Thursday, 12 December 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (3)

Shaam, Bashar Raft o Hayat Ul Tahrir Aamad (3)

بی بی سی کے حالیہ پروپیگنڈے سے رزق پانے والے بعض پاکستانی دانشور، صحافی اورفرقہ پرست ماضی کے حوالے سے جس طرح جھوٹ کو پَر لگارہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں مثلاً علویوں کے خفیہ عقائد بارے "فیشنی" دعوے اور شام میں مسلمانوں کی فتح والی کذب بیانی۔

ہر دو میں زیادہ تر وہی عناصر اوران کی اولادیں مصروف ہیں جنہیں شام کی پچھلی دو ناکام بغاوتوں کے دوران جہاد برائے نکاح کا فتویٰ دے کر پاکستان سمیت دنیا بھر سے خواتین کوایمان تازہ کرنے کے لئے شام بھجوایا گیا تھا

جہاد بالنکاح کی ایمانی دولت سمیٹنے والی پاکستانی خواتین میں ایک سابق صحافی اور حالیہ یوٹیوبر کی ہمشیرہ سمیت متعدد خواتین بھی شامل تھیں ان خواتین کی تربیت کا الزام ڈاکٹر رفعت ہاشمی کے دینی ادارے پر لگا تھا جس کی انہوں نے تردید کی لیکن شام جانے والی خواتین میں سے بعض کا ان کے ادارے کی سابق و حاضر (اس وقت) طالبہ ہونا ثابت تھا۔

ہئیت التحریر الشام کی حالیہ کامیابیوں کے بعد اسرائیل کی خوشی تو چھپائے نہیں چھپ رہی دوسری طرف ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں کہ اسرائیلی فضائیہ نے سوموار اور منگل کی درمیانی شب پھر منگل کی صبح شام کےفوجی و فضائی ایئربیسوں پر حملہ کرکے انہیں تباہ کردیا ہے۔ یہ اطلاع بھی ہے کہ اسرائیل نے شامی فوجی ہیڈ کوارٹر کے علاوہ شام کے دفاعی میزائل کے نظام کوبھی مکمل طور پر تباہ کرنے کے ساتھ مقبوضہ گولان کے بفرزون میں آگے بڑھ کر مزید کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے نیز یہ کہ اسرائیلی فوجی دستے اور ٹینک دمشق کے "قریب" پہنچ چکے ہیں۔

بظاہر اس وقت یہ ویسی ہی صورتحال ہے جیسی عراق میں صدام حسین کاتختہ الٹنے کے بعد کے دنوں میں دیکھائی دے رہی تھی جب اسرائیلی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق میں متعدد اہم دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

آگے بڑھنے سے قبل شام کی حالیہ بغاوت کی سرخیل "ہئیت التحریر شام" کے سربراہ ابو محمد الجولانی کے بارے میں جان لیتے ہیں۔ احمد حسین الشرع عرف ابو محمد الجولانی 1982ء میں ریاض سعودی عرب میں پیدا ہوا اس کا والد سعودی عرب میں پٹرولیم انجینئر کے طور پر ملازمت کررہا تھا۔

2020ء میں امریکی ٹی وی نیٹ ورک پی بی ایس کو دیئے گئے انٹرویو میں محمد الجولانی نے نہ صرف سعودی عرب میں پیدائش کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ اس کا والد زمانہ طالب علمی میں عرب قوم پرست تھا جو شام میں (جمال عبدالناصر کے عرب نیشنل ازم) ناصریت پسندوں کے ہمراہ عظیم عرب جمہوریہ کے قیام کے لئے سرگرعمل عمل رہا۔

اس کا خاندان مقبوضہ جولان (گولان) کے پہاڑی سلسلے ایک پہاڑی قصبے کا رہنے ولا تھا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل 6 روزہ جنگ کے دوران یہ خاندان بھی سینکڑوں دوسرے شامی خاندانوں کی طرح بے گھر ہوا۔

زمانہ طالب علمی میں اس کے والد کو اس وقت ریاستی تشدد اور قیدوبند کا سامناکرنا پڑا جب 1961ء اور 1963ء کی بغاوتوں کےبعد شام میں بعث پارٹی نے ناصریت (عرب جمہوریہ) کے حامیوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔

شام کی بعث پارٹی متحدہ عرب جمہوریہ کے تحلیل ہونے پر قائم ہوئی۔ سوشلسٹ نظریات کی حامل شامی بعث پارٹی کو ابتداً عراقی بعث پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کا تعاون حاصل رہا۔ جولائی 1971ء میں محمد الجولانی کا والد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جیل سے فرار ہوا اس دوران اس نے فلسطینی تنظیم آزادی کے فدائیوں کے ساتھ تعاون کے لئے اردن کا سفر بھی کیا۔

یہ وہ عرصہ ہے جب اردن میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے " بلیک ستمبر " کے بعد پی ایل او اور دوسرے فلسطینی گروپ اردنی حکومت کے خلاف ہلکی پھلکی کارروائیوں سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہتے تھے۔

اردنی قیادت کے فلسطینیوں پر ڈھائے گئے سفاکانہ مظالم بلیک ستمبر کے نام سے آج بھی فلسطینیوں کے حافظے میں محفوظ ہیں یاد رہے کہ بلیک ستمبر کی اس کارروائی میں اردن میں تعینات دو پاکستانی فوجی افسروں بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق (پاکستان کے تیسرے فوجی آمر (جنرل ضیاء الحق) اور فضائیہ سے تعلق رکھنے والے خاقان عباسی (جنرل ضیاء کے قریبی ساتھی رہے جونیجو دور میں وفاقی وزیر تھے) شامل تھے، خاقان عباسی جونیجو دور میں ہونے والے اوجڑی کیمپ دھماکے میں ایک میزائل کی زد میں آکر جاں بحق ہوئے شاہد خاقان عباسی انہی کے صاحبزادے ہیں۔

اوجڑی کیمپ دھماکوں کی رپورٹ پر عمل کی خواہش محمد خان جونیجو کی برطرفی اور حکومت کے خاتمے کا سبب بنی بہر طور پاکستانی تاریخ کا یہ واقعہ ہمارے موضوع کا حصہ نہیں بلیک ستبمر کا جب بھی تذکرہ ہوگا تو ان دو پاکستانی فوجی افسروں کا ذکر ضرور ہوگا۔

محمد الجولانی کے والد کو بعدازاں سعودی عرب میں پناہ مل گئی جہاں اس نے پٹرولیم انجینئر کے طورپر خدمات سرانجام دیں اسی دوران اس نے ایک سعودی خاندان میں شادی کرلی اس خاتون سے 1982ء میں احمد حسین الشرع عرف ابو محمد الجولانی پیدا ہوا۔

الجولانی کا والد 1989ء میں صدر بشارالاسد کی جانب سے دی گئی معافی کے بعد سعودی عرب سے شام منتقل ہوا۔ الجولانی دمشق کے میڈیکل کالج میں سال سوئم کا طالب علم تھا جب اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ کر القاعدہ عراق چیپٹر میں شمولیت اختیار کرلی۔

عجیب اتفاق ہے کہ شام کی حالیہ کامیاب بغاوت کے بعد منصب سے محروم ہوکر روس میں پناہ حاصل کرنے والے سابق شامی صدر بشارا لاسد بھی اپنے والد حافظ الاسد کے جانشین سمجھے جانے والے بڑے بھائی کی ٹریفک حادثے میں وفات کے بعد میڈیکل کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر وطن واپس آئے اور سیاسی عمل کا حصہ بن گئے انہیں اقتدار اور ملک سے نکل جانے پر مجبور کرنے والے ابو محمدالجولانی بھی میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کی بجائے القاعدہ میں شامل ہوگئے۔

سال 2003ء میں الجولانی اس وقت القاعدہ میں شامل ہوئے جب امریکہ عراق پر مسلط تھا الجولانی بہت جلد ہی اپنے ساتھیوں میں نمایاں ہوکر القاعدہ کے عراق چیپٹر کے سربراہ ابو معصب الزرقاوی کے معتمد خاص بن گئے۔

زرقاوی اردن کا شہری تھا عراق میں امریکہ کے خلاف القاعدہ کو منظم کرنے کا سہرااسی کے سر ہے۔ الزرقاوی 2006ء میں ہلاک ہوا تو محمد الجولانی عراق سے لبنان چلا گیا جہاں اس نے جندالشام نامی لبنانی عسکریت تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور اس کا آپریشنل کمانڈر بن گیا

جندالشام بنیادی طور پر حزب اللہ کے خلاف سلفی عقیدے کے حامل لبنانیوں اور شامیوں کی تنظیم تھی یہ تنظیم چند برس ہی قائم رہ سکی 2006ء کی حزب اللہ اسرائیلی جنگ میں حزب اللہ کی فتح نے اس کا مخالف عسکری تنظیموں کے حوصلے پست کردیئے ایک ایک کرکے سلفی عقیدے کی حامل تینوں تنظیمیں، جندالشام، الجہاد الاسلامی برائے خلافت اور حزب الشام تحلیل ہوگئیں

ان تنظیموں کے سابقین نے اگلے برسوں میں ایک بار پھر القاعدہ کا حصہ بننا قبول کیا۔

2021ء میں امریکی ٹی وی چینل "فرنٹ لائن" کو دیئے گئے انٹرویو میں اس نے زرقاوی سے ملاقات اور ذاتی تعلق کی تردید کی اور کہا کہ 2003ء سے 2006ء تک اس نے کسی عسکریت پسند تنظیم کی قیادت نہیں کی لیکن محمد الجولانی القاعدہ عراق چیپٹر کے مارے گئے سربراہ الزرقاوی کی اہلیہ کے ان الزامات بارے سوالات کا جواب کبھی نہیں دے پائے جس میں زرقاوی کی اہلیہ نے الجولانی، طیب احمد الحضرمی اور عبداللہ ابن طلحہ پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے شوہر کی مخبری کرکے ان تینوں نے امریکیوں سے اپنے روابط استوار کئے۔

الجولانی ایک بار پھر 2012ء میں اس وقت منظرعام پر آیا جب شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف النصرہ فرنٹ دولت اسلامیہ عراق والشام، الجہاد اسلامی برائے خلافت اور المجاہدین الاسلام سرگرم عمل تھیں اس بار الجولانی نے اپنی سرگرمیوں کیلئے دولت اسلامیہ عراق والشام کا انتخاب کیا۔

داعش میں وہ تنظیم کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔

ان کی نئی تنظیم "ہئیت التحریر الشام" کچھ عرصہ قبل ترکیہ میں قائم ہوئی اس میں النصرہ فرنٹ، جند الشام، الجہاد الاسلامی برائے خلافت، دولت اسلامیہ عراق والشام اور القاعدہ کے سابقین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

محض گیارہ دنوں میں الاسد خاندان کے 54سالہ اقتدار کا خاتمہ کرنے والی ہئیت التحریر الشام کے عسکری سرپرستوں میں ترکیہ اور اسرائیل شام ہیں۔ کیا یہ دونوں ملک اور مالی وسائل فراہم کرنے و الی عرب ریاستیں امریکہ کی رضامندی کے بغیر یہ سب کچھ کرسکتے ہیں؟

کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔

جاری ہے۔۔