Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Haider Javed Syed
  4. Multani Pir

Multani Pir

شاہ محمود قریشی، حضرت بہاء الدین زکریاؒ اور حضرت شاہ رکن عالمؒ کی خانقاہوں کے گدی نشین ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں سلسلہ سہروردیہ کے سب سے بڑے پیر۔ بعض روایات کے مطابق حضرت بہاء الدین زکریاؒ کا خاندان ملتان پر حملہ کرنے والے محمود غزنوی کے ہمراہ اس خطے میں آیا۔ ابتدائی قیام کروڑ لعل عیسن میں تھا بعدازاں وہاں سے ملتان منتقل ہوا۔ خیر یہ الگ موضوع ہے یکسر مختلف۔

متحدہ ہندوستان کے شیخ الاسلام کے منصب پر فائز رہنے والے حضرت بہاء الدین زکریا المعروف غوث بہائوالحقؒ کے گدی نشین شاہ محمود قریشی پر لگ بھگ ساٹھ سے زائد مقدمات ہیں ان میں 9 مئی کا جی ایچ کیو حملہ کیس بھی شامل ہے۔ ہمارا ملتانی پیر حقیقی زندگی میں "بادشاہ" آدمی ہے۔ یہ بادشاہ آدمی آجکل جیل میں ہے۔ ہفتہ 22 جنوری کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کے عسکری ٹاور حملے کے 2 مقدمات میں ان کی ضمانت کی توسیع کردی۔

تحریک انصاف کے بانی سمیت درجنوں رہنما دو برس سے بعض مقدمات میں ضمانتوں پر توسیع در توسیع حاصل کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہم اس پر بات نہیں کررہے کہ دو دو سال سے عبوری ضمانتیں پاکستانی نظام انصاف میں اپنی مثال آپ ہیں۔

پنجاب کے وزیر خزانہ، ضلع کونسل ملتان کے ناظم، دوبار وفاقی وزیر خارجہ رہنے والے شاہ محمود قریشی ریمنڈ ڈیونس کیس میں آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی "شیریں" باتوں کی مٹھاس سے متاثر ہوئے اور پیپلزپارٹی سے الگ ہوگئے تھے۔ پی پی پی سے علیحدگی کے حوالے سے انہوں نے ابتدائی تاثر یہ دیا کہ پی پی پی کی وفاقی حکومت ریمنڈ ڈیوس کیس میں ملکی خودمختاری اور انصاف کی بالادستی پر سمجھوتہ کرچکی ہے۔

ان سے عرض کیا گیا ریمنڈ ڈیوس کے خلاف مقدمہ لاہور میں درج ہوا آپ وزیر خارجہ کے طور پر زمینی حقائق سے آگاہ تھے پھر الزام پیپلزپارٹی پر کیوں دے رہے ہیں؟

جواباً بولے، وزیر خارجہ کے منصب سے جس طرح مجھے ہٹایا گیا وہ انتہائی توہین آمیز تھا ہم خاندانی لوگ ہیں۔ جس جس نے یہ جواب سنا اسے حیرانی ہوئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جس جنرل شجاع پاشا کے کہنے اکسانے یا "ترغیب" پر انہوں نے پی پی پی چھوڑی انہوں نے تو ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی کے امریکن ہسپتال کی سکیورٹی انچارج کی سربراہی سنبھال لی۔

کہا جاتا ہے کہ وہ امریکن ہسپتال ظاہری دھندہ ہے اصل میں تو وہ سی آئی اے کا ریجنل ہیڈ کوارٹر ہے۔

خیر اس سے قبل چونکہ ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت ریٹائرمنٹ کے بعد امریکن تھنک ٹینک میں ملازمت کرچکے تھے اس لئے ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی کے ریٹائر سربراہ کا دبئی کے امریکی ہسپتال میں سکیورٹی سربراہ بن جانا انوکھی بات نہیں تھی۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابی عمل کے نتیجہ میں وفاق میں پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کی جو مخلوط حکومت بننے جارہی تھی شاہ محمود قریشی اس حکومت کے وزیراعظم بننے کے پرجوش امیدوار تھے۔ ذرائع ابلاغ میں عام تاثر یہ تھا کہ پی پی پی پارلیمنٹیرین کے سربراہ مخدوم امین فہیم وزیراعظم بنیں گے۔ تب اس خاکسار کی رائے ہم عصر دوستوں سے یکسر مختلف تھی۔

میرا خیال یہ تھا کہ "آصف علی زرداری وزیراعظم کے منصب پر لازماً پیپلزپارٹی کے ہی کسی رہنما کو بٹھائیں گے لیکن وہ سندھی نہیں ہوگا"۔

اس رائے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب آصف علی زرداری کی دعوت پر چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے درجن بھر صحافی اسلام آباد کے زرداری ہائوس پہنچے اور تین ساڑھے تین گھنٹے زرداری اور صحافیوں کے درمیان کھلی ڈلی گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کے اختتام تک میرا یہ اندازہ یقین میں بدل چکا تھا کہ پی پی پی کا وزیراعظم غیر سندھی ہوگا۔

زرداری ہائوس اسلام آباد میں تین ساڑھے تین گھنٹوں کی اس نشست کے دوران آصف علی زرداری نے سندھ سے باہر کا کون سا رہنما وزیراعظم ہوسکتا ہے پر پوچھے گئے سوالات کے جواب میں دلچسپ اور معنی خیز گفتگو کی اس گفتگو میں موجود اشاروں کا حساب کتاب لگاکر میں نے ایک دن کے وقفے سے "مشرق" پشاور میں لکھے گئے اپنے کالم میں عرض کیا تھا "پیپلزپارٹی کا غیرسندھی وزیراعظم ملتان سے ہوگا اور ننانوے فیصد امکان یہی ہے کہ وہ سید یوسف رضا گیلانی ہوں گے"۔

اس اندازے کی وجہ بہت سادہ تھی اور وہ یہ کہ شاہ محمود قریشی نے انتخابی نتائج کے فوراً بعد وزیراعظم بننے کے لئے لابنگ شروع کردی تھی اور تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے دیرینہ خاندانی مراسم ہر رکاوٹ کو پاش پاش کردیں گے۔

میری رائے تھی کہ مخدوم شاہ محمود قریشی الفاظ چبا چبا کر گفتگو کرنے کے مصنوعی پن کا شکار ہیں۔ خیر پھر ہوا یہی کہ سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنا دیئے گئے اور شاہ محمود قریشی ان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کے منصب کو گیلانیوں کے مقابلہ میں ذاتی شکست کے طور پر لیا۔

اگلے مرحلے میں وہ بعض جگہ چبائے ہوئے لفظوں میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آصف علی زرداری، سندھ میں میری مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ یہ فرماتے وقت وہ بھول گئے کہ سندھ میں پی پی پی کے ایک نوجوان رہنما سید پرویز علی شاہ نے ماضی میں ان سے بڑے پیر، پیر صاحب پگاڑا کو 1988ء میں بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔

پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد وہ ذاتیات پر اتر آئے جو ان کے شایان شان نہیں تھی ویسے وہ ہمیشہ سے ایسے ہی زود رنج شخص تھے پھر ہوا یہ کہ جس ریمنڈڈیوس والے معاملے میں وہ ہیرو بننے کے چکر میں جنرل شجاع پاشا کے دیکھائے خوابوں کی تعبیر پانے کے لئے پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے تھے

اسی جنرل شجاع پاشا نے ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا یہاں تک کہ شجاع پاشا اسے اپنی گاڑی میں بیٹھاکر احاطہ عدالت سے لاہور ایئرپورٹ پر کھڑے خصوصی امریکی طیارے کی سیڑھیوں تک پہنچاآئے۔

بعدازاں انہوں نے پاشا کے مشورے پر ہی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ تب سے اب تک وہ تحریک انصاف میں موجود ہیں البتہ اس دوران انہوں نے ایک دو بار قومی حکومت کا پتہ کھیلتے کی "کوشش" کی جو ناکام ہوئی۔

شاہ محمود قریشی پر اس وقت لگ بھگ ساٹھ سے زائد مقدمات ہیں وہ گاہے بگاہے یہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے رہنما ذرائع ابلاغ میں ان کی اسیری اور قربانی کا ذکر نہیں کرتے یہ شکوہ بجا بھی ہے پارٹی کے لئے ان کی قربانی کسی بھی طرح کسی دوسرے رہنما سے کم نہیں۔

ان کی پارٹی اور ڈالر خور یوٹیوبرز ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے وہ (شاہ محمود) بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ بھی کہ دیوتا دیوتا ہوتا ہے۔

ہمارا ملتانی پیر طویل عرصہ سے جیل میں ہے اس کی صاحبزادی اور صاحبزادے نے ملتان سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے پچھلے برس انتخابات میں حصہ لیا صاحبزادہ کامیاب رہا صاحبزادی، سید علی موسیٰ گیلانی سے دوسری بار ہار گئی۔ اپنی دونوں شکستوں پر شاہ محمود کی دختر جو کہتی ہیں وہ دلچسپ ہے ان کے مخالفین ان پر جعلی فارم 45 بنوانے کا الزام لگاتے ہیں۔

ستم یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے زین قریشی کو بانی تحریک انصاف کے حکم پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ زین قریشی پر اسد قیصر گروپ نے الزام لگایا کہ وہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت حکومت سے رابطے میں تھا۔

زین اس کی تردید کرتا ہے۔ واقفانِ حال یہ کہتے ہیں کہ اصل میں اسد قیصر کو مخدوم شاہ محمود قریشی سے کوئی ذاتی عناد ہے جس کا بدلہ چکاتے ہوئے اسد قیصر نے ان کے صاحبزادے کا سیاسی مستقبل تاریک کرنے کا راستہ اپنایا۔

یہ ذاتی عناد پی ٹی آئی دور میں اسد قیصر کی سفارش پر چند سفیروں کی تقرری و تبادلے اور کچھ افراد کو ملازمتیں نہ دینے سے پیدا ہوا۔ راوی کی روایت کے ہم اسی طرح ذمہ دار نہیں جیسے ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

سچی بات یہ ہے کہ ان کی طویل اسیری پر ہمیں بھی بہت سارے دوسرے ملتانیوں کی طرح ایک ملال سا ہے۔

خاص انداز میں الفاظ چبا چبا کر بولنے کی مہارت رکھنے والے شاہ محمود ملتان کی "رونق" ہیں ہم پیروں فقیروں کے "منکرین" کے ان طعنوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے کہ جنوبی ایشیاء میں سلسلہ سہروردیہ کا سب سے بڑا پیر لگ بھگ ڈیڑھ پونے در برس سے جیل میں پڑا ہے نہ کوئی دعا دارو نہ دم نہ تعویز۔

بھلا کوئی ڈاکٹر اپنا علاج خود کرتا ہے؟

کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے کہ جس طرح 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے دوران ملک بھر کے پیر فقیر، شاہ محمود قریشی کے حلقے میں پہنچ کر ان کے لئے ووٹ مانگتے رہے اسی طرح وہ ایک دن اکٹھے ہوکر ان کی رہائی کے لئے اجتماعی دعا کا اہتمام کیوں نہیں کرپائے۔

خیر خدا خوش رکھے ہمارے ملتانی پیر شاہ محمود قریشی کو اور ان کی مشکلات میں غیبی مدد سے کمی فرمائے، آمین۔