8 فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے عام انتخابات کیلئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کی چھان بین کا مرحلہ گزشتہ روز مکمل ہوگیا۔ ملک بھر میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے لئے 28686 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
چھان بین کے مرحلہ میں مجموعی طور پر 3342 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مختلف وجوہات پر مسترد کئے گئے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے 1184 امیدواروں اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 2156 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے، ان میں سے پاکستان تحریک انصاف کے 381، پی پی پی کے 41 اور مسلم لیگ (ن) کے 24 امیدوار بھی شامل ہیں جبکہ جی ڈی اے کے 7 امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے۔
یاد رہے کہ 2013ء میں سب سے زیادہ 3800 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے تھے جبکہ 2018ء میں 1896 امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے تھے۔
حالیہ انتخابی عمل میں جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے وہ اب ان فیصلوں کو الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کریں گے۔ کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کے فیصلوں کے خلاف الیکشن ٹربیونلز میں درخواستیں جمع کرانے کے سلسلے کا آغاز ہوگیا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے ان میں بلوچ رہنما سردار اختر مینگل بھی شامل ہیں۔ ان پر متحدہ عرب امارات سے حاصل کیا گیا اقامہ ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔ جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری، سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی کھر تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجازالحق کے علاوہ اعظم سواتی، علی محمد خان، فہمیدہ مرزا، ان کے شوہر اور صاحبزادے کے کاغذات بھی مسترد ہوگئے۔ مرزا فیملی پر نادہندگی کا الزام درست ثابت ہوا۔
2018ء کے انتخابات میں انہی الزامات کے باوجود نہ صرف مرزا فیملی کے تینوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کرلئے گئے تھے بلکہ انتخابی نتائج کے وقت فہمیدہ مرزا کے مخالف امیدوار کے 9500 ووٹ مسترد کرکے انہیں کامیاب قرار دے دیا گیا انتخابی قوانین کی اس خلاف ورزی کا فیصلہ اگلے پانچ برسوں میں نہ ہوسکا۔
پنجاب کے ایک سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کردیئے گئے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے کاغذات نامزدگی انہیں دی گئی عدالتی سزا اور الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلے کی بنیاد پر مسترد کئے گئے۔
سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنمائوں نے گزشتہ روز بھی اپنے اس الزام کو دہرایا کہ خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب میں اسکے امیدواروں کے تجویز و تائید کنندگان کی بڑی تعداد کو نجی گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد متعلقہ ڈی آر اوز اور اے ڈی آر اوز کے دفاتر کے احاطے سے اغوا کرکے لے گئے۔ تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں نے اپنے الزامات کے حق میں ثبوت کے طور پر چند ویڈیوز اور تصاویر بھی پیش کیں۔
دوسری جانب نگران وزیر اطلاعات کہتے ہیں کاغذات نامزدگی کی منظوری یا مسترد ہونا آئینی عمل کا حصہ ہے۔ نگران حکومت کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف شہروں سے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سرکاری دفاتر کے احاطوں سے گرفتار اور اغوا ہونے والے افراد کو کسی ماورائی مخلوق نے اغواکیا ہے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ الیکشن 2024ء اپنے انعقاد سے قبل ہی 2013ء اور 2018ء کے انتخابات کی طرح متنازعہ ہونے جارہے ہیں۔ 2013ء میں خفیہ قوتوں کی آشیرباد سے کالعدم تحریک طالبان اور دوسرے مسلح جتھوں نے پیپلزپارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم کے امیدواروں کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایاتھا۔
پیپلزپارٹی اور اے این پی کو تو باضابطہ طور پر تحریک طالبان، لشکر جھنگوی وغیرہ نے انتخابی مہم چلانے کی صورت میں خطرناک نتائج کا سامناکرنے کی دھمکیاں دی تھیں۔
2013ء کے انتخابات سے قبل اس وقت کے ایک اعلیٰ پولیس افسر جو بعد میں پنجاب کے آئی جی مقرر ہوئے اور ریٹائرمنٹ پر وفاقی ٹیکس محتسب بنادیئے گئے، نے مسلم لیگ (ن) اور کالعدم لشکر جھنگوی کے درمیان مفاہمتی سمجھوتہ کروایا تھا۔
2018ء کے انتخابات کے لئے اس وقت کی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ہونے والی انتخابی مینجمنٹ کا عالم یہ تھا کہ "ایک ہی دن میں پنجاب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے 40 امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ واپس کرکے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا"۔
مسلم لیگ (ن) کے جن سابق ارکان اسمبلی اور وزراء نے پارٹی سے الگ ہوکر "جنوبی پنجاب صوبہ محاذ" کے نام سے پارٹی بنائی اس دھڑے کو نئی جماعت سمیت تحریک انصاف میں شامل کرانے کے لئے جنرل فیض حمید نے اپنا سرکاری اثرورسوخ استعمال کیا۔ عمومی خیال یہی تھا کہ پچھلے دو انتخابات کے دوران اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشا سے ریاستی محکموں اور غیرریاستی لشکروں نے جو ہتھکنڈے آزمائے اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی، دوریوں اور دوسرے مسائل کو مدنظررکھتے ہوئے اس بار کوشش کی جائے گی کہ انتخابات آزادانہ منعقد ہوں۔ بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دے رہا۔
بالفرض تحریک انصاف کے الزامات کو "درشنی فیشنی" بھی مان لیا جائے تو بھی بعض واقعات کے حوالے سے موجود تصاویر اور ویڈیوز جو کہانیاں سناتی دیکھاتی ہیں ان سے صرف نظر کیسے کیا جائے؟
یہ امر بجا کہ کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کا عمل الیکشن ٹربیونلز میں چیلنج ہوگا لیکن گرفتاریوں اور اغوا کی کارروائیوں سے متاثرہ خاندانوں کی دادرسی کون کرے گا۔ ہماری دانست میں نگران حکومت کے غیر جانبدارانہ کردار اور الیکشن کمیشن کا آئین پر عمل کرنے کا مسلسل دعویٰ کافی نہیں غیرجانبدارانہ کردار اور آئین پر بہرصورت عمل ہوتا ہوا دیکھائی بھی تو دینا چاہئے
اسی طرح ایک شکایت یہ بھی ہے کہ بعض کالعدم جماعتوں کے ذمہ دار الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ گمنام پارٹیوں کے امیدواروں کے طور پر میدان میں ہیں۔ انتہا پسندی، دہشت گردی اور تکفیر میں مسلسل متحرک رہنے والے بعض افراد کو فورتھ شیڈول سے نکال کر سیاسی عمل میں نئی جماعتی شناخت سے حصہ لینے کی اجازت کس کے ایما پر دی گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی شکایات پر غور کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کے لئے ضروری اقدامات ہوں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہنے والے افراد کو انتخابی عمل میں شرکت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔
انتخابی عمل کے اب تک کے دو مرحلوں میں گرفتار اور اغوا کئے جانے والے افراد کی رہائی و بازیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ زیادہ نہیں تو کم از کم پچھلے دو قومی انتخابات کے حوالے سے جو منفی رائے زبان زد عام ہے وہ فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے جنم لینے اور زبان زد عام نہ ہونے پائے۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ حکومت غیرجانبدار ہے، ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں، عملی طورپر غیرجانبداری اور اداروں کا حدود میں رہ کر فرائض ادا کرنا دونوں کا دیکھائی دینا ازبس ضروری ہے۔