Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (7)

Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (7)

جنرل ضیاء کا مارشل لاء ملکی تاریخ کا سب سے ستمگر مارشل لاء تھا۔ ضیاء کے گیارہ برس ایک ماہ اور بارہ دن کے اقتدار میں عوام کے حق حکمرانی کو کچلنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا گیا۔ پی این اے کی کچھ جماعتیں تو مارشل لاء کے ابتدائی دنوں میں ہی بھاگم بھاگ فوجی ٹرکوں پر سوار ہوئیں جیساکہ مسلم لیگ کے چودھری ظہور الٰہی وغیرہ۔

بعدازاں جب پی این اے نے باقاعدہ طور پر فوجی حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو جے یو پی، این ڈی پی مزدور کسان پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔ خاکسار تحریک گوحکومت میں شامل نہ ہونے والی جماعتوں میں شامل تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خاکسار تحریک کے سربراہ اشرف خان نے اپنی جماعت کے حبیب اللہ سعدی کے لئے وزارت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ نیشنل عوامی پارٹی کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد سردار شیر باز مزاری نے جونیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی اس میں سابقہ نیپ کا ایک موثر گروپ شامل نہیں ہوا تھا بلکہ اس گروپ نے غالباً پشاور میں ایک کنونشن منعقد کرکے نیشنل پروگریسو پارٹی کی بنیاد رکھی مگر یہ انتظام زیادہ دیر چل نہیں پایا۔

ضیاء کی فوجی حکومت میں دو باتیں مشہور ہوئیں اولاً چوہدری ظہور الٰہی کا جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم تحفتاً مانگ لینا جس سے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے کی سزا کی حتمی توثیق کی تھی ثانیاً وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیر جنرل جمال سید میاں اور جنرل ضیاء الحق کے درمیان فرقہ وارانہ عقائد کے مسئلہ پر ہونے والی تلخی۔

اس تلخی اوراس کے پس منظر بارے میں نے مرحوم ارشاد امین کے ہفت روزہ "طلوع" لاہور میں تحریک جعفریہ کے مقتول سربراہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے قتل پر لکھی گئی سٹوری میں تفصیل سے ذکر کیا تھا "طلوع" میں شائع ہونے والی اس سٹوری کی وجہ سے ارشاد امین اور ہمارے لئے کچھ مسائل بھی پیدا ہوئے لیکن دوسری طرف انجمن سپاہ صحابہ کے بانی سربراہ مولوی حق نواز جھنگوی اپنی انجمن کے اجتماعات میں ہفت روزہ "طلوع" کا وہ شمارا دیکھاتے اور جنرل ضیاء الحق کی روح کو "ایصال ثواب" پہنچانے کا سامان کرتے رہے

چوہدری ظہور الٰہی نے جنرل ضیاء الحق سے تحفتاً جو قلم لیا تھا اس کے بھی بعد میں بہت سارے لطائف بنے اوران کے قتل کے بعد چوہدری شجاعت حسین کو ایک دلچسپ ٹیلیفون کال بھی موصول ہوئی اس دلچسپ مگر طنزیہ ٹیلیفون کال کے چکر میں آئی بی اور پولیس نے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پندرہ بیس جیالوں کو تفتیش کے لئے ان کے گھروں سے اٹھالیا تھا

ان گرفتاریوں کی وجہ سے ٹیلیفون پر ہوئی جو گفتگو زبان زد عام ہوئی اس نے بالآخر چوہدری شجاعت حسین کو نہ صرف تردیدی بیان جاری کرنے پر مجبور کیا بلکہ مہینہ بھر تک پولیس کی تفتیش کی اذیت سہنے والے پی پی پی کے کارکنوں کو بھی رہائی مل پائی۔

اسی دور میں جنرل ضیاء الحق کی ذات و شباہت کے حوالے سے درجنوں لطائف زبان زد عام ہوئے۔ فوجی حکومت نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر نواب احمد خان قصوری کے قتل کامقدمہ چلوایا اس مقدمے میں انہیں سزائے موت سنائی اور دی گئی۔ بھٹو سے اس مقدمہ کے حوالے سے بہت زیادتیاں ہوئیں پہلی زیادتی یہ تھی کہ کیس براہ راست لاہور ہائیکورٹ میں سماعت ہوااس طرح بھٹو فیصلے کے خلاف ایک اپیل کے حق سے محروم ہوگیئے

ویسے ذوالفقار علی بھٹو کو مقدمے کی سماعت کے آغاز سے ہی اس امر کاحساس تھا کہ فوجی حکومت انہیں زندہ نہیں چھوڑے گی اس کے باوجود ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ جیل سے نوٹس کی صورت باہر بھجوای گئی بھٹو کی طویل تحریر جو اسی دور میں"اگر مجھے قتل کردیا گیا" کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئی بلاشبہ ان کتابوں میں ہمیشہ سرفہرست رہے گی جو چُھپ چُھپاکر سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی۔ اس کتاب کے فوٹو اسٹیٹ نسخے بھی سیاسی کارکن تلاش کرکے حاصل کرتے تھے۔

قبل ازیں بھی ایک کالم میں عرض کرچکا کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء جماعت اسلامی کو بہت راس آیا۔ فوجی کابینہ میں شامل اس کے وزیروں نے کھلے دل سے سرکاری محکموں میں صالحین کو بھرتی کیا۔ محکمہ اطلاعات، محکمہ تعلیم، بلدیاتی اداروں میں صالحین کو کھپانے پر خصوصی توجہ دی گئی۔

جنرل ضیاء الحق نے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی (اس وقت یہی ایک ٹی چینل ہوتا تھا) پر ظلم کی داستانوں کو بطورخاص نشر کروایا۔ بھٹو کی کردار کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی جب سرکاری دفاتر میں نماز ظہر باقاعدہ ادا کرنے کا حکم جاری ہوا تو دلچسپ نظارے دیکھنے کو ملتے تھے افسروں اور ان کے عملے نے باقاعدہ تسبیح ٹوپی کو جیب کی زینت بنالیا۔

کام چور سرکاری ملازمین کے مزے ہوگئے ساڑھے بارہ بجے سے 2 بجے تک نماز ظہر کے اوقات بنائے گئے تاکہ سارے فرقے راضی ہوں۔ سرکاری افسروں کی بڑی تعداد نے کوٹ پتلون کی جگہ شلوار قمیص اور ویسکوٹ کو لباس بنالیا۔

جنرل ضیاءالحق کے نماز ظہر والے حکم پر این ایس ایف کے رہنما رفیق پہلوان نے جو نماز کی نیت بنائی اس کی مشہوری اور ادائیگی کی طرز میں اس تحریر نویس کا بھی بڑا حصہ رہا ہر جگہ مجھ سے یہ نیت خاص طرز کے ساتھ سنانے کی فرمائش ہوتی میں وضاحت کے ساتھ سننے والوں کو یہ ضرور بتایا کہ یہ نیت نماز رفیق پہلوان نے بنائی ہے میں صرف پڑھتاہوں۔

اس نیت نماز کی وجہ سے بہاولپوراور سکھر میں مقدمات بھی درج ہوئے۔ بہاولپور والی ایف آئی آر میں رفیق پہلوان اور میں نامزد ملزم تھے۔ سکھر والی ایف آئی آر میں مجھ پر توہین آذان کا الزام لگایا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ابتدائی برسوں میں ہی پیپلزپارٹی کے ہزارہا کارکنوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا سینکڑوں نظربند کئے گئے زیادہ تر کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔ مقدمات میں گرفتار کئے گئے سیاسی کارکن جب پیشیوں کے لئے جیل سے عدالتوں میں لائے جاتے تو خاصی رونق لگ جاتی ضلع کچہریوں میں۔

اسی زمانے کے درجنوں کیا سینکڑوں دلچسپ قصے اور لطائف ہیں کالم کی بنت ان قصوں اور لطائف کو لکھنے سے مانع ہے انشاء اللہ سوانح عمری میں یہ سارے قصے اور لطائف لکھوں گا۔

جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں پیپلز پارٹی اور دیگر ترقی پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وکلاء نے جس استقامت کے ساتھ معاوضے کے بغیر سیاسی کارکنوں کی پیروی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔

مختلف شہروں میں ان ترقی پسند وکلاء نے ریلیف کمیٹیاں بنارکھی تھیں جو سیاسی کارکنوں کے مقدمات کی مفت پیروی تو کرتیں ہی اس کے ساتھ سماجی طور پر کمزور سیاسی کارکنوں کی ضروریات کا بھی خیال کرتی تھیں۔

جنرل ضیاء الحق کا سیاہ دور جماعت اسلامی اور کچھ دیگر رجعت پسند جماعتوں کے لئے سنہری دور رہا۔ ترقی پسند کہلانے اور سمجھے جانے والے ابتدا ہی سے مشکلات سے دوچار ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پی این اے نامی اتحاد کی بعض جماعتیں جنرل ضیاء کا ہاتھ مضبوط کرنے میں کردار ادا نہ کرتیں تو فوجی حکومت کے پاس 90 دن میں انتخابات کراکے واپس جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہوتا۔

اکتوبر 1977ء کے انتخابات کے ملتوی کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر میں گرفتاریوں اور نظر بندیوں کے نئے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ فوجی عدالتیں فعال کردی گئیں اس مرحلہ پر گرفتار سیاسی کارکنوں کو مارشل لاء کے ضابطوں کے تحت درج مقدمات میں ایک سے تین سال کی قید بامشقت کی سزائیں سنائی جانے لگیں۔

اسی عرصے میں جماعت اسلامی پر یہ الزام بھی لگا تھا کہ اس کے بعض علاقائی ذمہ داران نے فوجی حکومت کو اپنے نظریاتی مخالفین کی فہرستیں بناکر دی ہیں۔

یہ الزام بالخصوص اس وقت لگا جب اکتوبر 1977ء میں مارشل لاء مخالف سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کے نئے سلسلے کا آغاز ہوا۔

جماعت اسلامی کے ذمہ داران اس الزام کی تردید کرتے دیکھائی دیتے لیکن تردید کے ساتھ وہ مخالفین کے لئے جن خیالات کا اظہار کرتے اس سے تردید کی بجائے الزام کو تقویت ملی۔ (جاری ہے)