یہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان بیانیہ بنانے اور بیچنے میں "ماہر" ہیں۔ جیسے انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے دنوں میں ہسپتال کی تعمیر کے بعد ہر ضلع میں ایچیسن کی طرح کا تعلیمی ادارہ بنانے کا بیانیہ بیچا۔ خود شوکت خانم ہسپتال کے لئے ابتدائی چندہ مہم میں ان کا یہ بیانیہ خوب فرخت ہوا کہ "میرے پاس والدہ کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے وہ کینسر کا شکار ہوکر وفات پاگئیں میں ان کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانا چاہتا ہوں"۔
اس وقت ان کے سرپرستوں کے ساتھ ہم ایسے "بے خبروں" نے یہ بیانیہ خوب بیچا کہ عمران خان پاکستان ہی کیا جنوبی ایشیاء میں پہلا کینسر ہسپتال بنانے جارہا ہے حالانکہ اس وقت بھی انمول ہسپتال لاہور سمیت ملک میں درجن بھر ہسپتال ایسے تھے جہاں کینسر کے مریضوں کا علاج ہوتا تھا خود مرحومہ محترمہ شوکت خانم صاحبہ کے کینسر کی تشخیص بھی انمول ہسپتال لاہور میں ہونے والے میڈیکل ٹیسٹوں سے ہی ہوئی تھی۔
کرکٹ کے راستے ہیرو بننے والے کو عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سماجی مسیحا سمجھنے والوں میں "ہم" بھی شامل تھے آگے چل کر جب مسیحا کی شخصیت کے نقاب در نقاب پہلووں سے آگاہی ہوئی تو کنارہ کشی میں عافیت جانی لیکن اس عرصے میں بہت کچھ عیاں ہوگیا۔
شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کے دنوں میں شہر شہر چندہ مہم کے دوران جب وہ ضلعی سطح پر ایچیسن کے میعار کا تعلیمی ادارہ بنانے کے لئے ملک گیر مہم کا اعلان کیا کرتے تو سفید پوش خاندانوں کے ہم ایسے محنت کشوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔
لیکن ہوا اس کے برعکس وہ جنرل حمید گل کی سرپرستی میں چلے گئے۔ گو ان دنوں بعض دوست کینسر ہسپتال کے پروگرام کو پاکستانی ایجنسیوں کا طویل المدتی منصوبہ کہتے ہوئے یہ سمجھایا کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اب ایک سماجی مسیحا تخلیق کرنے کے مرحلے میں ہے اور یہ مرحلہ ایک سیاسی جماعت کے قیام پر مکمل ہوگا تو ہم ان دوستوں کو آڑے ہاتھوں لیا کرتے تھے
پھر وقت نے ان دوستوں کو اس وقت درست ثابت کردیا جب عمران خان نے ایچیسن جیسے تعلیمی ادارے بنانے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔
ابتداً ہمارے بہت سارے بزرگ ترقی پسند دوستوں (ان میں مرحوم معراج محمد خان اور ڈاکٹر مبشر حسن مرحوم بھی شامل ہیں) نے عمران خان کی ذات میں مشرق کا جی گویرا تلاش کرلیا اوراس کے اسیر بھی ہوئے۔ مگر بہت جلد انہیں سمجھ میں آگیا کہ "کون ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے" اس لئے وہ ان سے الگ ہوگئے۔
عمران خان بھی دوسروں کی طرح خوبیوں اور خامیوں میں گندھے ہوئے شخص ہیں البتہ وہ غضب کے خودپسند نک چڑھے اور میں سب جانتا ہوں کی " نعمتوں" سے مالامال ہیں ان کا یہ دعویٰ کہ میرے پاس کینسر کی مریضہ والدہ کے علاج کے لئے پیسے نہیں تھے، سامنے رکھ کر اگر 1990ء کی دہائی میں ان کے اور ان کی بہنوں کے اثاثوں اور بہن بھائیوں کے موجودہ اثاثوں کا جائزہ لیں تو اٹھارہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔
ایک مسیحا، دیوتا، ناقابل تسخیر اور پلے بوائے سے قطب بننے کی کہانی آئی ایس پی آر کے فیض یافتگان نے لکھیں آگے بڑھائیں الیکٹرانک میڈیا آنے سے قبل ان کے لئے مضمون لکھوائے اور پھرشائع کرائے جاتے رہے چند مضامین ان کی پہلی اہلیہ جمائما خان (اس وقت جمیلہ خان) کے نام سے بھی لکھوا کرشائع کرائے گئے تھے۔
اس نثری جہاد میں جنگ گروپ نے سب سے زیادہ حصہ ڈالا تھا الیکٹرانک میڈیا آیا تو ان کے لئے ون مین شو کرانے کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے " کل پرزوں" نے سنبھال لی بسا اوقات تو ایک ہی دن میں تین تین نجی چینلوں پران کے انٹرویو نشر ہوتے تھے۔ من پسند دیوتا تخلیق کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے جو بن پایا وہ کیا یہاں تک کہ وہ اپنے تخلیق کردہ دیوتا کو اقتدار میں بھی لے آئی یہی نہیں اپنے تربیت یافتہ لشکر اور بالخصوص ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین عمران خان کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔
30 برس اور وسائل خرچ کرکے اسٹیبلشمنٹ نے جو دیوتا تخلیق کیا اس نے اپنے خالقوں کو وہاں مارا جہاں مارے جانے کا انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ کبھی کبھی اسٹیبلشمنٹ کے اس " انجام " پر خوشی بھی ہوتی ہے۔
آج بھی عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی میں اس دیوتا سے محبت کرنے والے موجود ہیں۔ پچھلے دو اڑھائی برسوں سے بعض مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی مسلسل توسیع اس کا ثبوت ہے۔
انہیں یہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ سوشل میڈیا کے محاذ پر وہ صرف مخالفین ہی نہیں ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ انہوں نے کہا امریکہ نے مجھے اقتدار سے نکلوایا ان کے پیروکاروں نے مان لیا۔ دعویٰ کیا خدا نے مجھے پیغمبروں کی طرح تیاری کرائی ہے کسی نے چُوں تک نہیں کی۔ وہ دوسروں کو چور کہتے تھے۔ تحائف کے معاملہ میں اسرائیلی وزیراعظم سے ہونے والی پولیس تفتیش کی بات کو قانون کی حاکمیت قرار دیتے تھے لیکن جب خود تحفے فروخت کرنے کے الزامات کی زد میں آئے تو بولے "میری گھڑی میری مرضی رکھوں یا بیچ دوں"۔
ان کے پیروکاران کی دونوں باتوں پر ایمان لے آئے۔ یوٹرن لینے کو وہ سیاست کی معراج سمجھتے ہیں اور غیرجانداری کو جانوروں جیسا۔ امریکہ کی غلامی سے آزادی دلوانا چاہتے تھے اب اسی امریکی اسٹیبلشمنٹ کو "راضی" رکھنے کے لئے مہنگی لابسٹ فرموں کی خدمات حاصل کرچکے ہیں۔
دوسروں یعنی سیاسی مخالفوں کو جو جیل میں بند تھے طعنے مارتے تھے وہ سہولتیں مانگتے ہیں کیوں؟ کیا وہ شادی میں آئے ہیں؟ مجرم ہیں مجرموں کی طرح جیل کاٹیں۔ سیاسی مخالفین کو ہر سہولت دینے سے انکاری عمران خان آج عدالتی سہولتوں سے استفادہ کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر بیان بازی کرتے ہیں۔
ان کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے آصف علی زرداری کے خلاف ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا "چاہے ایمبولینس میں لے کر آئو کل زرداری کو پیش کرو" لیکن ان کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں نے آنکھیں بچھائیں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس بندیال نے تو قانون شکنی کرتے ہوئے ریمانڈ کے ملزم کو خصوصی اسکواڈ میں سپریم کورٹ بلوایا اور پھر مہمان بھی قرار دیا پولیس ریسٹ ہائوس میں قیام سپریم کورٹ کے مہمان کے طور پر تھا عدالتی حکم پر 30 دوست ان سے مل سکتے تھے۔
جیل میں انہیں ہر وہ سہولت فراہم ہے جو وہ اپنے مخالفین سے چھین لینے کا اعلان کرکے بوزنے پیروکاروں سے تالیاں بجوایا کرتے تھے۔
تمہید طویل ہوگئی۔ آجکل ان کے آرمی چیف کو لکھے ایک خط پر شور شرابہ ہے اس خط سے ذرائع ابلاغ کو ان کے وکیل فیصل چودھری نے آگاہ کیا۔ الیکٹرانک میڈیا، اخبارات اور سوشل میڈیا پر اس خط کا بہت چرچا ہے۔
سکیورٹی ذرائع ایسے کسی خط کے موصول ہونے کی تردید کررہے ہیں وہ یوٹیوبرز اور چند درشنی دانشور جو ٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی ایک فون کال پر عمران کی رہائی کا سودا فروخت کرتے رہے اب بتارہے ہیں کہ جونہی "جی ایچ کیوں میں عمران خان کا خط پڑھا جانے لگا جرنیلوں کی کرسیاں ہلنا شروع ہوگئیں بعض کے تو حلق سوکھ گئے بار بار پانی پیتے اور پھر باتھ روم جاتے رہے"۔
فیصل چودھری نے آرمی چیف کو لکھے عمران خان کے خط کے جو نکات میڈیا کے سامنے رکھے ان پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ "ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں"۔
ان کے پیروکاران کا خیال ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھ کر دشمنوں کے دانت کھٹے کردیئے ہیں حالانکہ چند ماہ قبل عمران خان اوران کے پیروکاران اسی آرمی چیف کو یحییٰ خان ثانی قرار دے رہے تھے۔
اس تازہ کایہ کلپ ہونے کی وجہ وہی جانتے ہوں گے مگر وہ خط کا بیانیہ فروخت کرنے میں کامیاب رہے۔
پانچ فروری کی دوپہر میں یہ سطور لکھتے ہوئے یاد آیا کہ عمران خان اور جنرل باجوہ نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے جس مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا وہ اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہے۔
خیر چھوڑیئے انہوں نے صنم کو خط لکھا اور خط میں لکھا "سانوں یاداں تیریاں آندیاں نے"۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ وہ اسی عطار کے لونڈے سے "دوا" لینے کی آرزو کے اسیر ہیں جسے وہ اقتدار سے محرومی اور موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتے آئے ہیں۔
وہ اور ان کے حامی کہتے ہیں جو خان اور اس کے پیروکاران کے ساتھ ہورہا ہے وہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے جرمنی اور جاپان کی سرحد ملانے اور بارہ موسموں کا انکشاف کرنے والے دیوتا کے حواری موالیوں کو کیا پتہ تاریخ کیا ہے اور تاریخ میں کس کے ساتھ کیا ہواہے؟