بالآخر افواہوں اور دعوئوں کے برعکس عام انتخابات کا آخری مرحلہ بھی 16 ویں قومی اسمبلی کے ارکان کی تقریب حلف وفاداری کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ 336 ارکان کے ایوان کے 266 ارکان براہ راست منتخب ہوکر رکن قومی اسمبلی بنتے ہیں باقی ماندہ نشستیں خواتین اور اقلیتوں (دیگر مذہبی برادریوں) کے لئے مختص ہیں۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کے 302 ارکان نے حلف اٹھایا۔ حلف برداری سے قبل اور بعد میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ سنی اتحاد کونسل کے بعض ارکان پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے پر زور دیتے رہے جس پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے جواب دیا کہ پہلے آپ قانون کے مطابق رکن قومی اسمبلی تو بن جائیں پھر پوائنٹ آف آرڈر پر بات بھی کرلیجئے گا۔
سپیکرکے اس جواب پر علی محمد خان اور اسد قیصر نے موقف اپنایا کہ سپیکر آئین کو بلڈوز کررہے ہیں۔
بدھ کی شام قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے جمعرات کو آئینی تقاضوں کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا جس کے چند گھنٹے بعد صدر مملکت نے بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی سمری پر دستخط کردیئے۔ صدر نے پہلی سمری یہ کہتے ہوئے مسترد کردی تھی کہ ایوان نامکمل ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا اجلاس بلانے سے متعلق اعلامیہ صدر کی مرضی کے بغیر اور غیرقانونی تھا۔
صدر مملکت نے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے پارٹی رکن کے طور پر جذبات کا مظاہرہ کیا جبکہ وہ اس امر سے آگاہ تھے کہ اگر عام انتخابات کے انعقاد کے 21 دن بعد صدر مملکت اور صوبائی گورنرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا اجلاس نہیں بلاتے تو اجلاس کے انعقاد کے لئے متعلقہ اسمبلیوں کے سیکرٹریز سپیکرکے احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب تاخیر کے ساتھ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی دوسری سمری پر دستخط کرتے ہوئے صدر مملکت نے نگران وزیراعظم کی جانب سے لکھے گئے خط پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کو ریاست اور جمہوری نظام کے سربراہ (صدر مملکت) سے اس زبان میں بات نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن خود صدر مملکت مارچ 2022ء سے اب تک متعدد مواقع پر ریاست اور جمہوری نظام کے سربراہ کا کردار ادا کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے رکن کے طور پر پارٹی وفاداری کا جس طور مظاہرہ کرتے رہے وہ بھی صدر مملکت کے فرائض کے حوالے سے موجود دستوری شقوں سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔
16ویں قومی اسمبلی کی تقریب حلف وفاداری کے موقع پر ایوان کے اندر موچی دروازہ کے اجتماع کے انداز و جذبات میں ہونے والی نعرہ بازی پر نرم سے نرم الفاظ میں افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے بعض نعروں میں جو زبان استعمال کی وہ ہر دور کے جمہوریت اور سماجی اخلاقیات سے بے بہرہ ہونے کا ثبوت ہے اسی طرح سنی اتحاد کونسل کے بعض ارکان کی جانب سے حاضری رجسٹری پر دستخط کے وقت کی گئی نعرے بازی کو بھی سیاسی جلسوں کے شوق کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ چار بار اقتدار کا حصہ بننے والی مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ہی نہیں بلکہ ایک سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے بھی ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ارکان اسمبلی کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ عوام نے انہیں رکن قومی اسمبلی کے طور پر فرائض ادا کرنے، ملک اور عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کی امید پر ووٹ دیئے ہیں ناکہ قومی اسمبلی کے ایوان میں لڑکوں بالوں کے سے انداز میں بلاوجہ کی اچھل کود اور نعرے بازی کے لئے۔
ہر دو جماعتوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو ایوان کے وقار و ضوابط کو بہرصورت مدنظر رکھنا چاہیے۔
امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ارکان قومی اسمبلی آئندہ اجلاسوں میں مخالفین کو نیچا دیکھانے کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے بازی کی بجائے اپنے فرائض کی بجاآوری پر توجہ مرکوز کریں گے۔ دوسری جانب جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کے دیگر ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ رکن اسمبلی کے طور پر تو حلف اٹھالیا لیکن سپیکر و ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کے انتخابات کے مرحلوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ مولانا کا کہنا ہے کہ یہ عوام کی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی اسمبلی ہے ایسا ہی ہے تو ان کی جماعت کے ارکان کیا اسٹیبلشمنٹ کی "مرضی" کے بغیر جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں؟
امر واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں آج تک ایک بھی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس پر طرفین (شرکت کرنے والی سیاسی جماعتوں) نے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے شفاف الیکشن قرار دیا ہو اب تک ہونے والے تمام انتخابات کے بعد انتخابی عمل میں شرکت کرنے والی جماعتوں نے الزامات کی چاند ماری ہی نہیں کی بلکہ احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا۔
حالیہ انتخابات کے نتائج سے نالاں بعض سیاسی جماعتیں اور اتحاد بھی احتجاج کا ڈول ڈالے ہوئے ہیں جبکہ سیاسی احتجاج سے زیادہ بہتر عمل متعلقہ فورمز سے رجوع کرنا ہے۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر گوہر علی خان کے اس موقف کا تعلق ہے کہ ان کے ساتھیوں کی قومی اسمبلی میں حقیقی تعداد 188ہے اور جونہی یہ تعداد پوری ہوئی ہم حکومت بنائیں گے اس پر فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان قوم کو یہ ھرور بتائیں ان کے کتنے ساتھی انتخابی نتائج کے خلاف متعلقہ فورمز پر گئے ہیں؟
بہرطور 16ویں قومی اسمبلی کی تقریب حلف وفاداری اور تشکیل کا عمل مکمل ہونے پر عوام یہ امید کرتے ہیں کہ ارکان اسمبلی پارٹی وفاداریوں سے بالاتر ہوکر ان کے مسائل کے حل اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کے خاتمے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔