پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں تین بڑی پاکستانی سیاسی جماعتوں کے آزاد کشمیر چیپٹر کی مخلوط حکومت ہے۔ اس مخلوط حکومت کے وزیراعظم چودھری انوارالحق پر ان دنوں جہاد کا بھوت سوار ہے۔ کہتے ہیں کشمیر کی آزادی کے لئے بہت ضروری ہے اس کے بغیر آزادی ممکن نہیں۔
ہم نے ایک دوست کے سامنے ان کے ریاستی وزیراعظم کے شوقِ جہاد پر اپنا سوال رکھا تو وہ بولے "یہاں آزاد کشمیر میں کون سی آزادی ہے۔ پورا نظام ایک کرنل کی "مار" ہے۔
اس دوست نے مظفر آباد سنٹرل بار ایسوسی ایشن کے حالیہ انتخابات میں "وائٹ ہائوس" کی مداخلت اور مداخلت کی بدولت سامنے آنے والے نتائج پر تفصیل سے بات کی۔ ہم نے عرض کیا، کیا سنٹرل بار ایسوسی ایشن کے ارکان اتنے ہی بے بس تھے کہ انہوں نے "وائٹ ہائوس" کے اشارے پر اطاعت گزار قیادت منتخب کرنے میں عافیت سمجھی؟
ان کا کہنا تھا کہ "برادری ازم علاقائی سیاست کی دھڑے بندیاں اور بار انتخابات میں مقامی و غیرمقامی ہونے کا تعارف و پھبتی بھی کارفرما رہی"۔ حیرانی ہوئی کہ ایک امیدوار کی محض اس لئے بھی مخالفت ہوئی کہ وہ مظفر آباد کی بجائے ضلع نیلم کا رہنے والا تھا۔
خیر یہ امیدوار وہی ہے جس نے "بلائے جانے پر ہونے والی ملاقات میں کہا تھا بار ا یسوسی ایشن کے معاملات وکلاء پر چھوڑدیجئے"۔ سادہ لفظوں میں اس نے "وائٹ ہائوس" کو بار انتخابات میں ٹانگ نہ اڑانے کا مشورہ دیا تھا۔ مشورہ الٹ پڑگیا انہوں نے ٹانگ ہی نہیں اڑائی بلکہ اس امر کو یقینی بنوایا کہ منہ پھٹ امیدوار جیتنے نہ پائے۔
افسوس ہوا اس صورتحال پر لیکن یہ عرض کرتے بنی کہ ہمارے ہاں بھی ماضی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کورم کے لئے نگ پورے کرنے کی ذمہ داری دو عدد کرنل صاحبان کی ہی رہی، یہ بھی کہ جن کے دور میں دونوں ایوانوں کو کرنل صاحبان چلاتے تھے وہ ان دنوں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے "دانا و بینا" ہیں۔
جہاں تک آزاد کشمیر کے وزیراعظم کے "دورہء جہاد" کا تعلق ہے تو کیا و ہمت کرکے آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا حقیقی بیس کیمپ قرار دے سکتے ہیں یہی نہیں مزید حوصلہ کرکے تنخواہ و مراعات وغیرہ سے مستفید ہونے کی بجائے ارکان اسمبلی اور وزیروں مشیروں پر اٹھنے والے اخراجات جہاد اور تعمیروترقی کے لئے مختص کردیں؟
ایک سے زائد دستوں نے جموں کشمیر کے پاکستان و بھارت کے زیرانتظام حصوں میں تعلیم، صحت، روزگار، روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں اور مقامی تعمیروترقی پر اپنا تجزیہ پیش کیا۔ اس تجزیہ سے اختلاف ممکن نہیں کیونکہ ہم پاکستانی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات اور جماعتیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر جو بھی کہیں پوری گواہی تو جموں کشمیر کے باشندوں کی ہی ہوگی۔
گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا مسلم کانفرنس کا الحاقِ پاکستان کا نظریہ آوٹ آف ڈیٹ ہوچکا مگر بات بات صرف یہیں تک محدود نہیں۔ پچھلے ایک برس کے دوران مظفر آباد میں وقفوں سے ہوئے قیام کے دوران جتنے بھی لوگوں سے عصری سیاست، حکومتی کارکردگی، عوامی مسائل اور مستقبل کے حوالے سے جب بھی گفتگو ہوئی تب تب ان کے عصری شعور اور دلیل سے عبارت باتوں نے حیرت کے در وا کئے۔
آزاد کشمیر میں ان دنوں بحث کا عام موضوع دو اہم معاملات پر ہے اولاً ریاستی حکومت کا منتخب بلدیاتی اداروں کو اختیارات اور وسائل سے محروم رکھنا۔ ثانیاً یہ کہ کیا مستقبل کی سیاست اور خصوصاً انتخابی سیاست میں حامیوں اور برادری ازم کی پالن ہار سیاسی جماعتوں کو جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا؟
عومی رائے یہ تھی کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی سیاسی جماعتوں کے لئے چیلنج بن سکتی ہے البتہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی سیاسی جماعتوں کے لئے چیلنج نہیں ہوگی کیونکہ ایکشن کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ہم خیال شامل ہیں اور ایکشن کمیٹی عوام کو درپیش مسائل پر منظم ردعمل ہے۔
فوری ردعمل اور منظم انداز میں سیاسی جدوجہد دو الگ الگ باتیں ہیں۔ یہ بھی کہ سیاسی جماعتوں کی بُنت اور برقرار رہنے کے معاملات میں اونچ نیچ تو آسکتی ہے ان کی سیاسی حیثیت تمام نہیں ہوگی۔
دوسری رائے کے حاملین سے سوال کیا، مسلم کانفرنس کے سیاسی زوال کی وجوہات کیا ہیں؟ جواب ملا بدلتے وقت کے تقاضوں اور نئی نسل کے عصری شعور سے متصادم جگہ پر کھڑا رہنا ثانیاً پاکستانی سیاسی جماعتوں کا ریاستی حدود میں قیام۔
مسلم کانفرنس سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست سید احسن کاظمی سے نشست نہیں ہوپائی ورنہ ان کا موقف جاننے کے ساتھ مسلم کانفرنس کی زوال پذیری پر تفصیل سے بات ہوتی۔
سید احسن کاظمی ان دنوں چودھری لطیف اکبر پر مبینہ حملہ کیس میں عبوری ضمانت پر ہیں۔ مسلم کانفرنس اس حملہ کیس کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیتی ہے اور پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ ریاستی اسمبلی کے سپیکر لطیف اکبر کے قافلے پر حملہ ہوا، پورا سچ سیاسی بُعد اور الزامات کے بوجھ تلے دب کر رہ گیا ہے۔
برادر عزیز سید برہان بخاری سے البتہ دو طویل نشستیں ہوئیں۔ سید برہان بخاری آزاد کشمیر یونیورسٹی کے انتظامی شعبہ میں اہم منصب پر فائز ہیں ان سے ابتدائی تعارف عشرہ بھر قبل فیس بک کے توسط سے ہوا اس بار مظفر آباد میں قیام کے دوران ان سے دو طویل نشستیں ہوئیں۔ تقابلی مطالعے کی عطا کردہ روشن خیالی میں گندھے برہان بخاری کے ہمراہ ایک نشست میں ماہر تعلیم جہانزیب آفریدی بھی تھے۔ تصوف، تاریخ، تقابل ادیان، تشیع و تسنع کے اختلافات کے ساتھ مختلف سیاسی ادوار اور دیگر موضوعات پر دو نشستوں میں بہت تفصیل کے ساتھ بات ہوئی۔ سیدی کے سوالات در سوالات نے ہمارے حافظے اور فہم کا خود امتحان لیا۔
ان کی خواہش تھی کہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے طلبا و طالبات سے ایک نشست رکھی جائے افسوس کہ ہماری مصروفیات اور پیشگی وعدے آڑے آئے اور ہم نئی نسل کے طلبا و طالبات سے مکالمہ کرنے کی سعادت سے محروم رہے۔ سیدی ایک اچھے سامع تو ہیں ہی ان کے سوالات بھرپور مطالعے کے عکاس تھے ان سے ہوئی دونوں نشستیں شاندار رہیں۔
اسے بدقسمتی کہہ لیجئے کہ مظفر آباد میں پانچ دن مقیم رہنے کے باوجود بہت سارے عزیزوں اور دوستوں سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ اپنے بھانجے امجد صدیق سے ملاقات نہ ہونے کا ملال بہت ہے خیر صحت اور زندگی نے ساتھ دیا تو ملاقات ہوگی ویسے اس کی امید یوں ہے کہ ہم نے اپنے ایک مہربان دوست راجہ انوار القمر ایڈووکیٹ سے وعدہ کیا ہے کہ نیلم جہلم کے سنگم پر پھر ڈیرے ڈالیں گے اور خوب باتیں ہوں گی۔
معروف صحافی ملک عبدالحکیم کاشمیری سے ملاقات نہیں ہوپائی۔ سیدی ذوالفقار حیدر نقوی ایڈووکیٹ کے چیمبر میں سید جابر علی کاظمی ایڈووکیٹ اور دیگر احباب سے بھی ایک نشست جمی۔
آزاد کشمیر کے معروف دانشور ادیب و شاعر عبدالبصیر تاجور سے ملاقات خوب رہی تاجور صاحب نے کشمیر کے پس منظر پر لکھی اپنی ایک نظم اور ایک سلام بحضور سیدالشہداء امام حسینؑ سنایا۔ افسوس کہ ان سے زیادہ استفادے کا وقت میسر نہیں ہوسکا۔
اب چلتے جلتے مظفر آباد کے ایک دلچسپ کردار نذیر احمد درانی کا حال احوال سن پڑھ لیجئے۔ موصوف آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات کے ریٹائر افسر ہیں۔ کرامات، معجزوں اور پیرانِ طریقت کے خاصے عقیدت مند ہیں۔ "قصص الانبیاء" ان کے نزدیک ایک کامل و افضل کتاب ہے۔ ہر وقت اس چکر میں رہتے ہیں کہ زرداری، ٹرمپ اور طیب اردگان کو خط لکھ کر اپنی مظلومیت و کسمپرسی سے آگاہ کریں محض آگاہ ہی نہ کریں بلکہ مدد بھی حاصل کریں۔
تبلیغ اسلام کے اتنے شوقین ہیں کہ انہوں نے اپنے وقت کے بلند پایہ عالم فلاسفر و دانشور صابر آفاقی مرحوم کو بھی "دعوت اسلام" دیدی تھی۔ ان کا تصور خدا اتنا دلچسپ ہے کہ ضبط تحریر میں لانے سے قاصر ہوں خوبی ان کی یہ ہے کہ صرف اپنی کہتے ہیں دوسرے کی بات سننے کے لئے وقت ہے نہ برداشت، فتویٰ جیب میں لے کر گھومتے ہیں۔
افسوس کہ ماضی کے ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی ان پر نظر نہیں پڑی ورنہ وہ باقاعدہ تبلیغی رجمنٹ بناکر انہیں تاحیات کورکمانڈر بنادیتے۔
ہمارے عزیز ثاقب اعوان ان کی لایعنی باتوں اور مثالوں سے چڑ جاتے ہیں۔ ایک بار تو ہم بھی بے ساختہ کہہ اٹھے "درانی صاحب لگتا ہے آپ نے ہماری شہادت کے لئے پیسے پکڑ رکھے ہیں مگر ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ اس شہادت سے بندہ مر بھی جاتا ہے"۔