آئی ٹین کے ایک ویران اندھیرے راستے پر چلتے ہوئے روشنی کا چھپاکا ہوا اور راستہ دور تک روشن ہو گیا۔
"کیا کبھی روشنی کی کوئی کرن اس اندھیری وادی میں بھی چمکے گی، صبح آزادی کی آرزو میں جہاں رات طویل ہوئی جاتی ہے؟ "
ایک ہوک کی صورت یہ سوال میری زبان پر آیا تو ارشاد محمود جو میری دائیں جانب تھے، چلتے چلتے رک گئے اور کہا:
"قسم خدا کی فاروق بھائی!عین اسی لمحے یہی بات میں بھی سوچ رہا تھا۔"
نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اسلام آباد کا یہ سیکٹر پر سکون، سنسان اور خوب صورت اتنا تھا کہ رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کے لیے نکلے ہوئے قدم خواہ مخواہ طویل ہو جاتے اور جی چاہتا کہ انسان چلتا جائے، سوچتا جائے اور دنیا کے مسئلے حل کرتا چلا جائے۔
یوں، آزادی کشمیر کا معاملہ کوئی اتناتازہ بھی نہیں، کہنے کو تو یہ برصغیر کی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا ہے لیکن سچ تو وہ ہے جس کی طرف اقبالؒ کے اس شکوے میں اشارہ ملتا ہے کہ قومی فروختند و چہ ارزاں فروختند۔ مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے حق خود ارادیت کا معاملہ اس سے بھی کہیں پرانی بات ہے لیکن نوے کی دہائی کا زمانہ کئی اعتبار سے بڑا اہم ہے کیوں کہ یہی وہ زمانہ ہے جب تحریک آزادی ایک نئے عہد میں داخل ہوئی اور یہ مسئلہ پوری دنیا کے سامنے ایک نئی آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوا کیونکہ جہادی نوجوانوں نے اس زمانے میں بندوق اٹھا کر نہ صرف کشمیر کے اندر بلکہ جہاں جہاں تک ان کی آواز پہنچی، یہ پیغام پہنچا دیا وہ کشمیر پر بھارت کے قبضے کو غاصبانہ واردات سمجھتے ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے وہ کسی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔
کوئی مسلح تحریک عالمی سیاست کی بساط پر اس وقت تک برپا نہیں سکتی جب تک اسے سیاسی قیادت کی سرپرستی حاصل نہ ہو لیکن عسکریت بذات خود اور اس کی کارفرمائی کے زمانے میں ایسی ہنگامہ خیزی اور زورا زوری ہوتی ہے کہ اس قسم کی ٹھنڈی باتیں کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اس طرح کی تحریکوں کا ایک اور مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ قیادت عمومی طور پر بہتے دریا کے ساتھ بہنا پسند کرتی ہے اور کسی نئی بات کے سوچنے کی اوّل تو ہمت ہی نہیں کرتی اور خوش قسمتی کے ساتھ اگر ایسا ہو بھی جائے تو اسے پالیسی کے طور پر اختیار کرنا تو دور کی بات، برسرعام اس کے اظہار کی ہمت بھی نہیں کرتی۔
مقبوضہ کشمیر کے اس زمانے کے حالات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان قیادت کی کیفیات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔ عسکریت کا جادو چوں کہ سر چڑھ کر بولتا تھا، اس لیے عمومی طور پر ایسی باتیں ہی سامنے آتی تھیں اور مصرع طرح پر ان کی لے اٹھائی جاتی تھی جو عسکری تنظیموں یعنی متحدہ جہاد کونسل یا اس سے وابستہ کمانڈروں وغیرہ کی طرف سے سامنے آتی تھی۔ عین اسی زمانے میں جب مقبوضہ کشمیر تا پاکستان سکہ رائج الوقت کچھ اور تھا، سید علی گیلانی نے ان سطور کے لکھنے والے کو اپنے انٹرویو میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے کہی کہ عسکریت کو سیاسی قیادت کے تابع ہونا چاہیے۔
جن لوگوں کو نوے کی دہائی کے ان برسوں میں تحریک آزادی کشمیر کا ماحول یاد ہو گا، وہ یقیناً سمجھ پائیں گے کہ گیلانی صاحب نے عسکریت کو سیاست کے تابع کا پیغام کیوں دیا اور وہ اس زمانے کی عسکریت سے کیا خدشات محسوس کرتے تھے۔ بعد کے برسوں میں جب دنیا کے حالات بدلے، سید صاحب کے تمام کے تمام خدشات درست ثابت ہوئے۔
گیلانی صاحب ایک زیرک سیاستدان تھے، اپنے ہدف پر جن کی نگاہ ہمیشہ رہتی۔ اپنی زندگی کے بیس برس تک قید و بند میں گزار دینے والے اس شخص نے اپنی زندگی میں اس کا ثبوت بارہا پیش کیا۔ ایک بار جب میں نے ان کا انٹرویو کیا، ذرایع ابلاغ میں بھارت تا پاکستان یہ موضوع زیر بحث تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں اتنی بار گورنر راج لگایا جا چکا ہے کہ اب وہاں قانونی طور پر اس کی گنجائش نہیں رہی۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سیاست دان بھی اس زمانے میں بالعموم اسی مسئلے پر اظہار خیال کیا کرتے تھے۔
یہی سوال جب میں نے ان سے کیا تو گیلانی صاحب نے ہنکارا بھر کر کہا، بھارت مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج بر قرار رکھا سکتا ہے یا نہیں، یہ میرا مسئلہ نہیں، میرا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کے ناپاک قدم اس سرزمین سے نکلتے کیسے ہیں۔ بظاہر یہ ایک عام سا بیان لگتا ہے اس زمانے میں ایک خاص قسم کے ماحول میں ایک ہی قسم کے معاملے پر لے دے کرنے والوں کے ہجوم میں ایسی بات کرنے والے کی شخصیت کی گہرائی سمجھ میں آتی ہے۔
اس واقعے کا موازنہ اگر جنرل مشرف کے زمانے کے حالات سے کیا جائے جب انھوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں اپنی نام نہاد آٹ آف باکس تجاویز کے نام سے پاکستان کے اصولی اور قانونی مؤقف سے روگردانی کر کے مقبوضہ کشمیر کے کئی سیاست دانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا تو اس موقعے پر بھی یہ سید علی گیلانی تھے جنھوں نے ادھر ادھر کی فضولیات پر وقت ضایع کرنے کے بجائے اصل ہدف پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھی اور سرخرو ہوئے۔ اپنے مقاصد اور اہداف کے سلسلے میں وہ جتنے واضح اور دو ٹوک تھے، بر عظیم پاک و ہند کی سیاسی قیادت میں اس کی صرف ایک ہی مثال ملتی ہے اور وہ ہیں، قائد اعظمؒ۔ تاریخ آج نہیں تو کل تسلیم کرے گی کہ انھوں نے قائد اعظمؒ جیسی جرات مندانہ اور اصولوں پر مبنی سیاست پر کاربند رہ کر اپنے عظیم مقصد کی آبیاری کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں قائد اعظمؒ جیسی سیاست کر کے تحریک آزادی کو بام عروج پر پہنچا دیا۔
آیندہ جب کبھی بھی یہ تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی، مقبوضہ کشمیر کے لوگ قائد اعظمؒ کی طرح ہی ان کو تعظیم دیں گے۔ قائد اعظمؒ خوش قسمت تھے کہ قرار داد لاہور کے بعد حالات بتدریج اس طرح سازگار ہوئے کہ مسلمانوں کے اتحاد میں اضافہ ہوا اور مسلم لیگ کی طاقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ قائد اعظمؒ کے برعکس سید علی گیلانی کی مشکل یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر اور باہر پاکستان میں بھی حقیقی معنوں میں ان کے ساتھ چلنے والے بہت کم تھے۔
یہاں تک کہ خود جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس طرح کے حالات ہوتے ہیں جن سے نبردآزما ہونے کے لیے قیادت کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ سید صاحب نے تمام عمر چومکھی لڑائی لڑی اور تنہا لڑی۔ وہ تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی چہرہ تھے یہی چہرہ اپنے بعد بھی اس تحریک کی قیادت کرتا رہے گا کیونکہ ان کی سیاسی وراثت ہی آزادی کے متوالوں کو اتحاد کی لڑی میں پرونے کے علاوہ اپنے کامیابی کی منزل تک پہنچائے گی۔