ملک میں روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے پچھلی کم از کم دو حکومتوں کی طرح موجودہ نگران حکومت کے ذمہ داروں کے پاس نہ تو کوئی حکمت عملی ہے نہ ہی انہیں صورتحال کی سنگینی کا احساس ہے۔
2018ء میں اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کے قائدین و حکومتی ذمہ داران ساڑھے تین برس تک یہ کہانی سناتے رہے کہ ہم سے پہلے ملک پر مسلط "چوروں" نے ہر چیز کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اصلاح احوال میں وقت لگے گا
حالانکہ اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف سربراہ عمران خان تواتر کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے دیکھائی دیئے کہ ان کے پاس 3 سو ماہرین کی ٹیم ہے اقتدار ملتے ہی وہ ایسی پالیسیاں بنائیں گے جن کی بدولت تین ماہ میں مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھنے کا عمل شروع ہوجائے گا۔
اپنی معاشی پالیسیوں میں ناکامی کے نتیجے میں ان کی حکومت نے جب آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تو خود وزیراعظم نے قوم سے اپیل کی کہ وہ مزید مہنگائی کے لئے تیار ہوجائیں۔ بعدازاں یہ اعتراف بھی کیاکہ ان کے دور میں مہنگائی نے پچھلے 20سال کا ریکارڈ توڑدیا ہے۔ 90 دن میں ملک کو استحکام دینے والے 3 سو ماہرین ساڑھے تین سال میں بھی وہ استحکام نہ لاسکے جس کا الیکشن سے قبل دعویٰ کیا گیا بلکہ ان ساڑھے 3 برسوں کے دوران وزارت خزانہ میں نصف درجن بار تبدیلیاں ہوئیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس عرصے میں سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے پوری کوشش کی کہ عوام حکومت وقت کی ناکامیوں میں بھی اس کے سیاسی مخالفین کو ذمہ دار سمجھیں۔
تحریک انصاف اس پروپیگنڈے کے زور پر کامیاب بھی رہی یہاں تک کہ جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی ہی حکومت کےآئی ایم ایف سے 2021ء میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرولیم اور بجلی پر سبسڈی تو اسے معاشی استحکام کے ثمرات کا فیض قرار دے کر عوام کو گمراہ کیا گیا۔
عالمی مالیاتی ادارے سے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی بدولت جو بداعتمادی پیدا ہوئی وہ اب تک پاکستان کے گلے پڑی ہوئی ہے۔ حکومت میں آنے سے قبل پی ٹی آئی دعویٰ کرتی تھی کہ عالمی اداروں سے بلاضرورت لئے گئے قرضوں نے معاشی تباہی کی بنیاد رکھی
مگر اپنے ساڑھے 3 برسوں کے دور میں پی ٹی آئی کی حکومت نے گزشتہ پچاس برسوں کی حکومتوں کے ادوار کے مقابلہ میں سب سے زائد قرضے لئے۔ ان ساڑھے 3 برسوں میں پہلے سے واجب قرضوں کے حساب سے مجموعی طور پر 40 قرضہ لیا گیا۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے سیاسی بحران کے ذریعے بچی کھچی معیشت پر خودکش حملے کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔
اس پر ستم یہ کہ پی ڈی ایم کے جو رہنما عمران حکومت کے معاشی جرائم گنواتے ہوئے دعویٰ کرتے تھے کہ حکومت مل جانے پر وہ ملک کو معاشی بحران سے ہی نہیں سیاسی عدم استحکم سے بھی نجات دلاسکتے ہیں، حکومت ملنے کے بعد روایتی کہانیاں سناتے پائے گئے۔
پی ڈی ایم حکومت کے وزیراعظم، وزراء اور اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی وہی غیرذمہ دارانہ رویہ اپنایا جو ان کی پیش رو حکومت نے ساڑھے 3 برس اپنائے رکھا۔ بلاضرورت کھینچاتانی اور الزام تراشی سے عوام کو بہلانے کی کوششیں ہوئیں۔
پی ڈی ایم حکومت کا آئی ایم ایف سے مالیاتی معاہدہ گو پچھلی حکومت کی جانب سے اپنے ایسے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا لیکن ایک لمحہ کے لئے بھی عام شہری کی قوت خرید کو مدنظررکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اصولی طورپر اگر یہ کہا جائے کہ عمران اور پی ڈی ایم کی حکومتیں ملکی تاریخ کی ناکام ترین حکومتیں تھیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔
پہلے ناتجربہ کاروں نے ستم ڈھائے اور پھر تجربہ کاروں نے موت کا سامان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
موجودہ نگران حکومت کے پاس اس ابتر صورتحال کے حوالے سے ایک ہی جواب ہے، ہم تو پچھلی حکومت کی پالیسیوں اور عالمی معاہدوں کے پابند ہیں ایک حد تک یہ موقف درست بھی ہے لیکن خوداس نگران حکومت نے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرتے وقت ملک کی عمومی صورتحال، مسائل اور ان کی سنگینی کو مدنظر ر کھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
یہی وجہ ہے کہ عمران حکومت کے خاتمے پر مہنگائی کی جو سالانہ شرح 23 فیصد تھی، پی ڈی ایم حکومت کے رخصت ہونے پر یہی شرح 32 فیصدتک پہنچ چکی تھی مگر اب مہنگائی کی سالانہ شرح 46 فیصد ہے۔ یہ شرح 75 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔
مہنگائی کی اس بدترین لہر کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہےکہ پیاز 260روپے، ٹماٹر 200روپے، برائلر گوشت 658روپے کلو ہے جبکہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کریلے، اروی، میتھی، بینگن اور مٹر کی فی کلو قیمتوں میں بھی 7 سے 10 روپے اضافہ ہوا۔
فارمی انڈے 402روپے سے 410روپے درجن فروخت ہورہے ہیں۔ چائے کی معیاری پتی کی فی کلو قیمت میں 15روپے اور کھلی پتی کی قیمت میں 10سے 20 روپے کلو کے حساب سے اضافہ ہوا۔ سبز مرچ 250 سے 280روپے کلو ہے۔
موسمی پھلوں کی قیمتیں بھی آسمان کو چھورہی ہیں ڈبے والا دودھ 300 روپے کلو ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی اس کا صارفین کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت برداشت سے باہر ہے۔ گزشتہ روز ہی بجلی کے صارفین سے فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 43ارب رپے وصول کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ملک میں اس وقت مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفانوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ نگران حکومت کے دو ہی کام لگتے ہیں ہر مسئلہ پر ماضی کے فیصلوں کو یاد دلانا اور مسلسل غیرملکی دوروں سے جی بہلاتے چلے جانا۔
معاشی بحران سے دوچار ملک کے حکومتی زعماء اگر غیرضروری غیرملکی دورے نہیں کریں گے تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے حالات کا سنجیدگی سے احساس کیاجائے یہی نہیں کم از کم مہنگائی پر قابو پانے کے لئے تو کارکردگی کامظاہرہ کیا جائے
حالانکہ اس کی توقع عبث ہے کیونکہ نگران حکومت کو کسی عوامی ردعمل کا خطرہ تو ہے نہیں۔
دوسری طرف بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں ماہانہ بنیادوں پر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر 15 سے 43 ارب روپے تک کی زائد رقم کی وصولی کے ساتھ مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی بھی بھرمار ہے تو اسی اثنا میں سوئی گیس کے بلوں میں نئی زائد قیمتوں سے آیا طوفان تو ہے ہی ان بلوں میں کرایہ میٹر 4 سو روپے اور فکس چارجز 2 ہزار روپے نے صارفین کی چیخیں نکلوادی ہیں۔
بجلی کے میٹر کی طرح گیس کا میٹر بھی صارف کی ملکیت ہے پھر بجلی اور گیس کے میٹروں کا ماہانہ بنیادوں پر کرایہ کیوں وصول کیا جاتا ہے؟
نیز یہ کہ گیس کے بلوں میں فکس چارجز کے 2 ہزار روپے ماہانہ آخر کیوں وصول کئے جارہے ہیں جبکہ صارف تو پہلے ہی مہنگی گیس خرید رہاہے؟
امر واقعہ یہ ہے کہ حالات و مسائل شہریوں کو جس طرف دھکیل رہے ہیں اس سے پیدا ہونے والی مایوسیاں اور عدم شنوائی کی سوچ مستقبل میں سنگین مسائل پیدا کرنے کا موجب بن سکتی ہے مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔
بہرطور یہ حقیقت ہے کہ اصلاح احوال میں جتنی تاخیر ہوئی اس کا نقصان سب کو بھگتنا پڑے گا۔