Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Yaadon Ki Dunya (5)

Yaadon Ki Dunya (5)

پشاور بہت شاندار انسان پرور محبتی اور علم دوست شہر ہے۔ اس کی شہرت بھی پھولوں سیاسی شعور اور علم دوستی کے حوالے سے ہے۔ پشاور پھولوں کا شہر کہلاتا ہے۔ پھولوں کے اس شہر کو دہشت گردی نے گہرے گھائو لگائے۔

دہشت گردی کے واقعات کے دو پس منظر ہیں ایک فرقہ وارانہ اور دوسرا اس شہر کو علم اور سیاسی شعور سے محروم کرنے کی سازش۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہر دو طرح کی دہشت گردی میں وہی عناصر ملوث تھے اور ہیں جو کبھی ریاستی اثاثے، کبھی مجاہدین اور کبھی دہشت گرد قرار پائے۔

ویسے یہ دہشت گرد اس وقت قرار پائے جب یہ اپنے خالقوں سے یوں الجھے کہ آگ خالقوں کے دامن کو بھی لگ گئی۔

پشاور میں قیام کے برسوں کی یادیں بے حساب ہیں تو پشاور میں میڈیا ہائوسز سے منسلک رہنے کا زمانہ بھی بہت طویل ہے۔ روزنامہ "مشرق" پشاور، روزنامہ "میدان" پشاور، روزنامہ "آج" پشاور سے طویل رفاقت رہی۔ دو اڑھائی ماہ کا عرصہ بطور کالم نگار روزنامہ "خیبر" کے ساتھ بھی گزرا۔ "مشرق" سے رفاقت کا عرصہ سب سے طویل ہے میں اب بھی "مشرق" کے لئے کالم لکھتا ہوں۔

2015ء میں جب "دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور سے منسلک ہوا تو معاہدے میں یہ بات شامل تھی کہ میں روزنامہ "خبریں" ملتان اور روزنامہ "مشرق" پشاور کے لئے کالم لکھنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھ سکوں گا جب تک "دی فرنٹیئر پوسٹ" گروپ کے اردو اخبار "میدان" کی دوبارہ اشاعت کا آغاز نہیں ہو جاتا۔

ہمیں ادارے سے منسلک ہونے کے کچھ دن بعد ہی یہ علم ہوگیا تھا کہ "میدان" کا پشاور میں ڈیکلریشن رحمت شاہ آفریدی کے نام سے منسوخ ہوچکا ہے اور یہ اب کسی اور کے پاس ہے لیکن رحمت شاہ آفریدی کا دعویٰ تھا کہ اس نے ڈیکلریشن کی منسوخی کے خلاف پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے لاہور کا ڈیکلریشن ابھی میرے نام ہی ہے۔

چند ماہ بعد مجھے میدان کے ایڈیٹر کی بجائے "دی فرنٹیئر پوسٹ" کا گروپ ایڈیٹر اور بعدازاں"دی فرنٹیئر پوسٹ" لاہور کا ایڈیٹر بنادیا گیا۔ آگے چل کر "دی فرنٹیئر پوسٹ" گروپ سے دوبارہ منسلک ہونے کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا ابھی ہم پشاور کی باتیں کرتے ہیں اور یادیں تازہ۔

جب "مشرق" کی نجکاری کا عمل مکمل ہونے پر "مشرق" پشاور سے منسلک ہونے کے بعد لاہور آفس سے پشاور بھجوادیا گیا تو پھولوں کے اس شہر میں چند ایک سیاسی اور صحافتی دوستوں سے شناسائی کی بدولت ایک مختصر حلقہ احباب ضرور تھا مگر اس وقت اس شہر میں ذاتی دوست دو ہی تھے پہلے "مشرق" میں جنرل منیجر کے طور پر فرائض ادا کرنے والے آصف قیوم اور دوسرے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید ایڈووکیٹ۔

خورشید ایڈووکیٹ سے میری دوستی "مشرق" کے مالکان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ محترم آغا سید تاج میر شاہ صاحب مرحوم نے تو اس بارے میں کبھی کچھ نہ کہا لیکن ان کے برادر بزرگوار سید ظفر علی شاہ مرحوم نے ایک دن کہا، شاہ جی کیا آپ کے علم میں ہے کہ خورشید ایڈووکیٹ سے ہمارے اختلافات ہیں۔ جی مجھے معلوم ہے لیکن وہ برسوں سے میرے دوست ہیں اپنے زمانہ طالب علمی سے۔

کہنے لگے اس بات کو چھوڑیں ہمیں آپ کا اس سے ملنا ملانا پسند نہیں۔ شکر ہے کہ ان کی پسندوناپسند میری دوستی کے آڑے نہیں آئی۔

"مشرق" کے دنوں میں ایک لطیفہ نما واقعہ یہ ہوا کہ کسی کالم میں میں نے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے ایک مکتوب کا حوالہ جناب شوکت صدیقی کی کتاب سے نقل کیا اس پر بزم سرہندی والے جاوید اقبال نامی ایک صاحب نے میرے خلاف دعویٰ دائر کردیا۔

اپنے دعوے میں ان کا موقف تھا کہ "میں توہین حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کا مرتکب ہوا ہوں"۔ میرا موقف تھا کہ جس خط کا ذکر کیا گیا وہ شیخ احمد سرہندی کے خطوط والی کتاب میں شامل ہے۔

ثانیاً جاوید اقبال نے شہر کے مولویوں کے سامنے میرا کالم رکھ کر ان کی سستی ہمدردیاں حاصل کرنے کی مہم شروع کردی۔ صورتحال بگڑتی دیکھائی دی تو ہمارے ایک دوست معروف دانشور اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان (مرحوم) نے یہ سارا معاملہ شہر کی معروف دینی و سماجی شخصیت قبلہ سید امیر حسین گیلانیؒ المعروف مولوی جی کے سامنے رکھا۔ سیدی گیلانی صاحب نے ایک دن مجھے اپنے ہاں بلایا میں پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے ہمراہ ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوا وہاں مدعی دعویٰ جاوید اقبال اور چند دیگر افراد کے ساتھ دو تین مولوی بھی موجود تھے۔

گیلانی صاحب قبلہ ابھی موضوع پر گفتگو کے لئے تمہیدی کلمات ادا کررہے تھے کہ مدعی اور اسکے ہمراہی مولوی صاحبان نے مجھ پر دشنام طرازی شروع کردی۔ گیلانی صاحب شدید ناراض ہوئے اور کہنے لگے مچھلی منڈی لگانے کی ضرورت نہیں، صرف موضوع پر بات ہوگی۔

اس پر ایک مولوی میرا عقیدہ زیربحث لانے لگا۔ گیلانی صاحب نے سختی کے ساتھ اسے گفتگو سے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ فرقہ وارانہ چولیں مارنے کی ضرورت نہیں اصل قصے پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے تسلی کے ساتھ دعویدار جاوید اقبال اور میرا موقف سنا۔ میں نے متعلقہ حوالہ جات ان کے سامنے رکھے ان کا بغور جائزہ لینے کے بعد قبلہ سید امیر حسین گیلانیؒ نے جاوید اقبال سے کہا، آپ نہ صرف عدالتی دعویٰ واپس لے لیں بلکہ اس کے ساتھ عزیزم حیدر سے معذرت کریں اور اپنی قیام گاہ پر دعوت صلح کا اہتمام بھی کریں۔

گیلانی صاحب نے خود ہی فون کرکے آغا سید تاج میر شاہ (مرحوم) کے بھائی سید ظفر علی شاہ کو آگاہ کیا کہ معاملہ نمٹ گیا ہے، جاوید اقبال نے اگلے روز عدالتی دعویٰ واپس لینے کی درخواست کی۔ عدالت نے دونوں فریقوں کی بات سن کر اس کی درخواست منظور کرلی۔

دعویدار جاوید اقبال نے چند دن بعد اپنی قیام گاہ پر دعوت کااہتمام بھی کیا۔ یاد پڑتا ہے کہ اس میں پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان، آصف قیوم، عزیزم شبیر حسین امام بھی شامل تھے۔ گیلانی صاحب کی نمائندگی ان کے ایک صاحبزادے اور ایک عزیز سید انور گیلانی نے کی تھی۔

اس سارے قصے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بلال ٹائون میں واقع ایک مسجد کے مولوی صاحب نے اس تنازع پر باقاعدہ جمعہ لگایا (جمعہ کے خطے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا) "مشرق" کے جو چند دوست اس مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے گئے وہ واپسی پر کچھ پریشان پریشان تھے۔

دریافت کرنے پر بتانے لگے کہ مولوی نے جمعہ کے خطبے میں آپ کو بے دین اور اولیائے کرام کا دشمن قرار دیا ہے۔ میں نے اس صورتحال سے قبلہ سید امیر حسین گیلانی صاحب کو آگاہ کیا اگلے دن صبح وہ مولوی مجھ سے ملنے "مشرق" کے دفتر آیا اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پوری بات کا علم نہیں تھا آپ اب مولوی جی کو بتادیں کہ میں نے معذرت کرلی ہے۔

مجموعی طور پر پشاور میں تینوں اخباری اداروں میں ملازمتوں کے عرصے کے دوران قیام بہت خوشگوار رہا۔ اے این پی، مزدور کسان پارٹی اور پیپلزپارٹی کے جن احباب سے آگے چل کر باہمی احترام سے عبارت تعلق بنا مجھے ان کے مطالعے اور سیاسی شعور نے بہت متاثر کیا۔

"مشرق" کے زمانے میں ہی شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی کے مدرسے میں سید ساجد نقوی سے ناراض گروپ نے "شوریٰ وحدت" کے نام سے ایک کنونشن منعقد کیا تھا۔ اس کنونشن کے انعقاد کی خبر شائع کرنے اور کالم میں اس کے تفصیل کے ساتھ تذکرے سے تحریک جعفریہ کے انور علی اخوندزادہ ناراض ہوئے انہوں نے باقاعدہ مالکان سے تحریری شکایت کی۔

گو یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا مگر اس کی وجہ سے فائدہ یہ ہوا کہ بعد میں کسی نے مجھ پر شیعہ ہونے کی پھبتی کسی تو میں نے جواباً کہا پہلے شیعوں سے تو پوچھ لیں کہ وہ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں (جاری ہے)