Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Tajzia Nigaron Aur Siyasi Jotshiyon Ka Boluram

Tajzia Nigaron Aur Siyasi Jotshiyon Ka Boluram

ملک میں 8 فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پہلی بار آزاد امیدواروں نے قومی اسمبلی کی 98 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) نے 70، پیپلزپارٹی نے 54، ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 16 نشستیں جیت لیں جبکہ مجلس وحدت مسلمین اور بی این پی مینگل نے ایک ایک۔ مسلم لیگ (ق) نے 3، جے یو آئی نے 2 اور آئی پی پی نے بھی دو نشستیں حاصل کیں۔ الیکشن کمیشن کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کی وجہ سے نتائج کے مرتب ہونے میں تاخیر کی بدولت بعض نتائج متنازعہ ہوگئے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں پر جیتنے والے 98 امیدواروں میں سے 75 تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہیں جبکہ 23 نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ ایسے کامیاب امیدوار جن کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے ان کی تعداد 35 کے لگ بھگ ہے جبکہ تحریک انصاف کے رہنما اور بونیر سے قومی اسمبلی کے منتخب رکن بیرسٹر گوہر علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 150 امیدوار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا بھی اعلان کیا۔

ادھر مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف نے جمعہ کی شام لاہور میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی ہے۔ یاد رہے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی 70 جنرل نشستیں ہیں جبکہ پنجاب میں 132 نشستیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اور دیگر آزاد امیدواروں کی مجموعی تعداد 128 ہے۔

پیپلزپارٹی نے پنجاب اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں پی پی پی کے 11 امیدوار کامیاب ہوئے اور سندھ اسمبلی میں اس نے 84 نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔ ایم کیو ایم کو سندھ اسمبلی کی 24 نشستیں ملیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ملک میں 12 کروڑ رائے دہندگان میں سے تقریباً ساڑھے 5 کروڑ نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ قومی اسمبلی کے بعض حلقوں میں دو اڑھائی لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے اور بعض میں مشکل سے چند ہزار انتخابی نتائج مرتب اور ان کااعلان کرنے میں ہونے والی غیرمعمولی تاخیر نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا۔

کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں جہاں جدید وسائل دستیاب ہیں 36 سے 48 گھنٹے بعد بعض انتخابی حلقوں کے نتائج کے اعلان نے منفی تاثر پیدا کیا۔

ان حلقوں میں ہارنے والے امیدواروں نے دعویٰ کیا کہ ان سے جیت بزور طاقت چھینی گئی۔ میاں نوازشریف ان کے بھائی، صاحبزادی اور بھتیجے کامیاب امیدواروں میں شامل ہیں۔ آصف علی زرداری ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو کے علاوہ زرداری کی دو بہنیں بھی کامیاب ہوئیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے دو صاحبزادے قومی اسمبلی اور ایک صاحبزادہ پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہوا۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اپنی آبائی نشست سے کامیاب رہے۔

سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، قومی اسمبلی کی ایک سابق سپیکر فہمیدہ مرزا، ان کے شوہر اور 2 صاحبزادے شکست سے دوچار ہوئے۔

تاخیر سے انتخابی نتائج مرتب اور اعلان کی وجہ سے بعض حلقوں میں پرتشدد مظاہرے اور جلائو گھیرائو کی صورتحال پیدا ہوئی۔ ہارنے والوں میں خواجہ سعد رفیق، ایمل ولی خان اور امیر حیدر ہوتی کے علاوہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمن اپنی آبائی نشست سے ہارے اور بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کی جانب سے وفاق اور پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے اور پی پی پی و ایم کیو ایم سمیت دیگر جاعتوں سے فوری رابطوں کے اعلان کے بعد جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب لاہور میں پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی ذاتی رہائش گاہ پر شہباز شریف اور آصف علی زرداری کی ملاقات بھی ہوئی۔

سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے رہنما شہباز زرداری ملاقات کو شکست خوردہ ٹولوں کی اقتدار طلبی قرار دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر کا کہنا ہے کہ نوازشریف کی وکٹری سپیچ ہمیں تو سمجھ میں نہیں آئی۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) نے جس طرح 70 نشستیں لیں اس پر بھی حیرانی ہے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین اور تجزیہ نگاروں کے دعوئوں کے برعکس سندھ سے قومی اسمبلی کی 44 نشستیں جیت لیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عمران خان کے حامی ووٹروں نے مخالفین اور تجزیہ نگاروں کے اندازوں کو ہی غلط ثابت نہیں کیا بلکہ بڑے بڑے برج بھی الٹادیئے۔ کراچی اور حیدر آباد سے قومی اسمبلی کی 16 نشستیں جیتنے والی ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ بالآخر حق حقدار کو واپس مل گیا۔ پیپلزپارٹی نے بھی کراچی سے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں جیتی ہیں۔

ہماری دانست میں انتخابی عمل میں فتح و شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ بجا ہے کہ میاں نوازشریف نے کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا لیکن بہتر یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔

خود تحریک انصاف کے قانونی وجود (بطور جماعت حیثیت) پر واضح رائے یہ ہے کہ جماعت کی رجسٹریشن منسوخ نہیں ہوئی بعض وجوہات پر انتخابی نشان سے محروم کیا گیا۔ بہرطور یہ اہم قانونی بحثت ہے۔ پی ٹی آئی نے اس کے جواب کے حصول کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں نے کامیابی کے پہلے نوٹیفکیشن کے بعد 3 دن کے اندر کسی ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہے جو انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑچکی ہو۔

پی ٹی آئی کے پاس قانونی لڑائی لڑنے کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کی صورت میں دو اتحادی جماعتوں سے تکنیکی مدد لینے کا آپشن موجود ہے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات رئوف محسن کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس متبادل جماعت موجود ہے لیکن فیصلہ عمران خان کریں گے۔

اس امر سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا کہ رائے دہندگان کی بڑی تعداد نے تحریک کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے حق میں فیصلہ سنایا یہ فیصلہ اس لئے بھی اہم اور قابل قدر ہے کہ ہر آزاد امیدوار کا انتخابی نشان بھی مختلف تھا اس کامیابی نے ان تجزیہ نگاروں کی دانش کا بھی بولو رام کردیا جن کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی کا ووٹر گھروں سے نہیں نکلے گا۔

سابق حکمران اتحاد پی ٹی ڈیم و اتحادیوں میں سے صرف پیپلزپارٹی 2018ء کے مقابلہ میں قومی اور پنجاب اسمبلی کے ساتھ بلوچستان اسمبلی میں زیادہ نشستیں لے پائی ہے۔ سب سے زیادہ نقصان میں مسلم لیگ (ن) رہی اور دوسرے نمبر پر نقصان میں رہنے والی جماعت جے یو آئی (ف) ہے جس نے 2018ء میں قومی اسمبلی کی 12 نشستیں لی تھیں اور 8 فروری کے انتخابات میں صرف 2 نشستیں لے پائی۔

مکرر اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی صفر جمع صفر رہی۔ پنجاب میں نگران حکومت کے ایما پر مسلم لیگ (ن) کے مخالف امیدواروں کے ساتھ پولنگ والے دن بھی پولیس کا رویہ ہتک آمیز تھا۔

بہرطور سیاسی جماعتوں کو اب اپنے معاملات پارلیمان میں طے کرنا ہوں گے تاکہ ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام سے نجات مل سکے۔

نوٹ: یہ تحریر ہفتہ 10 فروری کی صبح لکھی گئی۔