نصف صدی میں یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنی بھابی امی کی قدم بوسی کرکے ان سے رخصت کی اجازت چاہی تو انہوں کہا "دعا کرتے رہنا اللہ تعالیٰ مزید کسی امتحان میں نہ ڈالے"۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ پچھلی نصف صدی کے دوران مجھے جہاں بھی (خاندان میں کسی غمی خوشی کے مواقع پر) ان کی قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی انہوں نے ہمیشہ کہا "جاوید تم اپنا خیال رکھا کرو صحت پر توجہ دو۔
میں نے سنا ہے تم سگریٹ پیتے ہو تمہارے بھیا ابو نے بھی سگریٹ چھوڑ دی تم بھی اسے دفع دور کرو"، پھر جب میری شادی ہوگئی تو قدم بوسی کی ہر سعادت کے موقع پر وہ پہلے میری اہلیہ کی صحت و تندرستی بارے دریافت کرتیں پھر میرے کان کھینچتیں وہی لگی بندھی ہدایات۔
گزشتہ سے پیوستہ روز وقت رخصت جب میں نے قدم بوسی کرکے اجازت طلب کی تو انہوں نے صرف یہ کہا "دعا کرتے رہنا اللہ تعالیٰ مزید کسی امتحان میں نہ ڈالے"۔ واپسی کے سفر کا ایک مرحلہ ہمشیرہ اور بھانجے کےساتھ طے کرنا تھا اس لئے بڑے ضبط کے ساتھ بہن اور بھانجے سے باتیں کرتا رہا لیکن دل و دماغ میں ایک ہی بات گونجتی رہی کہ ہمیشہ دعائیں دینے والی بھابی امی کو اب دعائوں کی ضرورت پڑگئی ہے۔
ان کے مجازی خدا اور ہمارے بھیا ابو جو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں۔
امڑی سینڑ (امی حضور) کے بعد ہمارے سروں سے دعائوں کا وہ سائبان ہٹ گیا جو آفتوں اور امتحانات کو روکتا تھا۔ 26 جنوری کی شام ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ بھیا ابو جی دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔ وہ گزشتہ دو ہفتوں سے علیل تھے۔
خالق نے اپنی تخلیق کے لئے زندگی کے جو ماہ و سال طے کئے تھے وہ ختم ہوئے۔ امڑی سینڑ (امی حضور) کی رحلت کےبعد گزشتہ بائیس برس سے ان کا معمول تھا وہ جہاں بھی گئے بہنوں کو ہر اتوار کو لازماً ٹیلیفون کرتے۔ ہر ماہ کی 30 یا 31 یا پھر نئے ماہ کے پہلے دن کی صبح ان کا فون آتا اور وہ پوچھتے "باوا جی کیسے ہو، میں نے سوچا ماں جائے کی خیریت دریافت کرلوں۔ اس ماہانہ ٹیلیفون میں دوسوال لازمی پوچھتے، "صحت کیسی ہے ادویات استعمال کرنے میں لاپروائی تو نہیں کرتے۔ اچھا آجکل کون سی کتاب پڑھ رہے ہو پچھلے ایک ماہ میں کون کون سی کتاب خریدی؟"
پہلے صحت بارے سوال کا جواب دیتا تو وہ ہنس کر کہتے، باوا جی مجھ سے زیادہ کس کو پتہ ہے کہ تم ادویات کے معاملے میں کتنے لاپروا ہو۔ پھر کتابوں پر بات کرتے۔
مہینہ بھر قبل انہوں نے فون کیا میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے "باواجی مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ ان دنوں تم تھوڑے تھوڑے ملحد ہوگئے ہو یا "دیوارِ الحاد" کے سائے میں سکون لے رہے ہو؟" پھر ہنس کر بولے چلو اگلی ملاقات میں اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔
اگلی ملاقات ان سے اس طور ہوئی کہ وہ ہسپتال کے بستر پر بے سدھ پڑے تھے۔ آکسیجن لیول اس وقت 73 فیصد تھا جو 26 جنوری کی صبح تک 40 سے 43 فیصد ہوگیا پھر مزید نہیں بڑھ پایا۔ اپنے حصے کا سفر حیات طے کرکے ہمارے بھیا ابو جی دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔
25 جنوری کی شام جب میں ان کی تیمارداری کے لئے ہسپتال پہنچا تو ان کے داماد ڈاکٹر سید ضمیر نے کہا "چچا جان، ابو یہ جو الٹا ہاتھ سر تک لے جارہے ہیں دو دن کے بعد ایسا ہورہا ہے لگتاہے ابو جی بہتری کی جانب پلٹ رہے ہیں"۔ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں ان کے داماد سے کہا "لگتا ہے کہ بھیا ابو کو پتہ چل گیا ہے کہ ان کا نالائق ملنگ بھائی آیا ہے وہ اس بیہوشی میں بھی سلام و یا علی مددؑ کا جواب دے رہے ہیں"۔
بیمار اور بے سدھ نہ ہوتے تو اپنی گونج دار آواز میں کہتے آو باوا جی سخی پر مولا علیؑ مدد ہر گھڑی ہر پلک"۔ پھر مسکراکر کہتے "باواجی بہت سارے رشتہ دار تیری شہادت کے خواہش مند ہیں"۔
ان کی اس بات پر ہم دونوں دیر تک ہنستے رہتے۔ بھیا ابو جی ہم سات بھائیوں میں سب سے بڑے اور 14 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ وعظ والی سیدہ عاشو بی بیؒ کی اولاد میں سب سے زیادہ صاحب علم، نرم خو وسیع مطالعہ اور مطالعے کو ایک ہزار سے ضرب دیں تو ان کے حلقہ احباب کا حساب بنتا ہے۔
چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے ایک ہی وقت میں سخت گیر باپ اور نرم خود امڑی کا کردار انہوں نے بطریق احسن ادا کیا۔ ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع رہا جو کماتے اس کے تین حصے کرتے ایک سے گھر داری، دوسرے حصے سے دوست نوازی اور تیرے حصے سے ہر سال اپنی اہلیہ محترمہ (ہماری بھابی امی) کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کرتے، ان کی کوشش ہوتی کہ ماہ رمضان مدینہ منورہ میں گزرے۔
بھیا ابو جی صوفی منش انسان تھے۔ زمانے کے جھل پھل سے ساری عمر خود کو محفوظ رکھا۔ ہمیشہ چھوٹے بہن بھائیوں کی فکر میں رہتے۔ بہن بھائی اور ان کے دوستوں کا وسیع حلقہ اس بات کا شاہد ہے کہ سب سے زیادہ میرے لئے فکر مند رہتے۔
اس فکر مندی کی بہت ساری وجوہات رہیں لیکن وہ میری جدوجہد، محنت اور اپنے شعبہ میں ملی کامیابیوں کا ذکر دوستوں سے کرتے وقت خوشی سے پھولے نہ سماتے اور یہ بھی کہتے "میں اس نالائق سے کہتا رہتا ہوں اپنے سفر حیات کی داستان ضرور لکھو یہ آئندہ نسلوں کے لئے خاصے کی چیز ثابت ہوگی"۔
کبھی کبھار ان کا کوئی دوست اور رشتے دار میرے نظریات اور موجودہ خیالات پر ان سے سوال کرتا تو رسان سے کہتے "میں بہت خوش ہوں اپنے اس بھائی سے کیونکہ اس کے پاس نسب کے علاوہ سب کچھ اپنی محنت و مطالعہ سے حاصل کیا ہوا ہے"۔
اپنے بارے میں ان کی یہ رائے درجنوں بار پرواز کرتے ہوئے مجھ تک پہنچی تو میں نہال ہوگیا۔ میں اس وقت 65 برس کا ہوں میرے بھیا ابو جی مجھ سے 5 سال بڑے تھے۔ اس سفر حیات کے طویل دورانیہ میں انہوں نے مجھے فقط ایک بار ڈانٹا اور غصے میں تھپڑ جڑدیا۔
اس تلخی کی وجہ یہ بنی کہ کسی معاملے پر بات کرتے ہوئے میں نے کہہ دیا "اقبال تو کریانہ سٹور ہے جہاں سے کوئی گاہک خالی نہیں جاتا، ہم تو مرشد جی ایم سید کو محبوب رکھتے ہیں کیا زندہ زمین زادہ ہیں مرشد"۔
ہمارے جواب تلخی اور اپنے ردعمل پر وہ اگلے چند دن ملول رہے پھر امی حضور کے توسط سے صلح کا نقارہ بجاتے ہوئے صرف اتنا کہا دیکھو حیدر! کسی کے بارے میں اچھی بری رائے رکھنا تمہارا حق ہے بس الفاظ کے چنائو میں احتیاط واجب ہے۔ عدم احتیاط تمہیں سڑک چھاپ آدمی سے زیادہ مقام نہیں دے گی۔
میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اب تک سنبھال رکھی ہے۔ چند ہفتے قبل ان کا فون آیا انہیں"اقبال اکیڈمی" کی کچھ کتابیں چاہئیں تھیں۔ لگ بھگ تین چار گھنٹے بعد دوبارہ فون کرکے بولے باوا جی میری اقبال اکیڈمی والوں سے بات ہوگئی ہے انہیں پیسے بھی بھیج دیئے ہیں وہ کل کتابیں مجھے بھجوادیں گے۔ تم نے جن دوستوں کو زحمت دی ہے ان کا شکریہ ادا کردینا۔
ان کی زندگی چار حصوں میں تقسیم تھی محنت و گھر داری، بہن بھائی، دوست نوازی، کتابوں کا حصول اور مطالعہ۔
بلاشبہ اپنے مطالعے کے حساب سے وہ وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ اپنے وسیع مطالعے کی بدولت ہی بھیا ابو جی ولایت امام علیؑ کے اقرار کی منزل تک پہنچے۔
پانچ برس قبل روز عاشور ظہرین کے وقت انہوں نے مجھے فون کیا اور کہنے لگے "باوا جی پہلے شہدائے کربلا کا پُرسہ قبول کرو اور پھر اس بات کے اقرار کا دونوں جہانوں میں گواہ رہنا کہ میں ولایت امام علیؑ کا اقرار کررہا ہوں"۔ ہمارے بہت سارے ننھیالی و ددھیالی رشتہ داروں کے نزدیک میں اسی وجہ سے ہمیشہ مرتد سمجھا جاتا رہا اور ہوں کہ ان کا خیال ہے کہ ہمارے خاندان میں جو فکری نظری تبدیل کے ساتھ چند افراد نے فقہی طور پر روایات پسندی کی بجائے الگ راستہ اپنایا اس کا ذمہ دار صرف اور صرف میں ہوں۔
پتہ نہیں کہ وہ یہ کیوں نہیں سمجھ پاتے کہ فکری و نظری تبدیلی پانی میں گھوٹ کر نہیں پلائی جاسکتی۔ یہ لوگ اگر بھیا ابو جی کی میرے بارے میں حتمی رائے سے آگاہ ہوتے تو بکھیڑوں میں نہ پڑتے۔
حرف آخر یہ ہے کہ بھیا ابو جی کی داستان ایک کالم میں نہیں سموئی جاسکتی۔ ان کی ذات، جدوجہد، فہم و فکر اور محنت بھری زندگی اور دوسرے پہلوئوں کا تفصیل سے اپنی سوانح عمری میں ذکر کروں گا۔
فی الوقت فقط یہی کہ چند ماہ کے وقفے سے دو بھائیوں کا جنازہ اٹھانا اور تدفین کے عمل میں شریک ہونا زندگی کا تلخ ترین امتحان ہے ایک ایسا امتحان جس نے بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
حق تعالیٰ ہمارے بھیا ابو جیؒ کو سرکار دو عالم ﷺ و حسنین کریمینؑ کے محبین میں شمار فرمائے آمین۔
ایک اور بات جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ "بھیا ابو جی والد محترم اور امڑی حضور کے سانحہ ارتحال پر آپ نے کہا تھا میں زندہ ہوں تم لوگ نہیں میں یتیم ہوا ہوں" اب ہمیں کیوں یتیم بنائے گئے آپ؟