فقیر راحموں نے ایک دن کہا یار شاہ یہ مسائل کا سورج تو ہمیشہ سوا نیزے پر ہی رہتا ہے اثبات میں سر ہلانے کے سوا چارہ نہیں تھا کیونکہ نصف صدی سے اوپر کا تعلق میدانوں کی دھول نہیں ہوا کرتا۔ بستیاں بستے بستے بستی ہیں اور تعلق ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ مستحکم ہوتے ہیں۔
فقیر راحموں پھر گویا ہوا، "ذات کے اکلاپے کا علاج خاموشی نہیں بلکہ تقسیم میں ہے"۔
عرض کیا جمع پونجی ہی کیا ہے جو تقسیم کریں۔ دامن جھاڑتا ہوا وہ چناں کنارے کی ریت سے اٹھا اور بولا " سانسوں کا رقص جاری ہے اپنے وقت پر تمام ہوگا "۔
سانسوں کا رقص "ٹُک ٹُک" دیکھتے ہوئے سوال کیا؟ جی ہاں لیکن پھر اس نے موضوع بدل لیا کہنے لگا بھگت کبیر تو لکھ گئے "موررکھ کسی حال میں شاداں نہیں ہوتا"۔
ارے یہ ناشکرا پن نسل در نسل منتقل ہوتا ہے والی بات کو سمجھ بھی لیا کرو۔ سر نیواڑے ساری باتیں سننا پڑتی ہیں۔ باتیں ہی تو ہیں ان کے سوا اور ہے کیا۔
فقیر راحموں پھر گویا ہوا۔ بھید کے تالے کی چابی کلام میں ہے۔ خاموی بھید کو اور کلام آدمی و زیبا ہے لیکن تجاوز مناسب نہیں۔ مجھے لگا فقیر راحموں اب پورا فلسفہ گھوٹ کر پلانے پر مُصر ہے۔ یادوں کی گٹھڑی کھولتے بنی۔
حافظ شیرازی یاد آئے کہا "بھید کلام تک ہی بھید رہتا ہے ادھر بات شروع ہوئی ادھر بھید کو پر لگ گئے "۔ فرمایا حضرت سید ابوالحسن علی ابن ابی طالب اللہ وجہہ الکریم نے، "انسان کا ظرف اور علم و عدل اس کی زبان میں پوشیدہ ہیں۔ جو سوچ سمجھ کر نہیں بولتے وہ خسارے میں رہتے ہیں"۔
ہم عہد نفساں کے مارے یہ باتیں کب سمجھتے ہیں۔ سمجھانا جن کا فرض تھا انہوں نے آنکھیں پیٹ کو لگالیں نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ چلیں ذانواس کی باتیں کرتے ہیں۔ شہر ماہ کے عہد ساز دانا کی۔ جس نے کہاتھا " جس دن لوگوں کو یہ سمجھ میں آگئی کہ جہالت جھوٹ اور سینہ زوری فساد کی جڑ ہیں وہ ان تینوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے جمگمگاتی فرزانگی کا مظاہرہ کریں گے "۔
بہت دن ہوتے ہیں ایک بار فقیر راحموں سے دریافت کیا تھا، من مندر آباد کب ہوتاہے؟ ٹھٹھہ اڑایا اس نے اور کہا زمین ہے ہی نہیں اور فصل کاشت کرلی۔ واردات قلب اچانک ہوتی ہے لوگ بھی عجیب ہیں جس مقام پر دانش کے چراغ چلانے چاہئیں وہاں مورتیاں رکھنے پر بضد ہیں۔
بخت نصر کے بابل میں پروان چڑھنے والے راچودم نے کہا تھا "ضابطے بہت ضروری ہیں مگر مساوی اطلاق اس سے بھی ضروری ورنہ دھونس والے پیٹ بھریں گے اور محکوم بدحال رہیں گے "۔ عجیب بات یہ ہے کہ لگ بھگ یہی بات سبھی نے کہی مگر بالادستوں کے خلاف محکوموں کو میدان میں لانے کا حق بہت کم لوگ ادا کرپائے۔ پیٹ بھروں کی مستیاں عجیب ہوتی ہیں۔
کاہنوں کے باغی سامت نے کہا تھا "کاہن فریب دے رہے ہیں انہیں فقط سونے چاندی اور پیٹ سے غرض ہے۔ وہ مالک عادل کیسے ہوگا جو کاہن کا پیٹ بھرے اور اناج اگانے والے کو بھوکا سلائے"۔
ہم کس طور زندگی کے سلسلہ کو جوڑیں۔ کب اور کس کی بات ہے وہی جو حسین لوائی نے کہی تھی۔ "جو خود سے محبت نہ کرپائیں وہ زندگی کو کیسے سمجھیں گے "۔
معاف کیجئے گا کبھی کبھی ایساہوتا ہے صبح و شام کے حاضر موضوعات پر لکھنے اور کلام کو دل نہیں مانتا۔ ان سموں بھی یہی صورت غالب ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک دانائے کلام یاد آرہا ہے۔ فضیل بن عیاض نے درس میں شریک طلبا کو دیکھا اور سلسلہ کلام کا آغاز کرتے ہوئے کہا "عالمین کے مالک نے کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ تخلیق کے ظرف کو خالق سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے"۔
یہاں صورت یہ ہے کہ ہر شخص خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ خودپسندی کے مرض لاعلاج کا شکارلوگوں کو کون سمجھائے، اچھا جو درس زندگی سے منہ موڑ جاتے ہیں انہیں گھوٹ کر تو پلایا نہیں جاسکتا۔ حضرت شاہ لطیف بھٹائی نے کہا تھا
"راز زندگی سمجھنے کے لئے انا کو قربان کرنا پڑتا ہے"۔ ہائے ری انا۔ کیسے قربان کریں لوگ اس سے بندھے ہی تو جیتے ہیں۔ "نفس کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈال کر سفر حیات طے کرنا کتنا مشکل ہے"۔
آسانیاں کہاں ہیں کہیں بھی نہیں۔ حافظ شیرازیؒ کے بقول "دوست کی گلی میں پہلا قدم وہی رکھ پاتا ہے جسے میخانے کی دہلیز عبور کرنے کا سلیقہ آتا ہو"۔
یہاں تو لوگ یوں اترا اترا کر چلتے ہیں جیسے زندگی ان سے پوچھ کر آگے بڑھتی ہو۔
فقیر راحموں نے یادوں کی گٹھڑی باندھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا "عیب جوئی میں یکتا لوگوں کو کون سمجھاسکتا ہے کہ یہ کارلاحاصل ہے"۔
خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ شاہ حسینؒ کی طرف جنہوں نے کہا " زندگی بس ایک صبح سے شام تک کی مسافت کا نام ہے۔ لوگ نجانے کیوں اپنا حق ادا کرنے کے بجائے عجیب جوئی میں زندگی کا دن پورا کردیتے ہیں"۔ مادھولال کے شاہ حسینؒ نے ہی کہا تھا "حساب کا دفتر کھلنے سے پہلے آدمی ایک نگاہ خود پر ڈال لے تو خالق کے سامنے سرخرو ہوسکتا ہے"۔
مگر کیا یہاں خالق کے سامنے سرخرو ہونے کی تمنا ہے؟ ہے تو کس کو اور نہیں تو کیوں؟
صاف سیدھی سی بات یہ ہے کہ خواہشوں کی بکل مارے زمین پر دندناتے پھرتے لوگوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ جو ہے بس یہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں۔ فقیر راحموں نے ایک دن کہا " جو دیتا ہے وہ حساب بھی لے گا "۔
کیسے لوگ ہیں زندہ رہنے کے لئے سہارا بننے والوں کی اطاعت کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں اور زندگی عطا کرنے والے کے حضور کی حاضری کو یاد نہیں رکھتے۔ معاف کیجئے گا ذہن و دل کے کیواڑ بند کرلینے سے سوالوں سے نجات نہیں مل جاتی۔
سوال زندہ آدمیوں کے سامنے آتے ہیں۔ جواب بھی زندوں پر فرض ہے۔ داناتو بہت پہلے کہہ چکے "عقل پر لٹھ برسانے والے اور مُردے اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے"۔
ظاہر ہے کہ رائے ان کی تبدیل ہوتی ہے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ بیوقوف اور مُردے کہاں غوروفکر کرپاتے ہیں۔
لیکن یہاں ہمارے عہد میں فیصلوں اور فتوئوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے۔ چراغ تلے اندھیرا والی مثال صادق آتی ہے۔
حضرت سید ابوالحسن علی ابن طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک عادل کو لکھا "یاد رکھو تمہارا خلیفہ تمہارے نامناسب فیصلوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ بہت ضروری ہے کہ انصاف کرتے وقت فریقین کی حیثیت کو نہیں عدل کے تقاضوں کو سامنے رکھو۔ یہ مت بھولنا اللہ رب العزت کو سب سے محبوب یہ ہے کہ مظلوم کے ساتھ مل کر ظالم سے بدلہ لے۔ "
حسین بن منصور حلاجؒ نے کہا تھا "تمہارے پاس دوسرا راستہ ہے ہی نہیں میری موت میں تمہاری حیات ہے آگے بڑھو اور اپنا نفع پالو میرا نفع یہ ہے کہ تم بھلادیئے جائو گے اور ہمارا تذکرہ اس کے ساتھ ہوگا"۔
مولوی لطف علی یاد آئے کہا " ساری کوشیں اکارت ہوئیں زندگی کی کشتی کے تخت ٹوٹ رہے ہیں"۔
زندگی کی کشتی کے تختے، وقت کو مٹھی میں بند کرنے کے زعم کا شکار، لوگوں کو کون سمجھائے۔ پانی، ہوا اور موت اپنا راستہ بنالیتے ہیں۔ مرشد نے کہا تھا "نماز عشق سرسجدہ میں اور گردن قاتل کے خنجر کے نیچے ہر کس و ناکس کہاں ادا کرپاتا ہے۔ ملا تو روٹی کے لئے اذان دیتا ہے۔ تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ سارے جھگڑے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ہیں۔
تلسی داس نے کہا تھا "چوتھائی روٹی سے جیا جاسکتا ہو تو آدھی ٹھونسنے کا فائدہ"۔ مگراس طور کون سوچتا ہے۔
عمر خیام نے کہا تھا "پالینے کی جستجو میں گم ہونا لازمی ہے"۔ مگر اس کا کیا کریں گے۔ سیدی بلھے شاہؒ کہتے ہیں "یار کے دوارے ٹیک لگاکر حال دل بیان کرنا ملا کے وضع کردہ ضابطوں پر عمل سے لاکھ درجہ بہتر ہے"۔
لیکن یار کا دوارہ کہاں ہے۔ دور اور سمت؟
حسین بن منصور حلاجؒ نے کہا تھا "ان کوڑھ مغزوں کو کون سمجھائے جو زندگی کے صحرا میں بھٹکتے پھرتے ہیں ساعت بھر کےلئے اپنے اندر جھانک لیں سارے بھید آشکار ہوجائیں گے "۔ پچھلی شب کے تیسرے حصے میں فقیر راحموں سے دریافت کیا، ساز ہستی کا ایک تارا ٹوٹ جائے تو پھر؟
رسان سے اس نے کہا "آدمی بھی کیا چیز ہے سنبھال کر رکھنے والی چیز سے بھاگتا ہے اور ختم ہوجانے والی کو پکڑنے میں زندگی گنوادیتا ہے "۔
شہید سرمد نے کہا تھا "لمحوں کی راکھ کریدنے کا فائدہ۔ سمجھنے والی بات فقط ایک ہے وہ یہ کہ فنا میں بقا ہے"۔
ایک بار پھر سامت یاد آئے کہا "زندگی کا فرض یہ ہے کہ اس سے مبحت کی بجائے زندوں سے محبت کی جائے"۔
کالم کے دامن میں گنجائش اتنی ہی تھی جتنی باتیں ہولیں۔ ان سے سوا اور باتیں کیا ہیں جو کرتے۔ کم ہوتے سانس منزل کو قریب تر کرتے جارہے ہیں۔ وہی منزل جو ہر ذی نفس کے لئے لازم ہے سبھی کو ذائقہ چکھنا ہے۔ پہلے یا بعد میں دیر سویر تو ہے چھوٹ بالکل نہیں۔