Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (8)

Teen Jamaton Ki Tareekhi Kahani (8)

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران پیپلزپارٹی اور اس کے ہم خیالوں (یوں کہہ لیجئے جمہوری قوتوں) پر زمین تنگ کردی گئی۔ 5 جولائی 1977ء کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ابتدائی چند مہینوں میں تو گرفتاریوں، نظربندیوں اور رہائیوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن نومبر 1977ء کے بعد فوجی حکومت نے اپنی حکمت عملی تبدیل کردی۔

اب گرفتار شدگان کے خلاف مارشل لاء کے مختلف ضابطوں کے تحت مقدمات درج کئے جانے لگے ان مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہونے لگی۔ ابتداً تو گرفتار شدگان کو وکیل کرنے کی سہولت دی جاتی تھی لیکن سمری ملٹری کورٹس کا سربراہ جوکہ میجر ہوتا تھا وہ وکلاء کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا تھا دوسری طرف پولیس حکام گرفتار شدہ سیاسی کارکنوں کے ورثا کو تھانوں اور دفتروں میں بلاکر یہ تاثر دیتے تھے کہ ایجنسیوں نے آپ کے آدمی (گرفتار سیاسی کارکن) کے خلاف جو ثبوت حاصل کئے ہیں ان ثبوتوں کی بنیاد پر لمبی سزا ہوسکتی ہے وکیل آپکے کیس کو خراب کررہے ہیں۔

بغیر وکیل کے سماعت میں سزا 3 ماہ سے 6 ماہ ہوگی۔ میجر صاحب وکیل کی بحث کا برا مناتے ہیں غصے میں کہیں زیادہ سزا نہ دے دیں۔ پولیس حکام کی اس طرح کی لچھے دار گفتگو کی وجہ سے بعض گرفتار سیاسی قیدیوں کے ورثا نے مقدمات کی پیروی سے وکلاء کو دستبردار کرا لیا لیکن ہوا پولیس حکام کی باتوں کے برعکس، زیادہ تر سیاسی کارکنوں ایک سال قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں۔

کچھ کے مقدمات خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے سمری ملٹری کورٹس سے خصوصی فوجی عدالتوں میں بھجوادیئے گئے۔ سمری ملٹری کورٹس کی سربراہی ایک میجر کرتا تھا اس کے پاس ایک سال تک قید بامشقت تین لاکھ روپے جرمانہ اور دس کوڑوں کی سزا دینے کے اختیارات ہوتے تھے۔

اس کے برعکس خصوصی فوجی عدالت میں تین افسران ہوتے۔ ایک کرنل ایک میجر اور ایک مجسٹریٹ۔ یہ خصوصی فوجی عدالت لامحدود اختیارات کی مالک ہوتی۔ یہاں تک کہ سزائے موت بھی دے سکتی تھی۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس پرآشوب دور میں گرفتار ہونے والے سیاسی کارکنوں، ادیبوں اور صحافیوں نے جس استقامت کامظاہرہ کیا اس سے فوجی حکام بہت زچ ہوئے۔

ان دنوں یہ ہوتا تھا کہ ایجنسیوں کے اہلکاران ان سیاسی کارکنوں جن کے خلاف خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی منظوری دی گئی ہوتی کے ورثا سے رابطہ کرتے، ایک دو ملاقاتوں میں بڑی ہمدردی جتاتے اور کہتے اپنے نوجوان کو سمجھائیں فوج کے خلاف ہونے کا مطلب اسلام اور پاکستان کے خلاف بھارتی ایجنڈے پر عمل ہے، بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔

سیاسی سرگرمیوں سے لاتعلقی کی صورت میں بہت ساری رعایتیں مل سکتی ہیں۔ ایجنسیوں کے اہلکار سیاسی قیدیوں کے خاندانوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے انہیں ترغیب دیتے کہ وہ جیل میں بند اپنے عزیز سے ملاقات کرکے اسے معذرت نامہ (معافی نامہ) تحریر کرنے پر آمادہ کریں۔

معذرت نامہ تحریر کرنے کی صورت میں اسے منظور کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ ہتھکنڈے بھی رائیگاں گئے سیاسی قیدیوں نے معذرت نامے تحریر کرنے سے انکار کردیا۔

ان کا انکار بنیادی طور پر سیاسی شعور کا عملی مظاہرہ تھا۔ ثانیاً وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام پاکستان بھارت کی سازشیں یہ سب فراڈ باتیں ہیں اصل میں فوجی حکومت کسی نہ کسی طرح سیاسی کارکنوں میں مایوسی پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ مارشل لاء مخالف جذبات میں کسی طرح کمی لائی جاسکے۔

فوجی حکام ایجنسیوں کے اہلکاروں، پولیس والوں اور مقامی انتظامیہ کے ذریعے جب سیاسی قیدیوں کا حوصلہ توڑنے اور ان کے خاندانوں کو دبائو میں لانے میں ناکام رہے تو مختلف سطح کی فوجی عدالتوں نے اپنے اپنے دائرہ اختیارات کے مطابق سیاسی کارکنوں کو سزائیں سنانا شروع کردیں اس کے ساتھ ہی بعض سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو تین تین ماہ کے لئے نظربند کرنے کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔

جولائی 1977ء سے 1981ء کے ابتدائی مہینوں کے درمیانی تقریباً 4 برسوں کے دوران ریاستی جبروتشدد اور قیدوبند کی سزائوں کے ساتھ گرفتاریوں کے بعد پولیس کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ صرف پیپلزپارٹی کے کارکن بنے یا وہ جمہوریت پسند ادیب و صحافی جو روز اول سے مارشل لاء کی مخالفت کررہے تھے۔ 1982ء میں جب ایم آر ڈی نامی اتحاد بنا اور بعد ازاں اس اتحاد نے پاکستان بچائو تحریک شروع کی تو اس نئے مرحلے میں پیپلزپارٹی تو مزید زیرعتاب آئی ہی لیکن اب ایم آر ڈی کی دوسری جماعتوں کے قائدین اور کارکنان بھی مارشل لاء حکومت کے جبروستم کا نشانہ بننے لگے۔

یوں اگر ہم ضیائی مارشل لاء کے گیارہ برسوں کا تجزیہ کریں تو پیپلزپارٹی اور کچھ جمہوریت پسند متعدد مرحلوں میں زیرعتاب آئے۔ ایم آر ڈی کے قیام کیلئے 8 فروری 1981ء کو ہونے والے تاسیسی اجلاس کی بدولت گزشتہ چار برسوں سے فوجی حکومت سے بطور سیاسی جماعت تنہا لڑتی پیپلزپارٹی کو نئے سیاسی ساتھی میسر آگئے۔

ایم آر ڈی کے قیام اور طیارہ ہائی جیکنگ کیس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔

پی پی پی کے کارکنوں پر پہلا سخت دور جولائی 1977ء سے اکتوبر 1977ء کے درمیان رہا۔ دوسرا دور نومبر 1977ء میں یہ بدترین اور بھیانک دور کم و بیش تقریباً پندرہ سولہ ماہ رہا۔

اپریل (4 اپریل) 1979ء کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھائے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کے لئے تیسرے بدترین اور سفاکیت سے بھرے دور کا آغاز ہوا اس مرحلہ پر مارشل لاء حکام نے ہدایت کردی کہ مطلوبہ سیاسی کارکنوں کی گرفتاری میں ناکامی کی صورت میں اس کے خاندان کے ایک دو افراد کو بہرصورت اس وقت تک پولیس کی تحویل میں رکھا جائے جب تک مطلوبہ سیاسی کارکن خود کو پولیس کے پاس گرفتاری کے لئے پیش نہ کردے۔

اس انوکھے اور ظالمانہ حکم کی وجہ سے پیپلزپارٹی کے فعال کارکنوں اوران کے خاندانوں پر تو جو بیتی سو بیتی لیکن پولیس کو بالائی آمدنی کا نیا ذریعہ بھی مل گیا۔

پولیس والے کسی سیاسی کارکن کی عدم گرفتاری پر اس کے خاندان اور تعلق داروں میں سے تین چارافراد کو حراست میں لے لیتے پھر تحویل میں لئے گئے ان افراد میں سے بعض سے معاملات طے کرکے رہا کردیا جاتا ایک آدھ فرد کو پولیس کی تحویل میں رکھا جاتا۔

کسی کارروائی سے بچنے کے لئے پولیس والے ان گرفتار شدگان کی چوریوں، رہزنیوں اور دوسرے اندھے مقدمات میں گرفتاری ڈالتی اور عدالت سے ریمانڈ برائے تفتیش حاصل کرلیتی۔

4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی سزائے موت کے بعد فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اپنے چہرے پر پڑا ملنساری، اخلاق اور رکھ رکھائو کا نقاب اتار پھینکا اب فوجی حکومت کا اپنے مخالفین بالخصوص پی پی پی، اس کی ذیلی تنظیموں اور جمہوریت پسندوں کے خلاف رویہ ویسا ہی ہوگیا جیسا رویہ کوئی فاتح لشکر مفتوحہ علاقے کے لوگوں سے اپناتا ہے۔

جولائی 1977ء سے اکتوبر 1977ء کے درمیان گرفتار ہونے والے پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں سے زیادہ تر ایک سے تین ماہ کے لئے نظربند کئے جاتے تھے بہت کم لوگوں کے خلاف مقدمات درج کرکے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے۔ نومبر 1977ء سے اپریل 1979ء کے درمیانی عرصے میں نظر بندیوں کے احکامات بہت کم جاری ہوئے۔ زیادہ تر گرفتار شدگان کے خلاف مارشل لاء کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، فوج اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کے برعکس نظریات کا پرچار کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کرلئے جاتے۔

اس دور میں یہ لطیفے بھی ہوئے کہ گرفتاری پہلے ہوتی اور مقدمہ بعد میں درج ہوتا۔ بعض مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف درج کرکے رکھ لئے جاتے کچھ مقدمات جن میں سیاسی کارکنوں وغیرہ کے بطور ملزم نام ایف آئی آر کا حصہ ہوتے ان مقدمات کی ایف آئی آرز کو سیل کردیا جاتا اور بوقت ضرورت گرفتاریاں عمل میں لائی جاتیں۔

پی این اے کی وہ سیاسی جماعتیں جو فوجی حکومت میں شامل ہوئیں ان بعض جماعتوں کے کارکنوں نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور دوسرے جمہوریت پسندوں کی زندگی عذاب بنانے میں فوجی حکومت کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔

(جاری ہے)