پاکستانی حدود میں گزشتہ روز کی ایرانی کارروائی کے بعد سخت سفارتی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان نے نہ صرف ایران سے اپنا سفیر واپس بلالیا بلکہ اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر کو بھی ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ گزشتہ روز کے اس سخت ترین سفارتی اقدام کے بعد جمعرات کی صبح پاکستان نے ایرانی صوبہ سیستان میں کالعدم بلوچ تنظیموں بی ایل ایف اور بی ایل اے کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
جمعرات کی صبح پاکستان کی جانب سے ایرانی حدود میں ہونے والی کارروائی کو "مرگ برسر مچار" آپریشن کا نام دیا گیا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کے مطابق پچھلے کچھ عرصہ سے دہشت گردوں کے گروپوں نے جو خود کو بلوچ سرمچار کہتے ہیں ایران میں ٹھکانے بنارکھے ہیں۔
دہشت گردوں کے ان محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں اپنے تحفظات سے ایرانی حکومت کو مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا۔ جمعرات کی صبح انٹیلی جنس بیس آپریشن کے نتیجے میں متعدد دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ مختصر پریس بریفنگ میں دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کو کامیاب بنانے میں مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کام آئی۔
ایرانی ذرائع ابلاغ نے پاکستانی کارروائی میں 7 افراد کی ہلاکت کی خبر دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے حوالے سے آپریشن "مرگ بر سر مچار" کی خبر دینے والے چند صحافیوں نے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے بعض ان سرمچاروں کے نام بھی دیئے جو اس آپریشن میں مارے گئے۔
گزشتہ روز ایران نے پاکستانی بلوچستان کے علاقے پنجگور کے نواح میں جو میزائل حملہ کیا تھا اس پر ایرانی حکومت کاموقف ہے کہ حملہ ایرانی نژاد بلوچوں کے ٹھکانے پر کیا گیا نیز یہ کہ یہ ایرانی نژاد بلوچ دہشت گرد تنظیم جیش العدل کے نام سے ایران میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث تھے۔
ایرانی میزائل حملے کے بعد سفارتی تعلقات کی سطح کم کرنے، دونوں ممالک میں طے شدہ دوروں اور تقاریب میں شرکت کے پروگراموں کو منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ یاد ر ہے کہ ایران نے ایسا ہی ایک میزائل حملہ عراق پر بھی کیا جس کے خلاف عراق نے اقوام متحدہ میں اپنی شکایت درج کرائی ہے۔
پاکستانی حدود میں ایرانی میزائل حملے پر ملک بھر میں عوامی ردعمل بہت شدید تھا۔ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر اس حوالے سے غیرسنجیدگی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینے کی کوششیں انتہا کو چھوتی ہوئی دیکھائی دیں یقیناً یہ صورتحال باعث تشویش ہے۔
البتہ بعض حلقے یہ سوال کرتے ضرور دیکھائی دیئے کہ افغانستان سے امریکہ و نیٹو کے انخلا کے بعد بننے والی افغان عبوری حکومت کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کالعدم ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ و گولہ بارود کی فراہمی اور سرحد پار دراندازی کے لئے سہولتوں کی نگرانی کے لئے افغان عبوری حکومت کے ذمہ داران کی موقع پر موجودگی (جیسا کہ سرحدی باڑ کاٹنے کے متعدد مواقع پر متعلقہ علاقوں کے افغان ذمہ دار حکام موقع پر دیکھائی دیئے) اور کالعدم ٹی ٹی پی و دوسری دہشت گرد تنظیموں کے افغان حدود میں محفوظ ٹھکانوں بارے ٹھوس انٹیلی جنس معلومات کے باوجود جوابی کارروائی سے کیوں گریز کیا جارہا ہے۔
یہ کہ ان واقعات کی ذمہ دار افغان عبوری حکومت سے سفارتی تعلقات کو محدود سطح پر لانے کے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے؟ گو کہ اس سوال سے گزشتہ روز کے واقعہ کی سنگینی کم ہوتی ہے نہ ہی سخت ابتدائی سفارتی ردعمل کے بعد ایرانی حدود میں جمعرات کی صبح کی جانے والی جوابی کارروائی سے کشیدگی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز کرنا ممکن ہے۔
اسی طرح بعض کالعدم تنظیموں کے ہم خیال افراد کا گزشتہ روز سے سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ بھی تشویش کا باعث ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی اور جغرافیائی حدود پر موجود قومی موقف اور جذبات پر دو آراء نہیں۔ ایران کے ٹارگٹ میزائل حملے اور پاکستان کی جوابی کارروائی پر دونوں ملکوں کا موقف اپنی جگہ مگر بنیادی اہمیت کا سوال یہ ہے کہ پاک ایران دوستی باہمی اعتماد، تہذیبی و ثقافتی اور تاریخی تعلقات کا شاہکار سمجھی جاتی آرہی تھی۔ اچانک ایسا کیا ہوا کہ دونوں پڑوسی ملکوں نے ساڑھے سات عشروں کے سفارتی اعتماد کو تج کرکے ایک دوسرے کے علاقوں میں ٹارگٹ آپریشن کردیئے؟
کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ دونوں ملک اس حوالے سے موجود اپنی اپنی شکایات کو مل بیٹھ کر دیکھتے اور حل تلاش کرتے اسی طرح بلوچ شدت پسند تنظیموں کے افغانستان اور ایران میں ٹھکانوں اور ایران میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف بعض شدت پسند گرپوں جنداللہ جوکہ اب جیش العدل کے نام سے سرگرم ہے اور لشکر جھنگوی العالمی کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کے سہولت کاروں کے حوالے سے جو باتیں زبان زد عام ہیں ان سے صرف نظر کیا معنی رکھتا ہے
بالخصوص اس صورت میں جب اس امرکے ٹھوس شواہد موجود ہوں کہ ایرانی بلوچستان سے پاکستانی بلوچستان اور دوسرے علاقوں کے دینی مدارس میں پڑھنے کے لئے آنے والے طلبا کا کالعدم شدت پسند تنظیموں سے رابطہ کرانے میں مصروف افراد بارے ہر خاص و عام آگاہ ہو۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دونوں پڑوسی ملک انٹیلی جنس آپریشنوں کی بجائے مسائل کا حل مل بیٹھ کر تلاش کرتے تو یہ زیادہ مناسب ہوتا۔ ان آپریشنوں کے بعد جو خطرات منڈلارہے ہیں ان کی جانب سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی میزائل حملے کے جواب میں پاکستان نے سخت سفارتی اقدام کے ذریعے جو جواب دیا تھا وہ درست اور بروقت تھا یقیناً جوابی ٹارگٹ آپریشن پاکستان کا حق تھا جو استعمال کیا گیا مگر ان حالات میں جس اہم سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ کہیں مستحکم تعلقات والے دونوں پڑوسی ملک کسی تیسری قوت کے ہاتھوں ٹریپ تو نہیں ہوگئے۔
یہ تیسری قوت وہ بھی ہوسکتی ہے جو پاکستان میں 47 ارب ڈالر کے سی پیک کے چینی منصوبے اور ایران میں چین کی 400 ارب ڈالر کی بڑی چینی انویسٹمنٹ کو اپنے علاقائی و عالمی مفادات کے لئے خطرہ سمجھتی ہے؟
یہ حقیقت کہ اگر مذکورہ سوال کی روشنی میں ہر دو واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ایران کو باقاعدہ ٹریپ کیا گیا اسی طرح جذبات اور غصے میں پاکستان نے بھی جوابی وار کردیا۔
بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ایرانی میزائل حملے کے بعد ابتدائی طور پر سخت سفارتی ردعمل اور سفارتی درجہ کم کرنے کے موثر جواب کے بعد پاکستان کو عملی ردعمل کی طرف لے جایا گیا۔
بہرطور اس امر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ دونوں ملک ہوش کے ناخن لیں اور اس امر کو مدنظر رکھیں کہ فلسطین کے موجودہ ابترحالات مسلم دنیا میں ناخواندگی اور غربت کی خوفناک صورتحال میں مسلم امہ کے جس اتحاد کی، ضرورت ہے حالیہ واقعات سے اس اتحاد کو نقصان پہنچا ہے۔
ہم دست بدستہ اور مودبانہ درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ ایرانی قیادت بالخصوص ایرانی کی دفاعی حکمت عملیوں کی پالیسی ساز، پاسداران انقلاب فورس، وزارت دفاع اور دفتر رہبر ایران کے ذمہ داران کو کسی تاخیر کے بغیر اپنے اقدام کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ اس سے ایران کو فائدہ کیا اور نقصان کتنا ہوا۔
ثانیاً ہم پاکستانی حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی ضروری سمجھتے ہیں کہ حالیہ واقعہ پنجگور میں ایرانی میزائل حملے کے بعد سوشل میڈیا پر جس طرح بعض کالعدم شدت پسند تنظیموں اور انکے ہمدردوں کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے اس کا کسی تاخیر کے بغیر نوٹس لیاجائے تاکہ امن و انسانیت کے دشمن اپنی زبان درازیوں اور پروپیگنڈے کے ذریعے کسی سانحہ کے رونماہونے کی راہ نہ ہموار کرنے پائیں۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور قومی یکجہتی کے پیش نظر ارباب اختیار ان معروضات پر توجہ دیں گے۔
اسی طرح ہم پاکستان کے اہل دانش اور سنجیدہ فہم افراد سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ منفی اور زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا کردار موثر طریقہ سے ادا کرنے کے ساتھ حکومت پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مئوثر کاروائی کرے تاکہ کوئی کج فہم لگائی بجھائی کے ذریعے حالات کو خراب نہ کرنے پائے۔