جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں 8 فروری کے پولنگ ڈے میں 19 دن اور جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے 17دن باقی ہوں گے لیکن انتخابات والی گہماگہمی کم از کم پنجاب میں تو دیکھائی نہیں دے رہی۔ سوشل میڈیا پر کچھ شور ضرور ہے لیکن انتخابی میدان میں عجیب سا سناٹا ہے۔
لاہور کے ایک حلقہ (این اے 127) میں کچھ رونق ہے یہاں سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو امیدوار ہیں۔ مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے عطاء اللہ تارڑ اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار ظہیر عباس کھوکھر ہیں۔
یہ ظہیر عباس کھوکھر 2002ء میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور تھانہ ہنجروال کے ایس ایچ او کے ہانکنے پر فیصل صالح حیات اور رائو سکندر اقبال کی پیپلزپارٹی پیٹریات کا حصہ بن گئے۔ عطاء اللہ تارڑ مشہور زمانہ ابا جی رشید کمپنی کی فخریہ پیشکش جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ کے پوتے ہیں۔
مرحوم تارڑ صاحب پاکستان کے صدر بھی رہے۔ رفیق تارڑ کا پیچھا ساری عمر ایک قصہ کرتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ انہوں نے بھٹو دور میں غیرمسلم قرار پائے ایک فرقے کے لوگوں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے اسی حملے کے "زخم" کے عوض وہ نچلی عدالتوں کے جج بھرتی ہوئے پھر ترقی کرتے کرتے سپریم کورٹ پہنچے۔
میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں جب سپریم کورٹ کے بعض ججز نے اپنے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت کی تو رفیق تارڑ "بابا بریف کیسوں والا" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ منصب صدارت پر ان کا جلوہ افروز ہونا خالصتاً "ابا جی" (میاں نوازشریف کے والد مرحوم میاں محمد شریف) کی خواہش تھی فرمانبردار بیٹے نے ابا جی کی خواہش پوری کی۔
معاف کیجئے گا عطاء اللہ تارڑ کے تذکرہ سے ان کے داد حضور یاد آئے اور پھر بھولی بسری یادیں تازہ ہوگئیں۔ جسٹس (ر) رفیق تارڑ جب صدر مملکت منتخب ہوئے تو میں نے مشرق پشاور میں"ابا جی اینڈ کمپنی کی فخریہ پیشکش" کے عنوان سے کالم لکھا تھا اس کالم کی سزا روزنامہ "مشرق" پشاور کو وفاقی وزارت اطلاعات کے توسط سے ملنے والے سرکاری اشتہارات میں 40 فیصد کمی کی صورت میں ملی تھی۔
تحریر نویس کو جو بھگتان بھگتنے پڑے وہ الگ داستان ہے۔
ہم بات یہ کررہے تھے کہ انتخابات میں 20 دن سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن انتخابات جیسا رونق میلہ کہیں نہیں۔ یہ رونق میلہ ان کے گھر بھی نہی ہے جن کے "بندے" کہتے پھرتے تھے "ساڈی گل ہوگئی اے"۔
ایک رائے یہ ہے کہ رونق میلہ اس لئے نہیں لگ پایا کہ انتخابات میں 20 دن رہ جانے کے باوجود لوگوں کو اب تک یہ یقین نہیں آرہا کہ انتخابات ہوں گے۔ سچ پوچیں تو "خود ہمارا بھی ایمان ڈانواں ڈول ہی رہتاہے"۔
دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان "بلا" لے لیا گیا ہے اس لئے رونق نہیں لگ پارہی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ انتخابی ماحول پر موسم اثرانداز ہے مگر فکر کی کوئی بات نہیں تحریک انصاف کے ووٹرز 8 فروری کو سیلاب کی طح نکلیں گے اور "سب کو" بہا لے جائیں گے۔
میں نے ایک دوست سے پوچھا اس "سب کو" میں کون کون شامل ہے کہنے لگے، شاہ جی ہم پلان سی کی جزئیات کیوں بتائیں۔ اس پر فقیر راحموں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، یار چودھری دھیان کرنا کہیں 9 مئی کی طرح پلان سی بیک فائر نہ کرجائے۔
چودھری نے ہم دونوں کو غصے سے دیکھا اور بولے "تہاڈے اندروں پیپل پارٹی نئیں نکلدی"۔
پیپلزپارٹی سے یاد آیا جیالے مستقبل کی وفاقی حکومت تو بنائی ہی کھڑے ہیں ساتھ میں یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ پنجاب میں بھی ہمارے بغیر حکومت نہیں بنے گی۔ یہ دعویٰ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کی 100 نشستوں تک لے جائے گی۔
سچ پوچھئے تو پیپلزپارٹی کے لئے نرم گوشے اور ووٹ کے باوجود میں اس دعوے پر اپنی ہنسی قابو میں نہیں رکھ پاتا لیکن جیالے دوستوں کے احترام میں زیادہ زور سے نہیں ہنستا۔
خیر کوئی بات نہیں انتخابی سیاست کے میدان میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف والے بھی قومی اسمبلی کی "336" نشستیں جیت جانے کا دعویٰ کر ہی رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی تو ویسے بھی گل ہوگئی ہے۔
تینوں بڑی جماعتیں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ 25 کروڑ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ 25 کو 3 سے ضرب دیں تو یہ 75 کروڑ بنتے ہیں۔ چھوٹی موٹی مذہبی، سیاسی اور علاقائی جماعتوں کا بھی اللہ مالک ہے۔
بار دیگر عرض ہے انتخابی رونق میلہ نہیں ہے۔ کل ایک دوست کہہ رہے تھے"شاہ جی تم اپنی علالت کے باعث لائبریری سے نہیں نکلتے ورنہ باہر بہت رونق میلہ ہے" آج یہ سطور لکھنے سے قبل میں رکشہ میں آدھا نہیں تو کچھ کم لاہور ضرور گھوم آیا ہوں روزمرہ کی معمول کی ٹریفک ہے اور لوگ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
میرا رکشہ والا کہہ رہا تھا "صوفی جی الیکشن نی ہونے میاں صاحب دی گل جو ہوگئی اے" میں نے اسے غور سے دیکھا اس کے بعد اس نے ایک لمبی تقریر جھاڑی۔ مہنگائی کے ستم گنوائے حالات کا رونا رویا۔ اس کی بات کاٹ کر میں نے دریافت کیا، سرکار ووٹ کس کو دیں گے؟
کہنے لگا، صوفی جی میرا رکشہ 8 فروری والے دن صبح سات سے شام تک کے لئے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں بک ہے گھر میرا رائے ونڈ روڈ پر ہے، مشکل ہی وقت ملے گا ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے پولنگ سٹیشن جانے کے لئے۔
ووٹ ڈالنا قومی ذمہ داری ہے، میں نے کہا۔ اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا "صوفی جی یہ پیٹ قومی ذمہ داری سے نہیں روٹی سے بھرتا ہے"۔
اس کڑوے سچ کے بعد مجھے جرات نہیں ہوئی اسے ووٹ ڈالنے کی مزید تاکید کرنے کی۔
ہاں تو ہم بات یہ کررہے تھے کہ انتخابی رونق میلہ نہیں ہے۔ میرے ملتانی دوست کہہ رہے ہیں ملتان میں رونق میلہ ہے۔ میں چونکہ لاہور میں مقیم ہوں سردی گھر سے نکلنے نہیں دیتی اس پر ستم معالجین کی ہدایات ہیں کہ امراض قلب کے مریضوں کو سردی سے بچنے کے خصوصی انتظامات کرنے چاہئیں اس لئے اپنی لائبریری میں بیٹھا مزدوری کرتاہوں۔ کتابیں پڑھتا ہوں گاہے فیس بک پر جہاد بھی کرلیتا ہوں۔
پچھلے دنوں جب بلاول بھٹو نے تین سو یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کو اپنی حکومت آنے کی صورت میں مفت بجلی دینے کا اعلان کیا تو لیگی دوستوں نے اس کا بہت مذاق اڑایا پھبتیاں کسیں۔ ایک دوست نے کہا جیالو تین سو یونٹ مفت بجلی رکھو گے کہاں؟
اب ستم یہ ہوا ہے کہ لیگیوں کی امیدِ سحر مریم نوازشریف نے حافظ آباد کے انتخابی جلسہ میں 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی دینے کا اعلان کردیا ہے امید سحر کے چچازاد حمزہ شہباز نے 100 یونٹ مفت بجلی دینے کا۔ دونوں بہن بھائیوں کے عقیدت مندوں سے جیالوں کا اب یہ پوچھنا بنتا ہے کہ "پیارے جاتی امرائیو یہ تین سو یونٹ بجلی رکھو گے کہاں کوئی جگہ شگہ بنالی کے نہیں"۔
ارے ہاں یاد آیا کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا "میں تے 19 ماہ سے کہہ رہا ہوں مجھ سے مذاکرات کریں لیکن کوئی سنتا ہی نہیں"۔ مگر ان کی پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر کا دعویٰ ہے کہ عمران خان ڈٹ کے کھڑا ہے وہ کسی سے مذاکرات نہیں کرے گا۔
خیر یہ ان کا آپسی معاملہ ہے۔ ویسے عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ فوج ہماری ہے 90 فیصد فوجی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ 2018ء میں حکومت بنانا ہماری غلطی تھی میں جنرل باجوہ کی میٹھی میٹھی باتوں میں آگیا تھا اصولی طور پر ہمیں الیکشن میں جانا چاہیے تھا۔
ہم امید کرسکتے ہیں کہ عمران خان ایک دن یہ اعتراف بھی کر گزریں گے کہ 2014ء میں 126 دن کا دھرنا غیرضروری تھا، مجھے جنرل پاشا، جنرل ظہیر اسلام اور آرمی چیف راحیل شریف کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کیونکہ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ وہ جو کرتے کہتے ہیں کچھ عرصے بعد اعتراف کرلیتے ہیں کہ میں غلط تھا ہمیں استعمال کیا گیا۔