سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے بیان حلفی طلب کرلیا ہے۔ تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت حلف دے کہ کسی شخص کو غیرقانونی طور پر نہیں اٹھایا جائے گا۔ حکم میں یہ بھی کہا گیا کہ لاپتہ افراد کمیشن 10 دنوں میں اٹارنی جنرل کو تفصیلات فراہم کرے۔ لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر لاپتہ افراد بل گم کردینے کے سنگین الزام کا بھی تذکرہ ہوا۔
کسی شخص کو غیرقانونی طور پر اٹھانے اور غائب کرنے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو تحریری بیان حلفی جمع کرانے کا حکم اپنی جگہ بجا، سوال یہ ہے کہ کیا لاپتہ افراد کے ورثا الزام وفاقی حکومت پر لگارہے ہیں؟
اس سنگین معاملے میں آج کی نگران وفاقی حکومت یا ماضی کی وفاقی حکومتوں کی اتھارٹی کی حد کیا ہے یہ کسی بھی ذی شعور شخص سے مخفی نہیں۔ خود لاپتہ افراد کے خاندانوں کی اس ضمن میں دعویداری کیا ہے یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
بالفرض اگر وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر تحریری بیان حلفی جمع کرا بھی دیتی ہے تو خود وفاقی حکومت اس امر کو کیسے یقینی بنائے گی اس کے دیئے گئے بیان حلفی کی بہر صورت پاسداری کی جائے۔ ہماری دانست میں اس مسئلہ کا حل صرف اور صرف پارلیمان ہی نکال سکتی ہے اسکے باوجود بھی کہ پارلیمان نے (اس مسئلہ کے پیدا ہونے سے گزشتہ حکومت کی رخصتی تک تین پارلیمانیں) اپنے کردار و فرائض پر توجہ ہی نہیں دی جوکہ اسے دینا چاہیے تھی۔
ثانیاً یہ کہ بلوچستان سے باہر چند درجن یا چند صد لوگوں کے سوا کسی کو علم ہی نہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔ پاکستانی سماج کا ایک بڑا طبقہ آج بھی اس حوالے سے ریاستی موقف کو درست سمجھتا ہے اس کا اندازہ حالیہ بلوچ لانگ مارچ اور اس کے اختتام پر اسلام آباد میں شروع ہوئے بلوچ دھرنے کے شرکاء کے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈے اور بے سروپا الزامات کی تکرار سے لگایا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا پر تو چلیں بے لگام گھوڑے دوڑتے پھر رہے ہیں خود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس پر ستم یہ کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بلوچ ایشو، لانگ مارچ اور دھرنے کی حمایت کرنے اور متاثرین کے مطالبات کی تائید کرنے والوں پر جن الفاظ میں تنقید کی اور جو سوقیانہ مشورہ دیا وہ زمینی حقائق کے منافی تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی دوچند ہوجاتا ہے کہ وفاق پاکستان اس معاملے میں کتنا سنجیدہ ہے۔
ان حالات میں وفاق پاکستان کے تحریری بیان حلفی کی حیثیت و اہمیت کیا ہوگی؟
بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا یقیناً ضروری ہے مگراس سے قبل شعوری طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسائل پیدا کیوں ہوئے۔
دوطرفہ تشدد کیوں در آیا اور ریاست کا چہرہ سمجھے جانے والے اس مسئلہ کو ملک سے غداری کیوں قرار دیتے ہیں اور بلوچوں کا ایک طبقہ مسائل کے حل کو قومی آزادی کی صورت میں کیوں پیش کرتا ہے۔
ہمارے سماج کا بنیادی المیہ یہ ہےکہ اس کے مختلف طبقات فہم و ادراک کا مظاہرہ کرنے، مکالمے کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور مسائل کو شعوری طور پر سمجھنے کی بجائے اگلے ہوئے لقمے چبانے کے شوق میں مبتلا ہیں۔ ہمارے لوگوں کی اکثریت بدقسمتی سے مقامی وسائل پر مقامی آبادی کے حق فائق ہونے کے اصول سے ہی واقف نہیں۔
ان کے نزدیک فیڈریشن کی اکائیوں کے وسائل فیڈریشن کی ملکیت ہیں مرکزی ملکیت کے اس تصور کا نتیجہ ہی ہے کہ بلوچستان سے پیدا ہونے والی سوئی گیس ملک کے دور دراز کے دیہاتوں تک میں تو دستیاب ہے لیکن 90 فیصد سے زیادہ بلوچستان اس سے آج بھی محروم چلا آرہا ہے۔
یہ ایک مثال ہے اس ضمن میں دوسری مثال گوادر میں تعمیر ہونے والی بندرگاہ کے حوالے سے ہے اس بندرگاہ کے مختلف شعبوں میں مقامی آبادی و بلوچستان کا بطور صوبہ کتنا حصہ ہے اور بلوچستان سے باہر کے علاقوں کے کتنے لوگ ہیں۔ یہ سوال بھی اختلاف کی ایک وجہ ہے۔
یہ بجا ہے کہ خود کو آزادی پسند کہنے والی بلوچ تنظیموں کے مسلح لوگوں کا طرز عمل بھی درست نہیں۔ مگر کیا نواب اکبر بگٹی کے سفاکانہ قتل اس سے قبل کے فوجی آپریشنوں اور جاری فوجی آپریشن کے حوالے سے پیش کردہ جواز سوفیصد درست ہے؟
تاریخی طور پر یہ اختلافات 75 برس پرانے ہیں درمیانی عرصے میں انہیں حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئی نتیجتاً آج ایک فریق (ریاست) کا موقف ہے کہ ناراض بلوچ اصل میں بعض بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی "را" اس سارے معاملے کے پیچھے ہے۔ بلوچوں کے بعض طبقات دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کے وسائل اور حقوق ہر دو کو پامال کیا جارہا ہے۔
زیادہ بہتر ہوتا اگر سپریم کورٹ ان محکموں کے ذمہ داروں کو وزارت دفاع کے توسط سے طلب کرکے ان سے بھی ان الزامات بارے سوال کرتی جو لاپتہ افراد یا لاپتہ ہونے کے بعد لاشوں کی صورت میں ملنے والے ا فراد کے ورثا اٹھاتے چلے آرہے ہیں۔
اس امر پر دو آراء نہیں کہ یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے ثانیاً لاپتہ افراد کے حوالے سے ایسی ہی شکایات خیبر پختونخوا اور سندھ کے علاوہ صوبہ پنجاب سے بھی سامنے آتی رہی ہیں۔
سندھ میں تو ماضی میں بعض لاپتہ افراد کی جلی ہوئی نعشیں بھی ملیں۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے لاپتہ افراد کیس میں بیان حلفی جمع کرانے کے لئے کہا ہے۔ اس وقت ملک میں نگران حکومت ہے کیا نگران حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اصلاح احوال کے لئے کوئی قدم اٹھاسکے اور کسی قسم کی یقین دہانی کرواسکے؟ اصلاح احوال اور یقین دہانی ہر دو کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے ایک حالیہ بیان اور انٹرویو کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ ایک ایسی نگران حکومت جس کا سربراہ محض مطالبات کی حمایت کرنے پر طعنہ زنی پر اتر آئے اس سے خیر کی توقع عبث ہے۔
ہمارے خیال میں زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ اولاً تو لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ کو طلب کرے اور ان سے تفصیلات جانے۔ ثانیاً پارلیمانی سیاست میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو اس امر کا پابند بنائے کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے وجود میں آتے ہی فوری طور پر ایک قومی پارلیمانی کمیشن بنایا جائے جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ ماہرین قانون، اہلِ دانش اور صحافیوں کی بطور معاون نمائندگی ہو اور یہ کمیشن کم سے کم وقت میں مسئلہ کا حل تلاش کرکے اپنی تجاویز پارلیمان کے سامنے رکھے۔
یہ رائے بھی بظاہر غلط نہیں کہ سپریم کورٹ کو اٹارنی جنرل کے توسط سے نگران وزیراعظم سے انکے بعض حالیہ بیان بارے وضاحت طلب کرنی چاہیے تھی کیونکہ انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے تواس سوچ کو تقویت ملی "بلوچستان کی سوئی گیس ہم نہ خریدیں تو صوبے میں بھوک ناچے گی"۔
یہ سوچ اور نگران وزیراعظم کے خیالات دونوں انسانی ہمدردی کے جذبے سے محروم ہیں۔
ہم اس امر کی نشاندہی ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر جمہوریت پسند کہلانے والی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے بلوچستان کے معاملے پر قومی جمہوری رویہ نہ اپنایا تو نہ صرف دوریاں مزید بڑھیں گی بلکہ صورتحال میں بھی بگاڑ بڑھے گا اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس حوالے سے ہر شخص، محکمہ اور ادارہ اپنی ذمہ داریاں حقیقت پسندانہ سوچ کی رہنمائی میں ادا کرے تاکہ زخموں پر مرہم رکھنے سے قربتیں پیدا ہوں اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔
جہاں تک سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پر لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک بل (قانونی مسودہ) گم کرنے کے الزام کا تعلق ہے تو یہ انتہائی سنگین الزام ہے صادق سنجرانی کے چیئرمین بننے بعد ازاں عدم اعتماد کے دوران 34 ارکان کو 64 ارکان پر فوقیت ملنا ہردو سے بہت ساری باتوں کے ساتھ وارداتوں کے مقاصد عیاں ہوجاتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے ایک بڑے وفاقی آئینی ادارے کے سربراہ اور ان کا دفتر مسلسل سنگین الزامات کی زد میں ہے حالیہ عرصے میں سینیٹ سے منظور ہونے والی دو قراردادوں کے حوالے سے بھی ان کی ذات تنقید کی زد میں ہے۔
سپریم کورٹ کو چاہئے کہ اٹارنی جنرل کے توسط سے چیئرمین سینیٹ سے لاپتہ افراد بل کی گمشدگی بارے ان کا موقف تحریری طور پر طلب کرکے تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے۔