دنیا کی اُبھرتی معیشتوں کے نمائندہ تجارتی و اقتصادی فورم برکس کا سولہواں سربراہی اجلاس روس کے شہر کازان میں جاری ہے جس کے فیصلے جاننے کے لیے دنیا بے چین ہے۔ رواں اجلاس میں پاکستان کو رکنیت ملنے کا امکان ہے روس اور چین تو پہلے ہی ممبر بنانے کی یقین دہانی کراچکے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت بھی پاکستان کو ممبر بنانے جیسی تجویز کی حمایت پر آمادہ ہے اگر ایسا ہوجاتا ہے جس کا کافی حد تک امکان ہے تو یہ فیصلہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کی طرف ایک مثبت قدم ہوگا۔
برکس کے فیصلوں کو دنیا بہت اہمیت دیتی ہے وجہ ڈالر کے متبادل کی تلاش پر غور ہے شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں زیادہ تر ایسے ممالک شامل ہیں جن کا کسی نہ کسی حوالے سے امریکہ اور مغربی ممالک سے اختلاف ہے اسی بناپر مختلف قسم کی پابندیوں کا ہدف ہیں۔ امریکہ کے دیرینہ اتحادی پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ممالک میں ہونے لگا ہے جس کی کئی کمپنیوں پر ایران کے میزائل پروگرام میں معاونت کا الزام لگا کر امریکہ نے حال ہی میں پابندیاں عائدکی ہیں۔ اسی بنا پر ایسے قیاسات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ برکس میں شامل ممالک امریکی پالیسیوں کے خلاف مشترکہ آواز و کوششوں کی طرف جا سکتے ہیں جو امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں کی بالادستی چیلنج کرنے کی طرف اہم پیش رفت ہوگی۔
دنیا کی اکثر ترقی یافتہ معیشتیں امریکی سربراہی میں قائم نیٹو اتحاد میں شامل ہیں کیونکہ سائنس و ٹیکنالوجی میں یہ ممالک دیگر کی بہ نسبت بہت آگے ہیں جو دفاعی کے ساتھ سیاسی، معاشی اور تجارتی حوالے سے سبقت کا موجب ہے لیکن اب صورتحال دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہی ہے کیونکہ دفاعی، سیاسی، معاشی اور تجارتی غلبہ برقرار رکھنے میں کئی ایک مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
سیاسی و معاشی بالادستی کے لیے دہشت گردی پر تکیہ بھی ناکام ثابت ہونے لگا ہے روس کی شکست و ریخت سے طاقت کا توازن جس طرح یک قطبی ہوگیا اِس غیر معمولی کامیابی کا تقاضا تھاکہ تنازعات بڑھانے کی بجائے حل کرنے پر توجہ اور بقائے باہمی کے اصول پر عمل کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ دنیا کو جنگوں کی آگ میں جھونک کر بڑی تعداد میں بے گناہ لوگ مار دیئے گئے۔ معاشی ترقی کے بل بوتے پر دنیا کو مطیع و فرمابردار بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ مقصد حاصل کرنے کے لیے کبھی پابندیوں کا ہتھیار آزمایا گیا تو کبھی ڈالر کی اجارہ داری کو بطور حربہ آزمایا گیا۔
اِن حربوں سے تنگ ممالک متبادل کی تلاش کی طرف آئے اور برکس جیسی تنظیموں کی راہ ہموار ہوئی چین کا معاشی طاقت بننا نیز روس کا کھوئے وقار کو بحال کرنے کی توجہ سے بھی دنیا متوجہ ہوئی۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسی تنظیموں نے نیٹو، یورپی یونین اور جی سیون جیسی تنظیموں کی بالادستی کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اسی بنا پر امریکہ اور اُس کے اتحادی اِن تنظیموں سے خائف ہیں اور تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن لگتا ہے یک قطبی ماحول کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں تاخیر کردی گئی ہے اور برکس کے لیے فضا تیزی سے سازگار ہوتی جارہی ہے۔
برکس میں شامل ممالک کی آبادی ساڑھے تین ارب اور عالمی معیشت میں حصہ تیس فیصد ہے۔ 17.98 کھرب ڈالر کی معیشت کے ساتھ چین پہلے، 3.40کھرب ڈالر کے ساتھ بھارت دوسرے جبکہ 2.25کھرب ڈالر کا معاشی حجم رکھنے کی بنا پر روس کا تیسرا نمبر ہے۔ چوتھی پوزیشن پر برازیل اور سعودی عرب ہیں جن کی معیشتیں دو کھرب ڈالر کے آس پاس ہیں۔ اگر مذکورہ پانچوں ممالک ہی اتفاقِ رائے سے باہمی تعاون کا کوئی بڑا فیصلہ کر لیتے ہیں، جس کا امکان ہے تو نہ صرف یک قطبی اجارہ داری کا خاتمہ بلکہ ڈالر جیسی کرنسی کے غلبے سے بھی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے خیال میں برکس طاقت کے نئے امکانات کو جنم دیکر ایک مختلف عالمی توازن کی روش پر گامزن ہے جس سے طاقت کا توازن مشرق کی طرف منتقل ہو سکتا ہے کیونکہ روس کو تیل کی ادائیگی ڈالر میں کرنے پر شدید تحفظات ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ پیٹرویوآن یا پھر برکس ممالک کی مشترکہ کرنسی کے اجرا سے ادائیگی ہو۔ اِس تجویز کو تنظیم میں شامل اکثر ممالک کی حمایت حاصل ہے یہ صورتحال پاکستان جیسے ممالک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جن کی معیشت ڈالر سے وابستہ ہونے کی بناپر دباؤ کا شکار ہے۔
چین کی طرف جھکاؤ بڑھانے پر امریکہ اور اُس کے اتحادی مغربی ممالک پاکستان سے ناخوش ہیں۔ یہ ناخوشی کسی بھی وقت تجارتی راہیں مسددو کرسکتی ہے۔ اِس لیے نہ صرف نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنا ناگزیر ہوگیا ہے بلکہ ڈالر کے ایسے متبادل کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے جس سے قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل ہو۔ یہ کوئی آسان راستہ نہیں لیکن توجہ اور مستقل مزاجی سے چلنا زیادہ دشوار بھی نہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر معاشی تعلقات قائم کرنے کی پالسیی پر عمل پیرا ہے۔ برکس میں شامل زیادہ تر ممالک کیونکہ امریکہ سے ناخوش ہیں اسی لیے روس اور چین کے قریب آئے ہیں۔ پاکستان بھی امریکہ کی ضرورت نہیں رہا۔ اِن تبدیل شدہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئے معاشی و تجارتی اُفق تلاش کرنا لازم ہوگیا ہے۔ پاکستان کی تہائی سے زیادہ تجارت ڈالر میں ہوتی ہے لیکن گزشتہ عشرے سے مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسیوں میں تجارت کا حصہ بڑھا ہے۔ برکس کی رُکنیت ملنے سے پاکستان دوطرفہ تجارت کے معاہدوں کے زریعے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
برکس کا حالیہ سربراہی اجلاس اِس بناپر بہت اہمیت کا حامل ہے کہ شریک چھتیس میں سے بیس سے زائد ملکوں کی نمائندگی اُن کے سربراہ کر رہے ہیں۔ یہ طاقت کے توازن میں تبدیلی کی طرف اِشارہ ہے۔ امن کی متلاشی موجودہ دنیا دہشت گردی کو ناپسند کرتی ہے۔ ریاستوں کو لڑانے یا کشیدگی پیدا کرنے کے عمل کو نامناسب اور غلط تصور کیا جاتا ہے لیکن لگتا ہے امریکہ کو امن قائم کرنے دلچسپی نہیں وہ تنازعات کا حل تلاش کرنے سے زیادہ لڑائی کے امکانات بڑھانے اور بین الریاستی کشیدگی کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ افتراتفری اور شورش برپا کرنے کی تدابیرکرتا ہے۔
آج کا عالمی نظام جمہوری اور مطلق العنان حکومتوں کے درمیان کچھ اِس طرح تقسیم ہے کہ انسانی حقوق بے وقعت ہوچکے ہیں۔ داعش جیسے دہشت گرد اور نوح انسانی کے لیے مہیب خطرہ گروہوں کا خاتمہ اُس کی ترجیحات میں شامل نہیں بلکہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی دلچسپی مملکتوں کی تقسیم میں ہے جس نے برکس جیسی تنظیم کی اہمیت و کردار میں اضافہ کیا ہے۔ عالمی آبادی میں پچاس فیصد کی حامل یہ تنظیم مجموعی معاشی حجم میں جی سیون کو پچھاڑ چکی ہے اب یہ پاک قیادت پر منحصر ہے کہ وہ ترقی کے دستیاب مواقع سے کیسے فوائد کشید کرتی ہے؟ نئی تجارتی منڈیاں منتظر ہیں پیدواری مال بڑھا کر پاکستان اپنی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔