Friday, 20 September 2024
  1.  Home/
  2. Hameed Ullah Bhatti/
  3. Dabao Kis Had Tak Kargar?

Dabao Kis Had Tak Kargar?

پی ڈی ایم اقتدار سے لیکر اب تک حکومت اور پی ٹی آئی میں تناؤ ہے اور یہ تناؤ مستقبل قریب میں بھی ختم ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ البتہ محمود اچکزئی کی صورت میں بات چیت کا موہوم سا امکان موجود ہے۔ وہ کام جو ماہر قانون دانوں کے اعلیٰ دماغ نہ کر سکے وہ ایک سرد وگرم چشیدہ سیاستدان کی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ قانون دان قیادت عہدے حاصل کرنے جیسی کامیابیوں کے لیے تو پی ٹی آئی کو بطور بیساکھی استعمال کرتے ہیں لیکن بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانے کی نتیجہ خیز حکمتِ عملی نہیں بناتے۔ علاوہ ازیں طاقتور حلقوں سے قریبی تعلق نہ ہونے کی بناپر عمران خان کی بار بار بات چیت کی پیشکش کے حوالے سے سنجیدہ پیش رفت میں بھی ناکام ہیں۔ اسلام آباد جلسے نے ثابت کردیا ہے کہ جماعت میں سنجیدہ فکر سے زیادہ جذباتی اور ٹکراؤ پر یقین رکھنے والوں کو اولیت حاصل ہے جس سے سنجیدہ لوگ بددلی کا شکارہیں اور وہ غیر متحرک ہوتے جارہے ہیں۔

یہ صورتحال قانون دانوں کی سیاسی ناکامی اور بے بسی کی اہم وجہ ہے شیرافضل مروت اور امین گنڈاپور جیسے لوگ کارکنوں کو گرمانے کی حدتک تو ٹھیک ہیں لیکن اُن کا یہ طرزِ عمل ملک کی ایک اہم جماعت کو سیاسی محاز پر اُسے کمزور کر رہا ہے جس جماعت کے رہنماؤں میں رسہ کشی عروج پر ہو اور سنجیدہ اور جذباتی لوگ منقسم وبرسرِ پیکار، ایسی جماعت کو کسی حریف کی ضرورت ہی نہیں وہ اپنی تباہی کے لیے خود ہی کافی ہے۔ نیز چاہے جتنی بھی مقبول ہوجائے اُسے اقتدار کے مراکز کی طرف سے پزیرائی نہیں مِل سکتی۔

آٹھ فروری سے لیکر اب تک بانی پی ٹی آئی متعدد بار احتجاج کی کال دے چکے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ قانون دان قیادت اور جذباتی قیادت کی منقسم سوچ کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہے، کے پی کے کے علاوہ ملک بھر میں ایسے حالات نہیں بن سکے (وجہ وفاق مخالف سوچ ہے) جس سے حکومت سنجیدہ نوعیت کا دباؤ محسوس کرے یا مقتدرہ کو ایسا احساس دلایا جاسکے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی مجبوری خیال کرے بلکہ ہر بار حکومتی اقدامات اور انتقامی کاروائیوں کو اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیکر جماعت کے ذمہ داران نے سرخرو ہونے کی کوشش کی۔

یہ کوئی معقول وجہ نہیں کیونکہ متحارب فریق کبھی آسانیاں فراہم نہیں کرتا ایسی توقع رکھنا بچگانہ سوچ ہے۔ تحریکیں حکومتی وسائل کے بل بوتے پر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں بلکہ قیادت کی یکسوئی اور کارکنوں کی طاقت سے ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی کارکنوں کے حوالے سے تو بہت اہم جماعت ہے مگر قیادت میں یکسوئی کا فقدان ہے جو کسی زوردار تحریک کی راہ میں رکاوٹ ہے اب تو حالات یہاں تک آگئے ہیں کہ کچھ اہم رہنما عہدوں سے استعفے دینے پر مجبور ہیں عمر ایوب اِس کی تازہ مثال ہے یہ اندرونی خلفشار اِس جماعت سے کارکنوں کو بددل کر سکتا ہے۔

اگر وسائل کے حوالے سے دیکھا جائے تو کے پی کے حکومت ہونے کی وجہ سے اِس جماعت کے پاس وسائل کی کمی نہیں بلکہ فراوانی ہے مگر وسائل کی یہ فراوانی بھی بانی پی ٹی آئی کی مشکلات کم کرنے اور اِس جماعت کے کارکنوں کو منظم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی، البتہ امین گنڈاپور کا دھڑا وسائل کی بدولت ہی جماعت میں نمایاں ہے وسائل سے لطف اندوز ہونے اور سیاسی مسائل سے بچنے کے لیے ہی وہ علاقائی سوچ کی حکمتِ عملی پرعمل پیرا ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ اُنھیں پی ٹی آئی سے زیادہ کے پی کے کااسٹیک ہولڈر تصور کیا جائے جہاں حالات اِس نہج پر ہوں وہاں وفاق پرست قوتیں کمزور ہوتی ہیں۔

کے پی کے میں کافی عرصہ سے ایسی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جو وفاق کی بات کرنے سے زیادہ صوبائی تعصب کے خول میں بندہوں۔ اب یہ پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی پر منحصر ہے کہ وہ بطور وفاقی جماعت اپنا تشخص برقرار رکھے اور صرف ایک یک صوبے کی نمائندہ جماعت ہونے کا لیبل نہ لگنے دے۔ ظاہرہے اِس کے لیے طریقہ کار بنانا قانون دان قیادت کی صلاحیتوں کا امتحان ہے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ قانون دان قیادت کو بانی کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود کارکن قبول کرنے میں پس و پیش کا شکارہیں۔

پی ٹی آئی کی قانون دان قیادت کئی ماہ سے جلسے کی اجازت لینے اور اِس حوالے سے تیاریاں کرنے میں مصروف ہے لیکن ہربار حکومتی سختیوں سے گھبرا کر عین موقع پر اسی جماعت کا کوئی اہم رہنما منسوخی کا اعلان کردیتا جس سے جماعت کی مقبولیت پر سوال اُٹھنے لگے۔ اب آخر کارگزشتہ روز آٹھ ستمبر کو جلسہ ہوگیا جس میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوئے مگر منتظمین اجازت نامے کی شرائط کی پاسداری میں ناکام رہے کسی اور کی بات کیا کریں خود وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ بھی بروقت جلسہ میں شریک نہ ہو سکے بلکہ ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے پنڈال میں پہنچے اور اُن کی آمد سے قبل ہی پی ٹی آئی کے جزباتی کارکنوں اور پولیس کے حفاظتی دستوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہو چکی تھی۔

کارکنوں کے پتھراؤ کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے جس سے دونوں اطراف کے کئی لوگ زخمی ہو گئے ایسے واقعات تلخیاں کم نہیں کرتے بلکہ بڑھا سکتے ہیں اور پی ٹی آئی کو ایک امن پسند جماعت سے زیادہ مقتدرہ کی مخالف ہونے کا تاثر گہرا کرتے ہیں، حالانکہ آٹھ ستمبر کے جلسہ کا مقصد ہی یہ ثابت کرنا تھا کہ نہ صرف آج بھی پی ٹی آئی کو عوامی سطح پر پزیرائی حاصل ہے بلکہ اِس کے کارکن نو مئی کے واقعات کے خوف کا حصار توڑچکے ہیں مگر مشروط جلسے میں بھرپور عوامی شرکت تلخیوں کے نئے روزن کھولتی محسوس ہوتی ہے جس پر اگردباؤ کِس حد تک کارگر کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال پی ٹی آئی قیادت کے حق میں محسوس نہیں ہوتی۔

اسلام آباد کے مضافات سنگجانی میں پاور شو کے بعد اگلا جلسہ لاہور میں کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا آزادانہ جلسے کا اجازت نامہ حاصل ہوپائے گا یا نہیں کیونکہ اسلام آباد جلسہ کے حوالہ سے قانون دان قیادت کرائی گئی یقین دہانیوں پر پورا اُترنے میں ناکام رہی ہے۔ واقفانِ حال کی محافل میں اِس امرکا بھی جائزہ لیاجا رہا ہے کہ تمام ممکنہ وسائل جھونکنے کے باوجود حکومت اور مقتدرہ کو پی ٹی آئی دباؤ میں لینے جیساہدف تو حاصل نہیں کر سکی تو بانی کی مشکلات بڑھانے اور جزباتی کارکنوں کو مظاہروں میں جھونکنے کے اور کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلام آباد کا جلسہ جماعتی قیادت میں نئی رسہ کشی کی بنیاد بن جائے گا؟