"چراغ بجھتے جارہے ہیں سلسلہ وار" والی صورتحال ہی ہے۔ جنم شہر ملتان سے اچھی خبریں موصول نہیں ہو رہیں۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ اُدھر علامہ سید علی رضا نقوی کے سانحہ ارتحال کی خبر موصول ہوئی چند دن کے وقفے سے قاضی شبیر حسین علوی رخصت ہوئے پھر ترقی پسند صحافی اور بچپن کے دوست ارشد بٹ سفر حیات طے کرکے چلے گئے ایک سے بڑھ کر ایک دُکھ نے دستک دی۔
اسی اثناء میں معروف معلم ادیب دانشور اور انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سابق صدر نشین پروفیسر اے بی اشرف کے سانحہ ارتحال کی خبر آگئی۔ پروفیسر اے بی اشرف کا جسد خاکی انقرہ سے ملتان لاکر سپرد خاک کیا گیا۔
دس پندرہ دنوں میں ملتانیوں کے چار چراغ بجھ گئے۔ دولت علم سے مالا مال صائب الرائے اور نور علم سے ملتان کُل جہان کو منور کرنے والے چار چراغ بجھ گئے۔
علامہ سید علی رضا نقوی اور قاضی شبیر حسین علوی مکتب امامت کے روشن چہرے تھے صلح کُل کے علمبردار، سیدی علی رضا نقوی۔ مرحوم عالم دین سید گلاب شاہ صاحب کے فرزند تھے ایک بڑے باپ کے بیٹے۔ لیکن "آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے" کہ مصداق اپنا تعارف خود ہوئے۔ دھیمے لہجے اور شائستہ انداز میں اپنی بات کہتے اور ہمہ تن گوش ہوکر دوسرے کی بات اطمینان سے سنتے۔ روایتی مولویوں والی نخوت چھوکر بھی نہیں گزری تھی۔
قاضی شبیر حسین علوی مرحوم سے تعلق خاطر ان برسوں سے تھا جب تحریر نویس ہفتہ روزہ "رضاکار" لاہور کا مدیر ہوا کرتا تھا۔ مولویوں میں بہت کم لوگ دیکھے جو جمع اور طمع سے دامن بچاکر جیئے۔ قاضی شبیر حسین علوی ان میں سے ایک بلکہ نمایاں تھے۔ 1986ء سے 1990ء کے درمیانی برسوں میں تسلسل کے ساتھ ملاقاتیں رہیں کبھی 2 دیو سماج روڈ پر گاہے "رضاکار" کے دفتر میں اور پھر ملتان میں مطالعے کی دنیا کے آدمی تھے جب ملے کوئی نہ کوئی کتاب ان کے پاس ضرور ہوتی۔
پچھلی صدی کی نویں دہائی کے آخری پانچ برسوں ہم ایسے سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کی آنکھوں میں انقلاب کاشت ہوا، ہوا تھا۔ ہمیں تو بہت جلد سمجھ میں آگیا کہ انقلاب "ہنوز دلی است" والی بات ہے۔ ہاں اگر ممکن ہو تو اپنے حصے کا سچ بولتے لکھتے رہنا چاہیے۔
ان برسوں میں قاضی شبیر حسین علوی انقلابی نوجوانوں کے ناز نخرے واجبات سمجھ کر اٹھاتے ان کا دسترخوان وسیع تھا مکالمے کے رسیا تھے ڈھونڈ ڈھونڈ کر مطالعہ کرنے والوں کو مدعو کرتے اور مجلسیں برپا کرتے۔ ملائیت بیزار نوجوانوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی ایک سے زائد بار ان سے مختلف موضوعات پر لمبی نشستیں ہوئیں۔ وہ معروف ایرانی عالم دین شہید مطہری کے عاشق صادق تھے۔
ہماری نسل کے زیادہ تر نوجوان ڈاکٹر علی شریعتی شہید اور سید مرتضیٰ عسکری سے متاثر ہوئے۔ قاضی شبیر علوی سے نبھی اس لئے کہ وہ مطالعہ اور مکالمے میں تنگ نظر نہیں تھے زندگی بھر ایک فعال شخص کے طور پر انہوں نے اپنا آپ منوایا ان کے شاگردوں مداحین اور احباب کا حلقہ بہت وسیع ہے۔
وضعدار و نستعلیق شخص تھے۔ سفر حیات طے کرکے رخصت ہوئے ایک صاحب الرائے علم اور انسان دوست شخص کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
ترقی پسند صحافی ارشد بٹ اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی والدہ اور نانی کا ہماری نانی اماں سیدہ زلیخاں بی بی وعظ والی مرحومہ سے محبت بھرا تعلق تھا ویسا ہی تعلق ارشد بٹ سے ہمارا بھی رہا بچپن کے کئی دن نانی اماں اور خالہ جان کے گھروں کے صحن میں کھیلتے ہوئے اکٹھے بیتائے۔
پھر ایک لمبے وقفے کے بعد 2012ء میں ان سے ملتان پریس کلب میں ملاقات ہوئی۔ میں سید حسن رضا بخاری رضو شاہ اور دو تین دوسرے دوستوں کے ہمراہ پریس کلب کے صحن میں بیٹھا تھا ایک شخص آیا سب سے سلام دعا کے بعد خالی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا چند ساعتوں کے لئے اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور پھر پوچھا، زلیخاں بی بی وعظ والی کے نواسے راجی شاہ ہی ہونا تم، خونی برج والی خالہ بی بی کے صاحبزادے؟
جی وہی ہوں۔ اس جواب پر وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کھینچ کر مجھے گلے لگاتے ہوئے بولے ندیم شاہ سے تمہاری خیر خیریت کا پتہ چلتا رہتا تھا اور یہ بھی کہ اب لاہور ہو اور پشاور۔ رضو شاہ بولے بٹ جی شاہ آج کل ملتان ہوتا ہے ہم تقریباً روزانہ پریس کلب میں اکٹھے ہوئے ہیں۔
رضو شاہ جی کی بات مکمل ہوئی تو ارشد بٹ نے بچپن کے دنوں کو آواز دی نانی اماں اور خالہ جان کے صحنوں میں کھیلتے کودتے بیری کے درخت پر چڑھ کر دوسرے صحن میں کود جانے اور چوٹ کھاکر ڈانٹ ڈپٹ کی مرہم لگوانے کی ساری یادیں بیان ہوئیں۔
اس سپہر کے بعد ملتان سے لاہور واپسی تک کے عرصے میں ارشد بٹ بھی روزانہ پریس کلب میں جمنے والی ہماری محفل میں شریک ہونے لگے۔ دسمبر 2014ء میں جنم شہر سے رخصت ہوکر "دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور میں ملنے والی ملازمت کے سلسلے میں لاہور چلا آیا۔ ابتداً تو جب ملتان جاتا ان سے ملاقات ہوجاتی تھی انہیں پتہ چلتا کہ میں ملتان میں ہوں تو فون کرکے ملاقات طے کرلیتے۔
اب پچھلے ایک برس سے ملاقات نہیں ہوپائی تھی۔ ارشد بٹ ملتان کی ترقی پسند طلباء سیاست کا نمایاں حصہ رہے۔ صحافت کے شعبہ میں آئے تو شان سے قلم مزدوری کی مختلف اخبارات میں رپورٹر اور چیف رپورٹر رہے۔
اپنی وضع اور مزاج کے وہ واحد شخص تھے دنیا طلبی میں چھوکر بھی نہیں گزرسکی۔ سادہ مزاج دوستوں کے دوست اور جمہوری روایات پر کامل یقین رکھنے و الے انسان تھے وہ رخصت ہوئے ترقی پسند صحافت کا اجلا قلم مزدور چلا گیا۔
ادیب، دانشور اور معلم ڈاکٹر اے بی اشرف ہمارے عزیز جاں دوست پروفیسر نعیم اشرف کے والد بزرگوار ہیں چند دن قبل ملتانیوں کے علم و ادب اور سماجی روایات کا یہ روشن چراغ بجھ گیا ان کا جسد خاکی انقرہ سے ملتان لاکر ملتانی مٹی کے سپرد ہوا۔
پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف روشن خیال معلم تھے ملتان سے انقرہ یونیورسٹی تک انہوں نے نور علم پھیلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ان کے مداحین شاگردوں اور احباب کا حلقہ بہت وسیع ہے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں ملتانیوں کے چار چراغوں کا بجھ جانا ملتانیوں کےلئے کسی قیامت سے کم نہیں۔ بنجر بنتے سماج سے صاحبان علم و فضل جس تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں یہ بدنصیبوں کے در وا ہونے کی نشانی ہے۔
چراغ اگر یونہی سلسلہ وار بجھتے رہے تو یہاں گھپ گھور اندھیرا ملتانیوں کی جان کو آلے گا۔ رب سوہنا مہر کرے ہمارے جنم شہر پر ملتانیوں کے ویہڑے وسنڑ ہمیش ملتانی جیتے اور شاداں رہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف کا سانحہ ارتحال ملتانیوں سمیت دنیا بھر کے علم دوست انسانوں کے لئے صدمے سے کم نہیں ایک ایسے وقت میں جب اپنی پسند کی ایک آدھ کتاب کے پسندیدہ حصے پڑھے بوزنے چار اور دندناتے پھرتے ہوں اور ان کے حواری انہیں عہد ساز شخص کے طور پر پیش کرکے رزق پاتے ہوں پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف کا اٹھ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ سید علی رضا نقوی، قاضی شبیر حسیین علوی، ارشد بٹ اور پروفیسر ڈاکٹر اے بی اشرف حق تعالیٰ مغفرت فرمائے کیا شاندار لوگ تھے ملتانی وسوں کے روشن چراغ اپنے اپنے شعبہ میں اپنی مثال آپ۔
عزیز جاں پروفیسر نعیم اشرف اور ان کے خاندان سمیت دیگر مرحومین کے خاندان و احباب کی صحت و سلامتی کے لئے دعاگو ہوں اللہ رب العزت مرحومین کی مغفرت فرمائے ملتانیوں اور ملتان کو شادآباد رکھے، آمین۔