Friday, 03 January 2025
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Parachinar Muhasra Aur Kuch Talkh o Shereen Baaten

Parachinar Muhasra Aur Kuch Talkh o Shereen Baaten

پارا چنار کا مکمل محاصرہ 12 اکتوبر 2024ء سے جاری ہے، حالیہ تنازع رواں سال ستمبر میں شروع ہوا تھا۔ اکتوبر میں سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں پارا چنار سے پشاور جانے والے مسافر کانوائے پربگن کے مقام پر مسلح افراد نے حملہ کیا اس میں درجنوں مردوزن اور بچے جاں بحق ہوگئے۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے پارا چنار محاصرے کو 80 دن مکمل ہوگئے سادہ لفظوں میں یہ کہ 12 اکتوبر کو شروع ہونے والا محاصرہ نئے سال کے پہلے دن بھی برقرار رہے گا۔

پارا چنار کے حالیہ تنازع، محاصرے ا ور 15 دن سے جاری دھرنے کا تجزیہ کرنے والوں میں سے بہت کم لوگوں کو حقیقت حال معلوم ہے زیادہ تر صاحبان دور کی کوڑی لائے کہ پارا چنار ماضی میں طالبان کے لئے لاچنگ پیڈ رہا ہے۔ اس میں رتی برابر صداقت نہیں البتہ پارا چنار کو سابق غیربندوبستی(قبائیلی علاقوں میں جو اہمیت حاصل ہے یہ اہمیت ہی اس کی دشمن ہے۔ امریکہ یہاں ایئربیس بنانا چاہتا ہے یہ رائے حال ہی میں سامنے آئی۔ تو کیا امریکہ پارا چنار کے اہل تشیع کے مخالف مقامی قبائل اور ضلع کرم میں اڑھائی ماہ سے موجود غیرمقامی جنگجوئوں کی سرپرستی کررہا ہے؟

یہ مقام افغانستان کے لئے لاچنگ پیڈ کے طور پر افغان میں لڑی گئی سوویت امریکہ جنگ جسے ہمارے ہاں جہادی کاروبار کے طروپر فروغ حاصل ہوا ضرورت تھا اس وقت پارا چنار واسیوں کو ایک طرف فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ریاستی جبروستم کا سامناکرنا پڑا تو دوسری جانب فضل الرحمن خلیل اور سیف اللہ خالد کی مسلح تنظیموں (دونوں تنظیموں کا تعلق ایک خاص مسلک سے تھا) کی ناراضگی کا بھی سامناکرنا پڑا۔

اس امر پر دو آراء نہیں کہ پارا چنار کے ضلع کرم میں مختلف العقیدہ قبائل کے درمیان ذاتی رنجشوں اور مقامی تنازعات کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے۔

فرقہ وارانہ رنگ کون دیتا ہے۔ آزاد تجزیہ نگار بھی اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لے پاتے۔

ماضی کو اٹھارکھئے حالیہ تنازع اور بالخصوص بگن میں پارا چنار سے پشاور جانے والے مسافر کانوائے کے مسافروں کے قتل عام کے بعد کیا انجمن حسینیہ پارا چنار نے دوسرے علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا میں موجود ہم عقیدہ لوگوں کو مسلح ہوکر اپنی مدد کے لئے آنے کی دعوت دی یا بگن میں مسافروں کا قتل عام کرنے والے مسلح دہشت گردوں نے ہنگو، ٹل اور کوہاٹ کے ساتھ پارا چناراور افغان سرحد کے درمیان آباد ہم خیال لوگوں کو پارا چنار پر لشکر کشی اوران کے لئے ضروریات زندگی کے حصول کا ہر راستہ بند کرنے کی اپیل کی؟

پھراس اپیل کے حق میں فتووں کا اجراء بھی ہوا۔ صرف اس ایک نکتے پر ٹھنڈے دل سے غور کی زحمت پر ایک سے زائد سوالات کا جواب آسانی کے ساتھ مل جاتا ہے۔

80 دن کے محاصرے اور 15 دن سے جاری پارا چنار دھرنے میں سب سے زیادہ شرمناک کردار خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا ہے اس حکومتی جماعت پی ٹی آئی کے اتحادی سینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری اور ان کے ہم خیال روزانہ کی بنیاد پر لٹھ لئے وفاقی حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں لیکن ایک بار بھی انہوں ڈ نے بگن میں موجود غیرمقامی مسلح جتھوں کے سب سے بڑے سہولت کار مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کی برطرفی کا مطالبہ کیا نہ صوبائی حکومت کو موجودہ صورتحال کا مجرم ٹھہرایا۔

پارا چنار کا حالیہ تنازع ستمبر 2024ء میں شروع ہوا تھا اکتوبر اور نومبر میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور دوبار پشاور سے اسلام آباد چڑھائی کے لئے نکلے پی ٹی آئی کے اتحادی سینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری دونوں مرتبہ کی لشکر کشی کے مراحل میں جذباتی انداز میں حکومت وقت کو یذیدیت کی نشانی ثابت کرتے دیکھائی دیئے لیکن انہوں نے علی امین گنڈاپور سے یہ سوال کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ صوبے میں امن و امان برقرار رکھنے اور بالخصوص پارا چنار میں غیرمقامی مسلح جتھوں کے ستائے ہوئے لوگوں کی دادرسی پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟

آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ پارا چنار تنازع میں سب سے مشکوک کردار خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا ہے۔ 30 دسمبر 2024ء کو انہوں نے لگ بھگ تیسری باراس موقف کا اعادہ کیا کہ "جب تک جرگے میں سمجھوتہ نہیں ہوتا حکومت سڑک نہیں کھولے گی"۔

اس کا صاف سیدھا مطلب یہ ہوا کہ صوبائی حکومت سڑک کھلوانے اور محاصرہ ختم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے مگر وہ یا بیرسٹر سیف چاہتے ہیں کہ بگن میں موجود غیرمقامی جنگجوئوں کی ناک نیچی نہ ہونے پائے۔

یہاں یہ یاد دلانا بھی ازبس ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا کو آج جس طالبانائزیشن کا پھر سے سامنا ہے اس کی ذمہ دارسینیٹر راجہ ناصر عباس جعفری کی اتحادی جماعت پی ٹی آئی ہے۔ کابل مزاکرات باضابطہ طور پر 2021ءمیں شروع ہوئے تھے تب عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض ایک پیج پر تھے البتہ ان مذاکرات کے لئے ستمبر 2020ء سے رابطے جاری تھے اور رابطہ کار کے فرائض بیرسٹر سیف ادا کررہے تھے جو نہ صرف خود پرانے جہادی ہیں بلکہ ان کا خاندان طالبان جہادیوں کا قدیم مربی ہے۔

اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں بگن اور گردونواح میں کالعدم ٹی ٹی پی، کالعدم لشکر جھنگوی، رواں برس کے اوائل میں منظرعام پر آنے والی تحریک المجاہدین کے علاوہ مسلح افغان جنگجو جن میں سے زیادہ تر کا تعلق منگل قبیلے سے ہے موجود ہیں۔

گزشتہ تین جمعتہ المبارک کے دوران ان جنگجوئوں کے ہم خیال مولوی حضرات نے ٹل، ہنگو اور خود ضلع کرم میں جمعہ کے اجتماعات سے خطابات کے دوران بگن میں موجود مسلح جنگجوئوں کو لشکر اسلام کے طور پر پیش کرکے جس طرح لوگوں کے جذبات کو بھڑکایا اس پر صوبائی حکومت نے کیا کارروائی کی؟

اب آیئے پارا چنار دھرنے سے یکجہتی کے لئے ملک بھر میں جاری دھرنوں کی طرف۔ خیبر پختونخوا میں اس وقت پشاور میں پشاور کلب کے قریب ایک سڑک کے کنارے پر دھرنا اس طرح موجود ہے کہ ٹریفک بھی چل رہی ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں دھرنا دو دن جاری رہا اس کے اچانک ختم کردیئے جانے کی جو وجوہات مجلس وحدت المسلمین ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے صدر سید غضنفر نقوی نے ویڈیو پیغام میں بیان کی ہیں پتہ نہیں انہیں سن کر کسی کو شرم بھی آئی یا نہیں۔ لاہور میں یکجہتی دھرنا، پریس کلب کے قریب موجود ہے۔ ملتان میں نواں شہر چوک میں۔

کراچی میں آج صبح تک 10 سے زائد مقامات پر یکجہتی دھرنے تھے سندھ حکومت، کراچی پولیس اور ایم ڈبلیو ایم کے درمیان پچھلے تین دن سے جاری بیک ڈور رابطوں کے بعد آج مذاکرات کے نتیجے میں سات مقامات پر سے دھرنے ختم کردیئے گئے جبکہ نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے ساتھ دو مزید مقامات کامران چورنگی اور نزد سفاری پارک والے دھرنے جاری رہیں گے۔ 30 دسمبر کی شام ہی ایم ڈبلیو ایم کے سینیٹر راجہ ناصر جعفری نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "راستے بند کرنا غلط ہے میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں دھرنا جاری رکھیں مگر راستے بند نہ کریں"۔

کراچی میں نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے بعد اچانک شہر میں 10 سے زائد مقامات پر دھرنا دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس پر مختلف آراء بھی سامنے آئیں ان میں سے ایک انچولی سے تعلق رکھنے والے ابو ہاشم کے قتل کا معاملہ بھی تھا دھرنوں کے حامیوں نے ابو ہاشم والے معاملے کو سازشی تھیوری قرار دیا، لیکن بات اتنی سادہ بھی ہرگز نہیں تھی بہرطور یہ ہمارا موضوع نہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ نمائش چورنگی کے مرکزی دھرنے کے حق میں کراچی کے مختلف الخیال طبقات کی ہمدردیاں موجود تھیں پھر اس سے ہٹ کر دس سے زائد مقامات پر دھرنے دینے کا فیصلہ کیوں ہوا۔ سید شہنشاہ نقوی نے یہ کیوں کہا کہ کراچی ایئرپورٹ اس وقت تک بند ر ہے گا جب تک پارا چنار کا ر استہ نہیں کھل جاتا؟

کراچی میں تقریباً درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے شہری و دیگر مسائل کو چھوڑیئے کیا اس فیصلے سے ہمدردیوں کا دائرہ وسیع ہوا یا تنقید کا؟

محض یہ کہہ کر دینا کہ انجمن سپاہ صحابہ کی جانب سے جوابی دھرنوں کا اعلان حوالدار بشیر کے ایزی لوڈ کا نتیجہ ہے درست نہیں۔ حوالدار بشیر تو کبھی راجہ صاحب کو بھی بہت محبوب ہوا کرتا تھا۔ یہاں کون ہے جو حوالدر بشیر کے ایزی لوڈ کا اسیر نہیں؟

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے محصورین پارا چنار کے لئے سماج کے مختلف طبقات میں موجود ہمدردیاں کم ہوں۔

اسی طرح اصل مجرم خیبر پختونخوا کی حکومت کو محفوظ راستہ نہیں دینا چاہیے۔

وفاق پر تنقید کا حق ضرور استعمال کیجئے لیکن 18ویں ترمیم ضرور پڑھ لیجئے صوبائی حکومت کے بلائے بغیر وفاقی سکیورٹی فورسز کردار ادا نہیں کرسکتیں۔

ایک سوال ہے وہ یہ کہ پشاور میں دیئے جانے والے دھرنے کو کراچی کے دھرنوں کی طرح مرکزیت کیوں حاصل نہیں ہوسکی؟ حرف آخر یہ ہے کہ جب تک خیبر پختونخوا حکومت کی منافقت اور بگن میں موجود جنگجوئوں کے لئے۔ صوبائی حکومت کے اندر سے سہولت کاری جاری رہے گی پارا چنار کا مسئلہ عوامی و علاقائی مفادات کے تحت حل نہیں ہوگا۔