Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Haider Javed Syed
  4. Mulaqaten Kya Kya, Baaten Bhutto Sahib Ki

Mulaqaten Kya Kya, Baaten Bhutto Sahib Ki

دائیں بازو کی پاکستانی صحافت کے سرخیل اور تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے محبوب دلنواز ا لطاف حسن قریشی کی کتاب "ملاقاتیں کیا کیا" بنیادی طور پر دو تین سربراہان مملکت، سیاستدانوں، اہل علم اور قانون دانوں سے کئے گئے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ یہ انٹرویو ہیں شاہ فیصل شہید، شہید ذوالفقار علی بھٹو، تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق، سید ابوالاعلیٰ مودودی، شیخ مجیب الرحمن، سلمان ڈیمرل، خان آف قلات نواب احمد یار خان بلوچ، جسٹس حمودالرحمان، حکیم محمد سعید، ایئرمارشل (ر) اصغر خان اور 13 دیگر نابغہ روزگار شخصیات کے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دائیں بازو کے ممتاز اور سینئر صحافی الطاف حسن قریشی کے ان انٹرویوز کو کتابی شکل میں ہمارے ترقی پسند دانشوراور صحافی دوست فرخ سہیل گوئندی کے ادارے نے شائع کیا ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کے اس کاروباری سنگم کی بدولت ہم ایسے طالب علموں کو ایک اچھی کتاب پڑھنے کو مل پائی۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے ہم سے طالب علموں کو تاجرانہ نرخ پر نصف قیمت 750 روپے میں ملنے والی اس کتاب کی اصل قیمت 1490روپے ہے جوکہ بہت زیاہ ہے۔ پبلشرز حضرات کو بہرصورت لوگوں کی قوت خرید کا احساس کرنا چاہیے۔ 390 صفحخات کی کتاب 1490 روپے میں یعنی فی صفحہ تقریباً چارروپے میں بہت زیادہ ہے۔

خیر یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے کہ پاکستان میں کتابوں کی قیمتیں بہت زیادہ کیوں رکھی جاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب میں جن 23 شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں وہ بلاشبہ بیسویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیات تھیں اب اسے ہم اکیسویں صدی کی بدقسمتی ہی کہیں (پاکستان کی حد تک) کہ اس کا دامن خالی ہے۔

تلخ نوائی محسوس نہ کی جائے تو یہ صدی بانجھ صدی ہے۔ رہنمائوں کی جگہ تاجر اور کمیشن خور لیڈروں نے لے لی ہے۔ عالموں کی جگہ بونے دندناتے پھرتے ہیں۔ محراب و منبر کو سٹیج بنادیا گیا ہے۔ اقتدار برائے خدمت نہیں بلکہ اقتدار برائے کاروبار کی بڑھوتری ہے۔

"ملاقاتیں کیاکیا! " میں جن 23 ملکی و عالمی سطح کی شخصیات کے انٹرویوز شامل ہیں آپ ان کے افکار، نظریات، فہم دین، طرز حکمرانی اور دیگر امور سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ اختلاف سماجی و سیاسی شعور کا حسن ہے لیکن یہ بھی تسلیم کئے بغیر نہیں رہ پائیں گے کہ وہ شخصیات اپنے نظریات وہ چاہیے کچھ بھی تھے ان سے مختلف تھیں۔ ان شخصیات میں سے بعض کےبارے تاریخ کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ 23میں سے ہر شخصیت اس مرتبہ کی ہے کہ ان کے حوالے سے باتیں کی جائیں ان کے افکارو خیالات پر، حکمرانوں کے طرز حکمرانی پر عالموں کے فہم دین اور قانون دانوں کی اس قانونی لیاقت پر جس کا اس ملک کو کم اور فوجی آمروں کو زیادہ فائدہ ہوا۔

لیکن آج کی نشست میں ہم کتاب میں شامل پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم، ایٹمی پروگرام اور 1973ء کے دستور کے خالق اور تیسرے مارشل لاء کے دوسرے سال کے چوتھے مہینے میں قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں پھانسی چڑھائے جانے والے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی باتیں کرتے ہیں۔

سر شاہنواز بھٹو کے لخت جگر ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی ایوان اقتدار میں صدر سکندر مرزا کی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ پھر ایوب خان کی کابینہ میں مختلف وزارتوں پر فائر رہے اور دنیا کے سب سے کم عمر وزیرخارجہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

ایوب خان سے اختلافات ہوئے وزارت اور کنونشن لیگ کی سیکرٹری شپ چھوڑ کر میدان سیاست میں اترے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے نام سے ترقی پسند منشور کی حامل اپنی پارٹی بنائی۔ طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور رجعت پسندوں کو مغربی پاکستان میں خاک چٹوانے میں کامیاب رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ پائے کے سیاستدان، قانون دان، دانشور و مدبر تھے۔ ان کے شخصی اوصاف کو اگر خوبیوں خامیوں کے مروجہ اصولوں کی روشنی میں دیکھیں تو مثبت پہلو بہرطور زیادہ ہیں۔

وہ انسان ہی تھے گوشت پوست کے دوسرے انسانوں جیسی غلطیاں ان سے یقیناً سرزد ہوئیں اور خود انہوں نے بعض مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے سیاسی افکار، جدوجہد اور بہادری کے ساتھ پھانسی چڑھ جانے کے عمل نے انہیں تاریخ میں زندہ جاوید بنادیا۔

سمجھوتہ کروانے والے اس وقت بھی بہت تھے مگر خود جناب بھٹو نے ایک موقع پر عدالت کے روبرو کہا "میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے مارشل لاء کے جبرو ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے جان دینا پسند کروں گا تاکہ تاریخ میں زندہ رہ سکوں"۔ انہوں نے یہی کیا۔ جھکے نہ معافی طلب کی خطوط لکھے نہ سمجھوتہ کروانے کے لئے سرگرم عمل دوستوں کی بات مانی اور 4 اپریل 1979ء کی صبح پھانسی پر جھول گئے۔

وقت نے ثابت کیا مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا جس کے ڈر سے 8 سال تک فوجی آمر کو مارشل لاء اٹھانے کی جرات نہ ہوپائی۔

بھٹو کہتے ہیں "سندھ میں ہمارے خاندان کی وسیع زمینیں تھیں۔ زرعی اصلاحات کے بعد ہم لاڑکانہ اور جیکب آباد تک محدود ہوگئے۔

ابتدائی تعلیم لاڑکانہ اور بمبئی (اب ممبئی) سے حاصل کی۔ 1946ء میں امریکہ کی کیلیفورنیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے علم السیاسیات میں بی اے آنرز امتیازی پوزیشن سے پاس کیا۔ بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم ا ے علم السیاسیات کی ڈگری حاصل کی۔ بھٹو یونیورسٹی کے کرائس کالج کی تاریخ کے ان چند طلباء میں شامل ہوگئے جنہوں نے دونوں برسوں کے امتحان ایک ہی سال میں دیئے اور امتیازی پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح انہوں نے بار ایٹ لاء کا امتحان بھی پہلے سال میں ہی شاندار نتائج سے پاس کرلیا"۔ وہ کہتے ہیں۔

"میں سات برس تک دیار غیر میں رہا اور وہاں وطن کی یاد اکثر ستاتی۔ مجھے ان لوگوں پر حیرانی ہوتی جو پاکستان سے باہر جاتے اور امریکہ و یورپ کی رنگین دنیائوں میں ڈوب جاتے۔ وطن کا چہرہ سادہ سہی لیکن اس میں بلا کی کشش ہے۔ میری ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ جلد سے جلد وطن واپس جاپہنچوں اور اپنے لوگوں کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالت بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کروں"۔۔

ان سے دریافت کیا گیا ایک جاگیردار خانادن سے تعلق اعلیٰ ملکی و غیرملکی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے کو عوام کے دکھوں اور مسائل سے کیا لینا دینا، بھٹو بولے

"میرے والد نے دو شادیاں کی تھیں میری والدہ ایک عام سے غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ میں اپنی والدہ کا مرہون منت ہوں کہ انہوں نے مجھے غریبوں سے محبت کرنا سکھایا۔ والدہ مجھے اکثر غریب اور مفلت لوگوں کے حالات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں۔

اپنے والد کے ساتھ زمینوں اور دیگر علاقوں کے دوروں پر میں نے عام آدمی کے مسائل اور رنج و الم کو قریب سے دیکھا"۔

بھٹو کہتے ہیں

"میری رائے میں ہمارا آغاز غلط ہوا۔ ہمیں 1935ء کے ایکٹ میں ترامیم کرکے برسوں امور مملکت چلانے کے بجائے قیام پاکستان کے فوراً بعد نیا دستور بنالینا چاہیے تھا۔ غلامی سے عبارت ماضی سے کٹ کر ایک مکمل نئے آغاز کی ضرورت تھی"۔

ان کے خیال میں "یقیناً نیا خون اور نئی قیادت ہی ہمیشہ سیاسی جمود کو ختم کرکے سیاسی شعور میں گہرائی پیدا کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میں سائوتھمپٹن یونیورسٹی میں پہلا ایشیائی مسلمان تھا جسے یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون پڑھانے کا اعزاز حاصل ہوا مگر جلد ہی یہ فخر میرے اندر ایک کسک میں تبدیل ہوگیا۔ سوچتا رہتا کہ میری صلاحیتوں پر میرے وطن اورلوگوں کا زیادہ حق ہے میں اسے دوسروں کے لئے کیوں ضائع کروں۔ اسی جذبہ سے وطن واپس آیا اور سندھ مسلم لاء کالج کراچی میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگا اور ساتھ ہی وکالت شروع کردی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب اپنے لوگوں سے براہ راست رابطہ ہوا۔ مجھے ان کے دکھوں کو نئے سرے سے سمجھنے کا موقع ملا۔

بھٹو کہتے ہیں

ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو آزادانہ طور پر استوار کرناہوگا۔ سفارتی عملے کو غیرملکی زبانیں سکھانے کے لئے باقاعدہ ادارہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں اپنا کردار غیرجانبداری سے ادا کرنا چاہیے۔ اسلامی دنیا سے تعلقات مزید بہتر بنائے جائیں۔ پڑوسی ملک بھارت سے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں مگر بھارت کی بالادستی قابل قبول نہیں۔

اسلامی ممالک اپنے وسائل سے جدید علمی، تحقیقی ادارے اور فیکٹریاں لگائیں۔ وہ کہتے ہیں پاکستان کو کشمیری بھائیوں کی ہرممکن مدد کرتے رہنا چاہیے کشمیری ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔

مئی 1966ء میں بھٹو صاحب سے لیا گیا انٹرویو جون کے مہینے میں شائع ہوا۔ الطاف حسن قریشی نے اس انٹرویو پر جو تفصیلی اختتامیہ لکھا اس پر بھی بات ہوسکتی ہے۔ تاریخ مکالمے اور تحقیق کی چیز ہے اس کے بغیر پورا سچ سامنے نہیں آسکتا۔