"آنکھ محبت کے در پہ برستی ہے، پروردگار کے شربت کا طالب ہوں جو ہر دو رنگوں کے شیشوں میں ہے، میں باریک ہونٹوں سے ایک جام پینے کا آرزومند ہوں اور کچھ تمہاری محبتوں کی امید رکھتا ہوں"۔
مست توکلی شاعر تھے، فلسفی، رازداں، عاشقِ صادق، جو بھی تھے لیکن ان کی شاعری بلوچی زبان میں ضرب المثل کا درجہ پا گئی۔ صوفی وہ تھے، انسان دوست، محکوموں سے محبت کرنے والے، تلوار پر حروف کو ترجیح دینے اور نفرت پر محبت کو۔ مست توکلی نے دانش کے جو چراغ جلائے ان کی بدولت بلوچی ادب آج بھی جگمگا رہا ہے۔
علم کی ع سے م تک کے سفر کو انہوں نے جس دل نوازی سے طے کیا اس نے انہیں بلند مقام دلوایا۔ وہ تھے ہی بلند قامت و صائب فکر۔ آنکھوں، ذہن اور دل انہوں نے زندگی بھر ان تینوں کی مانی۔ مست توکلیؒ اس ابدی سچائی سے کاملاََ آگاہ تھے کہ عشق طلبِ دنیا سے آزاد کرواتا ہے۔ عاشقوں کو تمامی کا بھید سمجھ میں آتا ہے۔
کائنات کیا ہے، ازل سے ابد تک عشق ہی عشق اور جس جس کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی وہ وقت کا صادق ہو، صوفی، شاعر، فلسفی، عاشقیا قادر الکلام ہو راہ عشق میں وہ ہستی بے معنی ہے۔
میکدہ عشق کا جام پینے والے ہی اس ابدی سچائی کو سمجھ پاتے ہیں کہ عشق امام ہے اور عاشق، اسے تو بس امام کی پیروی کرنی ہے۔
مست توکلیؒ 1825 میں مری قبیلے کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے۔ دنیا سرائے میں انہوں نے 72 سال بیتائے۔ بلوچستان کے دور افتادہ علاقے کاہان میں جو آج بھی انیسویں صدی کے زمانے جیسا ہی ہے ان کا چراغ جلا اور آج بھی جل رہا ہے۔ ایسے صاحب فکر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
سامت، حسین بن منصور حلاج، شاہ لطیف بھٹائیؒ، سچل سرمستؒ، بلھے شاہؒ، خواجہ غلام فریدؒ، شاہ حسینؒ، سلطان باہوؒ، سرمد و سامی اور مست توکلی۔ زمانے بدلے اور مقام۔ ہر زمانے میں نیا آفتاب طلوع ہوا لیکن بات سبھی نے ایک ہی کہی، انسان، عشق، قربانی۔
فقیر راحموں نے ایک دن سمجھایا "مُلا کے مقابلہ میں صوفی زندہ اس لیے رہتا ہے کہ مُلا کی فکر تعصب و خود پسندی ہے جبکہ صوفی کی فکر محبت، انسان دوستی اور سلوک سے عبارت ہوتی ہے"۔
سچ بھی یہی ہے فتوؤں کے خوانچے لگائے پیٹ پرستوں کے مقابلہ میں قلوب کی پاکیزگی کو اولیت دیتے صوفی کسی سے نفرت نہیں کرتے یہاں تک وہ اپنے قاتلوں کے لئے بھی کہہ اٹھتے ہیں
"وہ سمجھ نہیں پائے خون بہانے پر تلے ہوئے ہیں، ہم سمجھ گئے، اب گردن تو اُترے گی" (سرمد)۔
مست توکلیؒ کہتے ہیں"تمہاری خوشبو اس قدر میٹھی ہے جیسے بارش برسنے کے بعد گیلی زمین کی خوشبو"۔ واقفان حال ہی محسوس کر سکتے ہیں بارش کے بعد گیلی زمین سے اُٹھنے والی اُس خوشبو کا جس نے شاعروں کو دیوانہ بنایا۔
یہاں تو بہت ساری باتیں بھید لیے ہوتی ہیں آنکھیں جیسے قرۃالعین طاہرہ نے کہا تھا "اگر اپنی نرگسی آنکھوں میں سُرمہ ڈال لوں تو دن کے وقت ہی تمام دنیا اندھیرے میں ڈوب جائے"۔
مست توکلیؒ نے فکرکے فیض پانے کے لئے بہت سفر کئے۔ اپنے وطن کے تو وہ چپے چپے سے شناسا تھے۔ سندھ بھی گئے۔ خطے کے اس قدیم تہذیبی وعلمی مرکز کے سفر میں انہوں نے آنکھیں اور کان کھلے رکھے۔ شاہ محمد مری کے بقول مست توکلیؒ نے سندھ کے ساتھ ہند کا سفر بھی کیا۔ کہاں گئے، کس سے ملے اور کیا مباحثے ہوئے کالم کے دامن میں گنجائش کم ہے لیکن مختصراََ یہ کہ ان کی فکر پر زمین زادوں سے محبت بڑی نمایاں ہے۔ ان کی شاعری کی بنیادیں بلوچی تہذیب و روایات اور ثقافت پر ہی ہیں مگر فکر وہی ہے جو اس راہ کے ان دوسرے صادقین کی رہی جنہوں نے حُبِ دنیا کو انسان سازی کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔
ہم بھی مست توکلیؒ کو محض "مائی سمو" کے عاشق کے طور پر نہیں لے سکتے، وہ تو بس اظہار کا ذریعہ ہے، ایسا ذریعہ جو ہر شاعر کو درکار ہوتا ہے۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کا ثانی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ یہ انکار بلاشبہ درست ہے۔ یہاں کون کسی کا ثانی ہو سکتا ہے۔ کوئی کسی کی صلیب اُٹھاتا ہے نہ درد کی دوا بنتا ہے۔
مست توکلیؒ کی انسان دوست فکرنے انہیں زندگی بھر جنگ وجدل سے بیزار رکھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انسانی سماج کا ارتقاء امن و تحقیق سے مشروط ہے۔ جنگیں لاشوں، بین، کھنڈرات اور نوحوں کے سوا کچھ نہیں دیتیں۔
مست توکلیؒ جس سماج میں پیدا ہوئے اس میں طاقت کے اظہار نے جو طریقے اپنا رکھے تھے ان سے ان ایسے صاحب فکر کا نالاں ہونا بجا تھا اسی لئے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھے "اے خدا ناگہانی آفات سے بچا (اور) سحر گاہ کے ناگہانی فسادات سے، اچانک نیام سے نکلی تلوار وں سے بچا"۔
وہ سمجھتے تھے کہ جنگیں بربادیوں اور ہجرتوں کے سوا کچھ نہیں بوتیں۔ اپنی زمین سے محبت میں سرشار مست توکلیؒ نے ہی کہا تھا "ہارکھان کی طرف سے جنگ کی اطلاع آئی ہے۔ قبائیل نقل مکانی کر گئے، دربھائی ویران ہوگیا"۔ وہ آزادی اور حق کے تحفظ میں ہوئی جنگ کے مخالف نہیں تھے۔ ہاں بالادستی، لوٹ مار، ظلم اور مخلوق خدا کو غلاموں کے ریوڑ کی طرح ہانکنے کے جنون اور جنگ کے شدید مخالف تھے۔
مست توکلیؒ جبر وستم کے خلاف فکر حسینیؒ کے پیروکارکے طور پر جیے اور زندگی بھر اقتدار و طاقت کی بدمستی کو یزیدی سوچ قرار دیتے رہے۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا "اچھی نہیں ہیں جنگوں کی واہیات باتیں۔ مال مویشی اور افراد خانہ دربدر ہوجاتے ہیں، دربھانی ویران ہوتا ہے۔ میرے محبوب کو سندھ کی جھلسا دینے والی گرمی کے عذاب سہنے پڑتے ہیں"۔ انفرادی و اجتماعی آزادی کی حفاظت کے لئے وہ معرکہ کربلا کوزندہ انسانوں کے لئے مشعل راہ قرار دیتے تھے۔
کہتے ہیں"بی بی فاطمہؑ کے بیٹوں نے اُمت کو راستہ دکھایا۔ درد مندوں کو فتح عرش سے نصیب ہوتی۔ مست کا بیڑا پار، اس کی جیت"۔
اپنے پیش رو صوفی شعراء کی طرح وہ بھی امن، محبت، اخوت اور قربانی کے جذبات کو ایک ایسے سماج کی تشکیل کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں جس میں ذات پات، چھوت چھات، محکومی و بالادستی نہیں بلکہ شرف آدمیت کو اولیت حاصل ہو۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں"آوٌ دروغ بھری دنیا کی طرف پیٹھ پھیر دیں۔ آوٌ خدا پر بھروسہ کرلیں۔ ہمیں تو اللہ اور حضرت علیؑ یاد ہیں۔ پیٹھ پیچھے دوست دشمن تذکرہ کرتے ہیں (کہ) گول چہرے والی سمو کا محبوب کہاں ہے"۔
مست پیٹ بھروں کی خرمستیوں سے ہمیشہ نالاں رہے۔ وہ اس پر یقین رکھتے تھے کہ " کھانا پینا سود مند ہوتا ہے۔ (مگر) راہ خدا میں دیا ہو تو آخرت کے لئے توشہ ہے۔ میں مالک کا ذکر روز وشب کرتا ہوں۔ خود پسندی سے آہ زاری اچھی ہے، گناہ معاف کراتی ہے "۔ مستؒ ہمیشہ کہتے "عیبوں سے محفوظ رہو، ضامن وہ لو جو کامل ہو۔ وہ چیزیں خریدوں جو کسی نے نہ دیکھی ہوں"۔ ان کاکہنا تھا "امیدیں غرض مند جوڑتی ہیں، غرض نفس پرستی سے جنم لیتی ہے، میں دنیا کو اٹھا کر کیوں چلو، مجھے تو اس تک جانا ہے، وہ اعمال کے ساتھ نیت دیکھتاہے"۔
دستِ دعا بلند کرتے تو کہتے "تیرے دیدار کا طالب ہوں۔ پُل صراط اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ میری کمزور جسامت کا خیال رکھنا"۔
ایک جام پیتاہوں اور معرفت کی بلندیوں تک جا پہنچتا ہوں۔
مست توکلیؒ اپنے سماج سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا (اور یہ درست بھی ہے) دنیا کی کوئی دوسری جگہ اپنے وطن کا نعم البدل نہیں۔ یہ بھی مست توکلیؒ ہی تھے جنہوں نے کہا "بہشتی باغوں میں اُمت کا کارواں رواں دواں ہے۔ کچھ حوروں میں بیٹھے ہیں انہیں شربت ملتی ہے، کچھ مُلا ہیں گنگ ہیں، پڑھتے قرآن ہیں پھر بھی دل میں دھوکہ ہے، پابندی ہے ان پر حضورﷺ کی مجلس میں جانے کی"۔
دوسرے صاحبان فکر کی طرح وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ دین کے نام پر دلوں کو توڑنے اور ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کی تبلیغ والے مُلا اصل سے کٹ چکے ہیں۔
"سمو" سے تو وہ کچھ یوں کہتے دکھائی دیتے ہیں"تو آنکھ اوپر اٹھاتی ہے تو برسوں کا ہجر غائب ہو جاتا ہے۔ دل دور رکھ کے آنکھوں کی بددعائیں نہ لو۔ دل کی آہیں نہ لے کہ تمہیں جوگیوں ک بددعائیں لگ جائیں گی"۔
میرے محبوب تیری یادوں کا کس قدر پیاسا ہوگیا ہوں۔ ندیاں پی جاؤں، مشک کو ہند سمیت نگل جاؤں مگر تو جو اپنے ہاتھوں کا ایک چُلو پانی عطا کردے تو میری زندگی بھر کی پیاس بُجھ جائے گی۔
اس کے وصل سے دل ٹھنڈا ہوا، جان لیوا درد تمام ہوا، میری آنکھوں پر پڑے جالے دور ہو گئے۔
مست توکلیؒ کی شاعری بلوچوں کو بہت محبوب ہے۔ ان کی فِکر کا جلتا چراغ جہل و تعصب کے اندھیروں کو کاٹ رہا ہے۔ وہ انسان کی شخصی آزادی، حق، احترام اور راست فکری پر یقین رکھتے تھے۔
بدلتے موسموں کے ساتھ ٹھکانوں کی تبدیلی ان پر گراں گزرتی اسی لئے وہ کہا کرتے تھے "کاش عزیز دوست دور دراز علاقوں سے لوٹیں، پہلے کی طرح دامن کوہ میں خیمے گاڑیں، اپنے چھوڑے ہوئے گھروں میں پھر سے بس جائیں، بھیڑیں پہاڑوں پر منمناتی پھریں، محبت کی فصل بوئی جائے"۔