Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Zia Musharraf Mix Achar Ka Namoona

Zia Musharraf Mix Achar Ka Namoona

بڑی دلچسپ صورتحال ہے، سریم کورٹ عمران خان اور ہمارے ملتانی پیر مخدوم شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت منظور کررہی ہے۔ ایک نچلی عدالت نکاح کیس کا جیل ٹرائل کرنا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن میں پارٹی آئین پر عدم عمل کی درخواست (یہ درخواست پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن اکبر ایس بابر نے دی تھی) پر سماعت کرتے ہوئے نہ صرف پارٹی الیکشن کو غلط قرار دیا بلکہ تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان "بلا" بھی واپس لے لیا۔

دو دن قبل پشاور ہائیکورٹ میں ایک سیاسی مقدمے کی سماعت کے دوران ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے جو ریمارکس دیئے وہ اگر ان سطور میں لکھ دوں تو خود چیف جسٹس ہی توہین عدالت کا نوٹس بھیج دیں گے۔

بہت احترام کے ساتھ عرض ہے انصاف فراہم کریں سائلوں کو، اسی کی تنخواہ لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں سائفر کیس کی ضمانتی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو معصوم شخص قرار دیا۔ چند برس قبل اسی عدالت کے ایک چیف جسٹس نے انہیں صادق اور امین قرار دیا تھا۔

خیر ان تمہیدی سطور سے آگے بڑھتے ہیں۔ گزشتہ شب دوران مطالعہ ایک کتاب پڑھتے ہوئے فقیر راحموں نے دریافت کیا شاہ جی یہ جو آجکل ملک کے حالات ہیں ان پر کیا رائے ہے؟

اس سوال کے نظرانداز کرکے پڑھنے پر دھیان دینے کی تمام تر کوششیں ناکام رہیں۔

بالآخر یہ عرض کرنا پڑا کہ فقیر سائیں، ملک میں اس وقت "ضیاء مشرف مکس اچار" کا کاروبار عروج پر ہے۔ وہ کیسے فقیر راحموں نے دریافت کیا۔ مجھے اس کے سوالات مطالعہ کے خلاف مطالعہ پاکستان برانڈ سازش دیکھائی دیئے۔

ہمارا مطالعہ پاکستان بھی تو مطالعہ، تحقیق اور جستجو کے ساتھ سوالات کے شوق کو کھرچ کھرچ کر ایسے صاف کرتا ہے جیسے لیمن بار نامی برتن دھونے والا صابن ہر قسم کی چکنائی سے برتن کو نجات دلاتا ہے۔

مرتے کیا نہ کرتے بات تو کرنا ہی پڑی۔ سو عرض کیا پیارے فقیر راحموں، پیپلزپارٹی نے 1970ء اور 1977ء کے انتخابات تلوار کے انتخابی نشان پر لڑے تھے پھر جنرل ضیاء الحق کے حکم پر الیکشن کمیشن نے تلوار کا انتخابی نشان اپنی فہرست سے نکال دیا۔ نگ پورے کرنے کے لئے "ہل" کا انتخابی نشان بھی ختم کردیا گیا۔

"ہل" 1977ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف بننے والے مشہور زمانہ "ڈالر اتحاد" پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کا انتخابی نشان تھا۔ پیپلزپارٹی نے 1988ء کے انتخابات میں حصہ لینے سے قبل تلوار کے نشان کے لئے درخواست دی۔ بتایا گیا کہ یہ نشان فہرست میں شامل ہی نہیں جس پر "تیر" کا نشان لیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں دو بلدیاتی اور ایک قومی انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر ہوئے۔ پہلے بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی کے امیدواران نے "عوام دوست" امیدوار کی شناخت اپنائی مارشل لاء حکومت کو بڑے چھوٹے شہروں میں پیپلزپارٹی کے جن لوگوں پر مضبوط امیدوار ہونے کا شک ہوا وہ اٹھالئے گئے۔

پارٹی نے عام کارکنوں کو میدان میں اتار دیا۔ عوام دوست امیدواروں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیلی کرکے مارشل لائی دربار کے پیاروں کو کس طرح بلدیاتی اداروں کا چیئرمین و وائس چیئرمین بنوایا گیا یہ ملکی تاریخ کا شرمناک باب ہے۔

1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ ایم آر ڈی نے کیا تھا اس کے محرک نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم تھے اس لئے مظہر عباس کا یہ کہنا درست نہیں کہ پی پی پی نے کسی مرحلے پر کوئی متبادل انتخابی نشان لیا تھا۔

پی پی پی ایم آر ڈی میں شامل تھی اس لئے بائیکاٹ کے عمل میں شریک رہی۔

1988ء میں ضیاء کی حادثاتی موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے تیر کا انتخابی نشان لیا۔ جنرل مشرف کے دور میں پولیٹیکل پارٹی ایکٹ اور انتخابی قوانین میں ترامیم کی وجہ سے پاکستان پیپلزپارٹی 2002ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھی اس لئے مخدوم امین فہیم مرحوم کی سربراہی میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین رجسٹرڈ کروائی گئی تیر کا انتخابی نشان لیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں یہ ڈرامہ ہوا کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کو جواز بناکر ان کے دستخطوں سے جاری ہونے والے پارٹی ٹکٹ منسوخ کردیئے گئے اس وقت مسلم لیگ (ن) کے امیدواران سینیٹ نے آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیاسی کارکنوں خصوصاً پیپلزپارٹی اور اس کے حامیوں کی گرفتاریوں کا نہ رکنے والا سلسلہ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد وزیراعظم بننے والے محمد خان جونیجو کی جانب سے مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے اعلان کے ساتھ تقریباً ختم ہوا۔

البتہ یہ حقیقت ہے کہ 1985ء کے غیرجماعتی قومی انتخابات کے بائیکاٹ کے باوجود پی پی پی اور ایم آر ڈی کی دیگر جماعتوں کی پہلے دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتیں جیلوں میں بند کردی گئیں۔

اس "کھلے" میدان میں عالمگیر انقلاب اسلامی والے صالحین کو زندگی میں پہلی بار قومی اسمبلی کی غالباً 11 نشستیں مل گئیں۔ اس طویل جواب کے اختتام پر فقیر راحموں نے پوچھا لیکن اس میں"ضیاء مشرف مکس اچار" کہاں سے آگیا؟

عرض کیا، وہ ایسے کہ آجکل ضیاء دور کی طرح امیدوار اور متوقع امیدواروں (پی ٹی آئی) کے علاوہ تجویز، تائید کندہ بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ پرانے کھاتے کھولنے کے ساتھ نئے مقدمات بن رہے ہیں۔

مشرف ق لیگ نامی جماعت کی کامیابی چاہتے تھے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔

موجودہ صورتحال پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کہنے کو یہ جماعتی انتخابات ہیں لیکن حقیقت میں غیرجماعتی۔ یکطرفہ صورتحال بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔

دو ہزارہ اٹھارہ میں انتخابی مینجمنٹ کی اسٹیبلشمنٹ نے اب انتخابی جرائم کررہی ہے۔

تبدیلی فقط یہ ہے کہ انتخابی مینجمنٹ کے ادوار پرایک بار پھر جنرل ضیاء الحق کے دور والے انتخابی جرائم (کریمنل اسٹیبلشمنٹ) کا تاثر پختہ ہورہا ہے۔

ان حالات کے وہ بھی ذمہ دار ہیں جو ماضی میں انتخابی مینجمنٹ کے بینیفشری رہے۔ یہ بھی ذمہ دار ہوں گے جواب فائدہ اٹھانے کے لئے پرجوش ہیں۔

ہم نفرت کے ایک دور سے نکل کر دورسے دور میں داخل ہونے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ سیاسی خمیر اور نفرت ہر دو کی بنیادوں پر تعمیر ہوئی سیاسی جماعتوں کا طرزعمل مختلف ہوتا ہے۔

بہرحال اس سب کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ من چاہے نتائج حاصل کرلے گی اس مرحلے پر اگر تحریک انصاف نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا تو ردعمل میں پڑا ووٹ منظرنامے کو بدل دے گا۔

لیکن بدقسمتی سے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ ہوتا دیکھائی نہیں دے رہا اب بھی وہی گالم گلوچ ہے اور کوسنے یا چوراہوں پر گندے کپڑے دھونے کا شوق۔

ایک غلطی جو ہوچکی وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت مستقبل کے حالات کا درست اندازہ لگانے میں ناکام رہی۔ لگالیتی تو اسے 9 مئی کے واقعات کے بعد کے ریاستی کردار کے پیش نظر متبادل انتظامات کرلینے چاہئیں تھے۔ جس نام سے بہت بعد میں پرویز خٹک نے پارٹی رجسٹرڈ کروائی اسی نام "پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین" کوپہلے رجسٹرڈ کرواکر متبادل انتخابی نشان لے لینا چاہیے تھا۔

میں تواتر کے ساتھ ان سطور میں تقریباً نصف صدی سے یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ جمہوری ریاست اور سکیورٹی اسٹیٹ میں سیاست کرنے کے پیمانے، انداز اور فہم جدا ہوتے ہیں۔

جمہوری ریاست میں آپ (سیاسی جماعتیں) سماجی و معاشی ارتقا، علم و تحقیق، روزگار، انصاف اور مساوات کے ضمن میں اب تک کی اپنی کارکردگی پیش کرکے مستقبل میں اقتدار سازی کے لئے تائید کے طلب گار ہوتے ہیں۔

سکیورٹی سٹیٹ میں آپ (سیاسی جماعتیں) لوگوں کے سامنے وہ پروگرام رکھتے ہیں جس پر عمل کی صورت میں سکیورٹی سٹیٹ کے کوچے میں سے قومی جمہوریت کے میدان میں جانے کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے۔

سکیورٹی سٹیٹ میں سیاست حکمت عملی کی متقاضی ہوتی ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ سکیورٹی اسٹیٹ کی سیاست پہلوانوں کا اکھاڑہ ہرگز نہیں کیونکہ اگر یہ اکھاڑہ ہو تو جمہوریت پسند ہمیشہ تیلی پہلوان رہیں طاقتور (اسٹیبلشمنٹ) ہی جیتے۔

یہاں سیاست فہمی دانش بردباری، باہمی احترام، برداشت کرنے کی حکمت عملی سے آگے بڑھتی ہے، کشتوں کے پشتے لگانے سے نہیں۔ اسی طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ میں ریٹائر "شہسواروں" کا انقلابی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔