Sunday, 22 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Pak Russia Sharakat Dari

Pak Russia Sharakat Dari

پاک روس شراکت داری حوصلہ افزا ہے کیونکہ نہ صرف ماضی میں جنم لینے والی تلخیوں کی خلیج کم ہورہی ہے بلکہ دونوں ممالک قریب سے قریب تر آنے لگے ہیں۔ دو دہائی قبل ایسی صورتحال کے بارے میں سوچنا بھی محال تھا کہ پاکستان جیسا امریکہ کا قریبی اتحادی روس کی طرف دستِ بڑھائے گا جسے بخوشی تھام لیاجائے گا۔ مگر اب یہ حقیقت ہے کہ دونوں ممالک تلخ ماضی کو بھول کر مستقبل میں باہمی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اِس میں چین کا بھی کردار ہے جس نے ماضی کے حریفوں کو حلیف بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ شراکت داری کے لیے پُرعزم پاک روس قیادت کو شنگھائی تعاون تنظیم سے اختلافی امور کاحل تلاش کرنے میں بھی کافی مدد ملی۔

پاکستان کے لیے تجارتی حوالے سے امریکہ، سعودی عرب، چین اور برطانیہ آج بھی اہم ہیں، لیکن اب روس بھی غیر اہم نہیں رہا۔ اِس وقت دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر کے قریب ہے جسے اِس بناپر زیادہ بہتر نہیں کہہ سکتے کہ پاک امریکہ تجارتی حجم دس ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ قابلِ زکر بات یہ کہ زیادہ حصہ پاکستان کا ہے۔

اِس تناظر میں پاک روس تجارت حوصلہ افزا نہیں، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ضرورتوں کا تعین کرلیا جائے تو ایک ارب ڈالر کے تجارتی حجم کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ کے لیے پاکستان کچھ زیادہ اہم نہیں رہا بلکہ میزائل سازی کے حوالہ سے پابندیوں کی زدمیں ہے۔ نیز روس کو بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے مختلف قسم کی پابندیوں کاسامنا ہے جس کا تقاضا ہے کہ پاک روس قیادت صرف روابط اور تجارت بڑھانے کے عزم تک محدود نہ کرے بلکہ توانائی اور دفاعی شعبوں تک تعلقات اور تعاون کے اقدامات کرے۔ صرف اِس طرح ہی پابندیوں کو بے اثر کیا جا سکتا ہے۔

افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ نے پاکستان سے نظریں پھیرلیں مگر چینی خطرے نے پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کے لیے اہم کر دیا ہے اور اب اُس کی کوشش ہے کہ پاکستان کو مکمل طور پر چین کی طرف جانے سے روکا جائے، اسی لیے پابندیاں لگانے کے باوجود آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر بھاری قرض دلانے میں تعاون کیا ہے۔ اب یہ ہماری قیادت کی فہم و فراست کا متحان ہے کہ ماضی کی سرد جنگ کی طرح اب پھر کسی ایک بلاک کا حصہ نہ بنے بلکہ ملکی مفاد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

پاک روس شراکت داری کے آغاز میں زوالفقار علی بھٹو کا قابلِ قدر کردار ہے۔ انھوں نے سرد جنگ کے عروج میں روس کے دو دورے کیے جن کے دوران غلط فہمیاں دور کرنے اور شراکت داری کی طرف آنے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ روسی تعاون سے پاکستان اسٹیل مل جیسا منصوبہ مکمل کیا گیا جس سے پاکستان کے اسٹیل کی درآمدات پر اُٹھنے والے بھاری اخراجات کم ہوئے۔ اب دوبارہ دونوں ممالک ایک نئی اسٹیل مل قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں جس کے لیے پہلے کی طرح کراچی کاہی انتخاب کیا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے غیر فعال اسٹیل مل کا سات سو ایکٹر رقبہ اِس مقصد کے لیے دستیاب ہے۔ اِس لیے یہ منصوبہ ممکن ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں خام لوہے کے ذخائر 1887 ملین ٹن سے زائد ہیں مگر پاکستان اپنی ضرورت کا لوہا اور اسٹیل درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اگر نئی اسٹیل مل کا منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ملکی ضروریات کے لیے نہ صرف لوہا اور اسٹیل وافر ملے گا جس سے صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوگی بلکہ درآمدی اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔

منصوبے بنانا آسان مگر مکمل کرنا محنت طلب ہے۔ 2015 میں پاک بیلا روس کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے مطابق بیلا روس نے جنوری 2016 سے پاکستان میں ہر برس پانچ سو ٹریکٹر تیارکرنا تھے مگر یہ منصوبہ اِس حد تک ناکام ہوا کہ اِس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے کئی سرمایہ کار دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ اب دونوں ممالک ٹریکٹر و بس سازی کا منصوبہ بنارہے ہیں جو تبھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان تیار سامان خریدنے کی بجائے ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ دے۔ رواں ماہ پاکستان کے دورے پر آئے روس کے نائب وزیرِ اعظم الیکسی اوورچک اور اسحاق ڈار نے اٹھارہ ستمبر کو مشترکہ پریس کانفرنس میں شراکت داری کو بہتر اور وسیع کرنے کا عزم دہرایا مگر ضرورت اِس امر کی ہے کہ عزم کے ساتھ عمل بھی ہوتاکہ روسی معاہدوں کا حشربھی بیلا روس کی طرح نہ ہو۔

پاک روس شراکت داری بہتر بنانے پر دونوں ممالک میں کامل اتفاق ہے۔ توانائی کے درپیش مسائل کی وجہ سے روسی تعاون بہت اہم ہے۔ اپریل 2005 میں روسی وزیرِ اعظم میخائل فریڈکوف پاکستان کے دورے پر آئے مگر تعاون کے خوشنما وعدوں سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ موجودہ صدر آصف زرداری جب پہلی بار ملک کے صدر بنے تو بطور صدر انھوں نے 2011 میں روس کا دورہ کیا۔ اِس دوران اتنی پیش رفت ہوئی کہ دونوں ممالک تعاون بڑھانے کا عندیہ ظاہر کرنے تک محدودنہ رہے بلکہ کسی حدتک کام بھی ہوا۔ یہی دورہ صیح معنوں میں شراکت داری کے لیے سنگِ میل ثابت ہوا۔

قبل ازیں اپریل 1999 میں میاں نواز شریف بھی ماسکو گئے لیکن صنعت کار وزیرِ اعظم کا یہ سفر اِس لیے رائیگاں گیا کیونکہ بات وعدوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ 2022میں عمران خان ماسکو گئے تو صدر پوٹن نے نہایت گرمجوشی سے خیر مقدم کیا مگر اِس دورے کی گرمجوشی کارآمد ثابت نہ ہوسکی۔ دراصل عمران خان ماسکو پہنچنے تو اگلے ہی دن روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ ابھی تک جاری ہے جس میں روس جزوی حدتک کامیاب ہے اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک اربوں ڈالر کا یوکرین کو اسلحہ دیکر بھی اُسے شکست نہیں دے سکے۔

صدر پوٹن نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کو قریب تر کرکے ایسی چال چلی ہے جس کا توڑ ہنوز تلاش نہیں کیا جا سکا۔ یہ درست ہے کہ روس اِس وقت کوئی بڑی عالمی طاقت نہیں لیکن رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا یہ ملک اب بھی بااثر ہے جو کسی بھی وقت عالمی منظر نامے پر اثر انداز ہو سکتا ہے مگر ماضی کے تلخ تجربات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنا مکمل وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنے کی بجائے سب سے تعاون حاصل کرنے کی روش پر چلے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا جلاس آئندہ ماہ اکتوبر میں اسلام آباد ہو رہا ہے جس میں روسی وزیرِ اعظم میخائل مشسٹن کی آمد متوقع ہے۔ دیرپا اور پائیدار تعلقات کے لیے لازم ہے کہ دونوں ممالک تعلیمی اور ثقافتی وفود کو فروغ دیں سرمایہ کاری کا طریقہ کار آسان بنائیں صنعت، زراعت اور توانائی میں تجربات کا تبادلہ کیا جائے ہمہ جہتی نوعیت کے تعلقات سے ہی باہمی شراکت داری مضبوط ہو سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے روس بقا کی جنگ لڑرہا ہے جس میں دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک اُس کے مخالف ہیں مختلف نوعیت کی پابندیوں سے وہ معاشی طور پر دباؤ کا شکار ہے اسی لیے ارزاں نرخوں پر تیل فروخت کرنے پر مجبور ہے اگر پاکستانی قیادت توجہ دے تو روسی شراکت داری سے ملک کے زرعی، صنعتی اور توانائی کے کئی مسائل پرقابوپا سکتی ہے۔