Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (6)

Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (6)

نوے دن میں انتخابات کرانے کے لئے خود کو ریفری کے طور پر پیش کرنے والے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا اقتدار گیارہ برس ایک ماہ اور بارہ دن چلا۔ 17 اگست 1988ء کی سپہر اگر وہ طیارے کے حادثے میں دنیا سے رخصت نہ ہوتے تو اپنی زندگی میں مزید پانچ چھ غیرجماعتی انتخابات کرانے کا شوق ضرور پورا کرتے جس کااظہار انہوں نے مئی 1988ء میں کی گئی ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

یہ وہی مشہور زمانہ پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے کہا تھا "ملک کے جو حالات ہیں ان سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اوپر بھی آگ مجھے جلارہی ہے اور کرسی کے نیچے بھی"۔

دوسری اہم بات انہوں نے یہ کہی "میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی بھی میاں نوازشریف کو لگادے"۔

اس سلسلہء تحریر میں ان گیارہ برسوں میں پلٹنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ ان (ضیاء) کا احساس بھی عملی شکل اختیار کرگیا ان کا سرکاری جہاز سی ون تھرٹی فضا میں پھٹا اور سب کچھ کو آگ کھاگئی۔ ان کی دعا بھی پوری ہوئی میاں نوازشریف اب بھی چاک و چوبند اور سیاسی طور پر فعال ہیں بلکہ وہ ان دنوں چوتھی بار وزیراعظم بننے کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

ہمارے ہم زاد فقیر راحموں کا کہناہے کہ "میاں صاحب کو دعا جنرل محمد ضیاء الحق جالندھری کی لگ گئی اور چوتھی بار وزیراعظم قبلہ حافظ سید جالندھری کی وجہ سے بن جائیں گے"۔ فقیر راحموں کی بات کا برا نہ منایئے گا جملہ معترضہ لطف لینے کے لئے ہوتا ہے۔

بہرطور تلخ حقیقت یہی ہے کہ 5 جولائی 1977ء کو تیسرا مارشل لاء لگنے کے بعد نظام مصطفیﷺ کے علمبردار خونِ شہداء کی دعویداری (پی این اے کے قائدین بھٹو حکومات پر احتجاجی تحریک کے دوران سینکڑوں افراد کے قتل کا الزام لگاتے تھے) اور نظام مصطفیﷺ کو بھول بھاگ کر جس طرح اسلام آباد کی طرف بھاگے وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔

مارشل لاء کے نفاذ کے بعد حفاظتی تحویل میں رکھے گئے سابق حکومتی زعماء اور پی این اے کے رہنمائوں کو کچھ عرصہ بعد رہا کردیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کے رفقا اور پی این اے کے رہنمائوں کی رہائی سے قبل چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق نے ان سے ملاقاتیں کیں۔

ان دنوں یہ بات بھی زبان زد عام ہوئی کہ جنرل ضیاء جب ذوالفقار علی بھٹو سے ملنے کے لئے مری میں ان کی نظربندی کے مقام پر گئے تو بھٹو بہت غصے میں تھے انہوں نے جنرل ضیاء کو چند سخت باتیں بھی کہیں البتہ اخبارات میں یہی رپورٹ ہوا کہ ضیاء کی بھٹو سے ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی ہے۔

اس ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جب پی این اے کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں تو انہیں بتایاکہ اگر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آگئے تو وہ پی این اے کے رہنمائوں پر بھی آئین کے آرٹیکل کے تحت مقدمہ چلائیں گے کیونکہ ان کے خیال میں اس مارشل لاء لگنے کی دوسری وجوہات میں ایک وجہ اصغر خان کا وہ خط بھی ہے جو انہوں نے مسلح افواج کے سربراہوں کو لکھا تھا۔

جنرل ضیاء الحق کی پی این اے کے رہنمائوں سے ملاقاتوں اور ان میں ہوئی گفتگو کے حوالے سے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کہا کرتے تھے "جنرل ضیاء الحق کی باتیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ ان دونوں (بھٹو ضیاء) کی ملاقات اچھی نہیں رہی"۔

فوجی حکومت نے اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا جو کبھی پورا نہ ہوسکا۔

غالباً اگست 1977ء کی بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق عمرے کے لئے سعودی عرب گئے وہاں بیت اللہ کے صحن میں پاکستانیوں کے ایک گروپ نے انہیں گھیر کر ان سے سوالات کئے۔

ان سوالات کے جواب میں انہوں نے حسب وعدہ 90 دن میں الیکشن کراکے بیرکوں میں واپس جانے کی یقین دہانی کرانے کے ساتھ ایک بار پھر کہا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو عالم اسلام کی امید اور فخر ہیں۔

بیت اللہ کے صحن میں 90 دن میں انتخابات کراکے بیرکوں میں واپس جانے کی یقین دہانی 17 اگست 1988ء تک ان کا تعاقب کرتی رہی۔

جنرل ضیاء کی فوجی حکومت نے سابق حکومت اور پی این اے کے رہنمائوں کو رہا کیا تو پی این اے کے رہنما اور تحریک استقلال کے چیئرمین ایئر مارشل (ر) اصغر خان ایران کے دورے پر چلے گئے۔ اصغر خان نے ایران میں بادشاہ رضا شاہ بہلوی سے ملاقات کے علاوہ ایران میں امریکی سفیر اور ایران میں قائم سی آئی اے کے ریجنل آفس کے ذمہ داران سے بھی ملاقاتیں کیں۔

ایران میں سی آئی اے کا ریجنل آفس ڈاکٹر مصدق کی حکومت، وزارت عظمیٰ ختم کرانے کی امریکی و برطانوی سازش کی کامیابی کے بعد قائم کیا گیا تھا یہ ریجنل دفتر جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کی نگرانی کرتا تھا۔

ایران میں 1979ء انقلاب کے بعد یہ دفتر دو حصوں میں تقسیم ہوکر قطر اور متحدہ عرب امارات میں"رونقیں" لگائے ہوئے ہے دبئی کے امریکن ہسپتال کو اسی سیٹ اپ کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جس کی سکیورٹی کی سربراہی کے لئے ماضی میں آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف جنرل شجاع پاشا کا بھی انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔

اصغر خان دورہ ایران سے واپس آئے تو انہوں نے خود کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھنا اور پیش کرنا شروع کردیا۔ اصغر خان اپنی عوامی مقبولیت کے حوالے سے دوبار غلط فہمی کا شکار ہوئے اولاً اس وقت جب وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں گرفتار ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لئے عوامی احتجاج کی قیادت کررہے تھے

دوسری بار پاکستان قومی اتحاد کی 1977ء کی انتخابی مہم کے جلسوں میں عوام کی شرکت کی بدولت۔ اصغر خان نے دونوں مواقع پر یہ غلط فہمی پال لی کہ عوام ان کے لئے آتے ہیں اور بھٹو کا متبادل ان کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے ہی خصوصی حکم پر حیدر آباد سازش کیس کے ٹربیونل کو تحلیل کیا جس کی وجہ سے حیدر آباد جیل میں بند نیشنل عوامی پارٹی کے رہنمائوں اور بھٹو کے ایک سابق جانشین معراج محمد خان کو رہائی ملی۔

یہ بات بھی تاریخی طور پر بہت اہم ہے کہ حیدر آباد سازش کیس ٹربیونل کے خاتمے پر نیپ کے رہنما رہا ہوئے تو نیپ کے سابق صدر خان عبدالولی خان نے پہلے احتساب اورپھرانتخابات کا نعرہ بلند کیا۔

بھٹو دور میں گرفتار ہونے والے نیپ کے رہنماوں میں گو جیل کے اندر ہی کچھ امور پر اختلافات ہوگئے تھے ان اختلافات بارے میں ہم نے سال 1995ء میں روزنامہ "مشرق" پشاور میں ایک تفصلی کالم لکھا تو اس کالم کے جواب میں نیپ کے ایک رہنما اور ہمارے بزرگ دوست جناب محمد اجمل خٹک مرحوم نے جواب دعویٰ تحریر کیا ان کی یہ جوابی تحریر بھی روزنامہ "مشرق" پشاور کے ادارتی صفحہ پر شائع ہوئی تھی۔

عرض یہ کررہا تھا کہ نیپ کے پشتون اور بلوچ رہنمائوں میں بعض امور پر اختلافات جیل میں ہی پیدا ہوگئے تھے۔ مارشل لاء کے حکم پر جب یہ رہنما رہا ہوئے اور خان عبدالولی خان نے پہلے احتساب پھر انتخابات کا موقف اپنایا تو یہ اختلافات دوریوں میں تبدیل ہوگئے۔

اسی بدولت نیپ کے بلوچ رہنمائوں کی اکثریت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد بننے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں جس کے سربراہ سردار شیر باز خان مزاری تھے، شامل نہیں ہوئی، بلکہ ممتاز بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے آگے چل کر پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت قائم کی۔ سید محمد قسور گردیزی اور سیدہ عابدہ حسین نے اس مرحلے پر میر غوث بخش بزنجو کا سیاسی رفیق بننے کا فیصلہ کیا۔

مجھ طالب علم کے خیال میں مارشل لاء 90 دن میں انتخابات کرانے کے لئے لگا ہی نہیں تھا بلکہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء امریکی سی آئی اے کا طویل المدتی بندوبست تھا۔

یہ بندوبست کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب جولائی تا ستمبر 1976ء اس وقت امریکی سفیر نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے متعدد ملاقاتیں کیں اور ان ملاقاتوں میں وہ ایران اور افغانستان میں منظم ہوتی کمیونسٹ تحریکوں کے حوالے سے بھٹو کا اعتماد اور تعاون حاصل کرنے میں ناکام ر ہے۔ ان برسوں میں ایران میں کمیونسٹ نظریات رکھنے والی "تووہ پارٹی" ملوکیت کے خلاف عوامی تحریک منظم کرنے جارہی تھی۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تووہ پارٹی کی محنت ک پھل آگے چل کر ایران کے اسلام پسند انقلابیوں نے کھایا خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔

بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک میں پی این اے سے امریکہ اور سعودی عرب کے عملی و مالی تعاون اور برطانیہ سمیت یورپی ممالک کے ذرائع ابلاغ کا بھٹو مخالف تحریک کو مرکزی بیانیہ بنانے کا آخر کوئی نہ کوئی مقصد تو تھا۔ (جاری ہے)