبی مخلوق کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے، یا پھر زمین پر غیرمحفوظ طریقوں سے دفن کرکے حضرت انسان کی زندگی کو بے شمار بیماریوں سے لڑنے بھڑنے کے لیے وقف کردیا جاتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے حیران کن انکشاف کے مطابق بحیرہ روم ہر منٹ میں 33800 پلاسٹک کی بوتلوں کے برابر کچرے سے آلودہ ہورہا ہے۔ پلاسٹک پولوشن نے ہماری ہری بھری زمین کو رہنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا اور اس آلودگی کو روز بہ روز بڑھانے میں پلاسٹک فضلے کی عالمی تجارت بھیانک کردار ادا کر رہی ہے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بڑا کردار ادا کرسکتی ہے لیکن اس کی ناک کے نیچے ہی یہ گھناؤنا کاروبار دھڑلے سے کیا جا رہا ہے، اس لیے اس سے امید وابستہ کرنا وقت کو ضایع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس بڑے مسئلے پر قابو پانے کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو باہمی تعاون سے اس کے حل کے لیے متاثر کن اقدامات کرنا ہوں گے، ورنہ زمین کی کوکھ سے جنم لینے والی زندگی کے اختتام کا باعث یہ زمین ہی بن جائے گی۔