دوتین دن قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر لکھنا چاہتا تھا تب، فقیر راحموں نے کہا پیپلزپارٹی ہے بھی؟ کسی حد تک اس کی بات درست ہے گو پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع سے قومی اسمبلی کی 8 نشستیں ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے اس کا ایک رکن قومی اسمبلی اور 2 ارکان صوبائی اسمبلی ہیں۔ سندھ میں پچھلی مرتبہ کے مقابلہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں اس کی عددی تعداد زیادہ ہے۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں وزیراعلیٰ اس کا ہے۔
سرفراز بگٹی موصوف کا نام ہے ایجنسیوں کی تابعداری اور ان کے ایجنڈے کو زیر زبر کے ساتھ آگے بڑھانے کی شہرت دوامی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں انہوں نے سیاسی قلابازیوں کے ریکارڈ بنائے ان دنوں پیپلزپارٹی میں ہیں اگلے الیکشن میں کہاں ہوں گے اس کے بارے میں وہ خود بھی حتمی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں۔
جیالے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کے والد پیپلزپارٹی کے ضلعی صدر رہ چکے۔
سندھ میں مرحوم سید عبداللہ شاہ بخاری کے صاحبزادے سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ ہیں۔ البتہ پیپلزپارٹی جس شہر، لاہور میں بنی تھی اس شہر سے اس کا کب سے صفایا ہوچکا۔ رواں برس فروری میں منعقدہ عام انتخابات میں پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو لاہور سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے عطاء اللہ تارڑ اور تحریک انصاف کے ظہیر عباس کھوکھر تھے۔ عطاء اللہ تارڑ کامیاب ہوئے بلاول بھٹو اتنے ووٹ بھی نہ لے سکے جتنے پچھلے دور میں لاہور میں قومی اسمبلی کے ایک حلقہ میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کے امیدوار نے لئے تھے (غالباً 30 ہزار سے زائد ووٹ تھے امیدوار کے)۔
اس شکست پر (ن) لیگ کے جھرلو ایجنسیوں کی محنت اور کچھ دوسری کہانیاں جیالوں نے سوشل میڈیا پر فروخت کیا لیکن "رش" نہیں لے سکیں یہ کہانیاں، وسطی پنجاب سے قومی اسمبلی کی واحد نشست راجہ پرویز اشرف کی ہے گوجر خان ضلع راولپنڈی سے راجہ پرویز اشرف سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی ہیں۔
خیبر پختونخوا کی اعلیٰ سیاسی قیادت کا انتخابی میدان میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں کریا کرم ہوا ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں نہ ہوتیں تو ہمیں چند اچھی کہانیاں اور کچھ سازشوں کے قصے پڑھنے سننے کو ملتے۔
پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع (سرائیکی وسیب) سے پیپلزپارٹی کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی جو نشستیں ملیں ان میں یقیناً پارٹی کا ووٹ بینک ہوگا لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقائی سیاست کے ان بڑے خاندانوں کی نشستیں ہیں جو پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے ہر حال میں۔ ان خاندانوں میں سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے ماموں زاد بھائی مخدوم سید احمد محمود گیلانی کے خاندان نمایاں ہیں۔
ضلع ملتان سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر گیلانی کامیاب ہوئے بعدازاں سید یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ کی رکنیت مل جانے پر قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اس پر ضمنی انتخاب میں ان کے صاحبزادے منتخب ہوگئے۔
یوسف رضا گیلانی کے تین صاحبزادے قومی اسمبلی کے رکن ہیں وہ خود سینیٹ کی اسلام آباد سے ایک نشست پر سینیٹر بنے اب سینیٹ کے چیئرمین ہیں ان کے چوتھے صاحبزادے علی حیدر گیلانی پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔
سندھ، سرائیکی وسیب، خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمایعل خان سے اس کے ارکان اسمبلی میں سفید پوش گھرانوں کے سیاسی کارکن کتنے ہیں اور اشرافیہ کے خاندانوں کی نمائندگی کتنی؟ اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ انتخابی عمل اس قدر مہنگا ہوچکا کہ سیاسی کارکن ایک آدھ گردہ فروخت کرکے میونسپل یا ضلع کونسل کا رکن نہیں بن سکتا، صوبائی و قومی اسمبلی کی ممبری تو "ہنوز دلی است" کے مصداق ہے۔
ایک ایسی جماعت جس نے طبقاتی اور ڈرائنگ روم کی سیاست کو سڑکوں پر لے آنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دیا آج اشرافیہ کے ڈیروں، حجروں، اوطاقوں اور ڈرائنگ رومز تک محدود ہے۔ کیوں؟
اس سوال کے جواب میں جیالے دوست جن وارداتوں اور کہانیوں سے جی بہلارہے ہیں ان سے "حلق تر" کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں کھلے دل سے مان لینا چاہیے کہ پیپلزپارٹی معروضی حالات کا اثر قبول کرچکی اور اب یہ عوامی مزاحمت جمہوریت یا انقلاب کی طرف گامزن پارٹی نہیں بلکہ مروجہ سیاسی نظام یعنی سکیورٹی اسٹیٹ کی پابند طبقاتی جمہوریت کا ایک کردار بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے دستیاب کارکنوں اور حامیوں کے پاس موجودہ کردار کے حوالے سے یقیناً دلائل ہوں گے اور ہونے بھی چاہئیں۔
مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ انتہائوں میں تقسیم سماج میں جو بھی سیاسی جماعت طبقاتی جمہوریت کے گارڈ فادروں کی سہولت کاری کرے گی اس کی مقبولیت میں کمی آئے گی۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طویل عرصے تک عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ (اس میں سول ملٹری دونوں شامل ہیں) پی پی پی کے خون کے پیاسے رہے لیکن غور کیجئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تب پیپلزپارٹی کے سارے مخالف ایک چھتری کے نیچے آگئے مگر پیپلزپارٹی کی طاقت برقرار رہی۔ اسی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جب آگے چل کر ملا ملٹری اتحاد (ایم ایم اے) بنوایا تو پوری ریاستی قوت و وسائل پھونکے جانے کے باوجود پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں دوسری بڑی پارٹی تھی، پھر اس کے بطن سے پی پی پی پی (فور پی) والی جماعت نکالی گئی۔
پیپلزپارٹی کی موجودہ حالت زار کا ذمہ دار جیالوں کا ایک طبقہ ایجنسیوں کو قرار دیتا ہے اسے چھوڑ جانے والے کہتے ہیں پی پی پی کی قیادت نے بھٹو کے قاتلوں اور 1988ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کی تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھنکوانے والوں سے دوستی کرلی۔
ہماری دانست میں دونوں باتیں درست نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ سکیورٹی سٹیٹ میں اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ماضی میں تھیں اب بھی ہیں ایجنسیوں کی مرضی تھی تو سید یوسف رضا گیلانی اکثریت رکھنے کے باوجود چیئرمین سینیٹ نہیں منتخب ہوسکے تھے اب کیا صدارت اور سینیٹ کی چیئرمینی ایجنسیوں کی مرضی کے بغیر مل گئی اور بلوچستان میں جمہوری فکرکے سیلاب نے اسے ایوان اقتدار میں پہنچادیا؟
قاتلوں سے سمجھوتہ کرنے والی بات مان لی جائے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں کردار ادا کرنے والی پی این اے کی بعض جماعتیں بعد میں اسی ایم آر ڈی کا حصہ بنیں جو ضیائی مارشل لاء کے خلاف بنا تھا۔ پی پی پی محترمہ نصرت بھٹو کی قیادت میں اس اتحاد کا حصہ تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اوئے توئے ماردو مٹادو کے مولا جٹ فیم جذبات کا اظہار کرنے والا ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ذرا گزشتہ 76 برس اور بٹوارے سے قبل کی سیاست کا جائزہ لیجئے آسان جواب مل جائے گا۔
سکیورٹی اسٹیٹ میں اسٹیبلشمنٹ نظام حکومت کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے جو بھی لگامیں چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے مٹا دیا جاتا ہے۔
پیپلزپارٹی کو اپنی موجودہ حالت زار کا تجزیہ کہانیوں اور سازشوں کی رام لیلائوں کی بنیاد پر نہیں زمینی حقائق اور مجموعی سماجی رویوں کی بنیاد پر کرنا چاہیے تبھی درست جواب مل سکتا ہے۔
پی پی پی کے دوست جو مرضی کہیں میرا آج بھی موقف یہی ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد نے ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا دوسری جانب عمران خان کو مظلوم بنادیا، یہ عدم اعتماد کی تحریک نہ لائی جاتی تو اس وقت کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ فقط 6 ماہ میں منہ کے بل گرجاتے۔
بہرطور حقیقت اور ضرورت یہ ہے کہ اس امر کا تجزیہ ہونا چاہیے کہ عوامی سیاست سے طبقاتی جمہوریت میں حصہ دار بننے تک کے سفر میں پیپلزپارٹی نے کیا کھویا اور کیا پایا؟