لگتا ایسا ہی ہے کہ یہاں کسی کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہیں۔ اپنے اپنے "ہنر" میں یکتا کاریگروں کا ہجوم تیار شدہ مال فروخت کرنے کے لئے عجیب و غریب ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ پچھتر برس ہوتے ہیں مذہب سے قوم کشید کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بات کڑوی ہے مگر عرض کرنا لازم ہے۔
برصغیر میں آٹھ سو سال بعد عجیب تماشا اس وقت ہوا جب کچھ مسلمانوں کو اپنی "مسلمانی" (مذہبی قومیت) خطرے میں محسوس ہوئی۔ آٹھ سو سال تک سب حلال تھا اقتدار اور رشتے داریاں۔ پھر سکہ بند حرام ہوئیں دونوں چیزیں۔ کیونکہ بدلتے ہوئے حالات میں برصغیر جس نظام اور تبدیلی کے دروازے پر کھڑا تھا وہ انفرادی رائے یعنی ووٹ کے حق کا نظام تھا۔
اپنے اقتدار کے زمانے کو مسلم ہندوستان کے ورق میں لپیٹ کر پیش کرنے والوں کے وارثوں نے نئی فہم ایجاد کی۔ پیروں، ملاؤں اور بڑے خاندانوں کے زیرِ اثر مسلمان اپنی ہی سرزمین اور تاریخ سے منحرف ہوگئے۔ رام دوسا، رحیم بخش کیا ہوا ایک نئی خیالی قوم اور تاریخ پر اتراتے ہوئے ہٹ دھرمی پر اتر آیا۔
کیا دنیا میں اور بھی کہیں مذہبی قومیت کا وجود ہے یا یہ فیشنی وبا ہمارا ہی رزق ہے؟ سوال پر غور کیجئے۔ افغان افغان ہے۔ ایرانی خالص ایرانی اور عرب عرب ہے۔ اپنے قومی تعصب کو تینوں تاریخ کی غذا کھلاتے ہیں۔
مذہب سے قوم بنتی ہے تو پھر عرب و ایران یا افغانستان میں غیر عرب، غیر ایرانی و غیر افغانی کو شہریت کیوں نہیں ملتی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک عالمی مہاجر خانہ چلانے والے مذہبی قومیت کے تصور کی آڑ میں اپنا کاروبار کر رہے ہوں اور یہاں سادہ سی مخلوق تاریخ سے عدم آشنائی کی وجہ سے تاجروں کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہو؟
سوال در سوال قطار میں کھڑے ہیں۔ لیکن جواب دینے والے جواب کی بجائے فتویٰ صادر کرتے ہیں۔
سادہ سا سوال صرف یہ ہے کہ جو مذہب اور عقیدہ اپنے ترجمانوں (مذہبی رہنماؤں) کی تطہیر نہ کر سکے اور لوگوں کو اپنی زمین و تاریخ سے کاٹ کر بوزنوں کے ریوڑکا حصہ بنا دے وہ مذہب اور عقیدہ انسانی سماج کے ارتقائی سفر میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
ہمیں سوال کرنے والوں پر برسنے کی بجائے تحمل سے جواب دینا چاہیے کیونکہ لاعلمی کے اظہار کی بجائے تکبر سے عبارت اگر مگر کی تکرار سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ ہمارے چار اور مسائل ہی مسائل ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے تو خود ہماری وجودی شناخت مصنوعی پن پر قائم ہے۔
آخر لوگ کیوں چاہتے ہیں کہ ہم صدیوں کی تاریخ و شناخت سے منحرف ہو کر مذہبی قومیت کی ہاجمولا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات کا احترام بجا مگر کیا یہ تعلیمات انسان کو اس کے حق اظہار اور قدیم شناختوں سے انحراف کی دعوت ہیں؟ یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے آنکھیں چرائی جارہی ہیں۔ معاف کیجئے گا نابیناؤں کی منزل ہوتی ہے اندھوں کی تو بالکل نہیں۔
مسائل کا سورج سوا نیرے پر ہے۔ 75 برسوں سے تجربات ہی ہو رہے ہیں۔ ہمارے یہاں تو ایسے ایسے فوجی آمر ہو گزرے جو مذہب سے سائنس کشید کرنے پر مصر تھے۔ ممکن نہ ہوا تو جناح صاحب کی قبر کھود کھود کر اندر سے ایسی ڈائریاں نکال لائے جو ہمیں سمجھا بجھا رہی تھیں کہ جناح صاحب ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے اسلامی لیبارٹری قائم کرنا چاہتے تھے۔
عجیب لوگ ہیں نا ہم زندوں کو چھوڑیں ہیں اور مردوں کے اندر سے مولوی نکال لاتے ہیں۔ خدا کے بندو انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر میں فہم کام آتا ہے۔ کلچر و ثقافت کا تعلق زمین سے ہے۔ مذہب کی کوئی ثقافتی اقدار ہوتی ہیں نہ کلچر۔
مضبوطی کے ساتھ اپنی زمین اور تاریخ کے ساتھ صدیوں کی شناخت سے جڑے رہنا ہی وصفِ انسانی ہے۔ کیا کیجئے ہمارے یہاں تو ایسے ایسے داناؤں کی بھی بھرمار ہے جو تاریخ کا مذہب تلاش کرلیتے ہیں۔ صرف تلاش ہی نہیں کر لیتے پھر اسے ایمان کے ساتویں رکن کے طور پر قبولواتے ہیں۔
کبھی ساعت بھر کے لئے غور کیجئے گا کہ پچھتر برس کا سفر طے کر چکنے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں اور جس مقام پر کھڑے ہیں اس پر فخر ممکن ہے، ایسا فخر جو اگلی نسلوں کو ورثے میں دے سکیں؟
ہم میں سے کوئی بھی پاکستان توڑنا نہیں چاہتا البتہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے، اپنے اپنے حصے کا سچ بولا جائے۔ مذہب اور ریاستی نظام کو گڈمڈ کرنے کی بجائے دونوں کی حدود کا تعین ازسر نو کرنا ہوگا۔
ریاست اپنی جغرافیائی حدود میں آباد تمام لوگوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ تو کرے مگر اپنا وزن کسی ایک مذہب یا عقیدے کے پلڑے میں نہ ڈالے اور مذہب یا مذاہب بھی باہمی احترام کو فروغ دیں۔