جعفر ایکسپریس پر حملہ دہشت گردی ہے جسے اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ ٹرین کو اغوا کرنے اور معصوم و بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے کی ذمہ داری بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیم نے قبول کر لی ہے۔ اِس لیے ملوث دہشت گردوں بارے بھی ابہام دور ہوچکا ہے جن کی سرکوبی ریاستی اِداروں کی ذمہ داری ہے۔ اِس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے جو بھی دہشت گردی میں ملوث اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے اسے بلا تاخیر عبرتناک انجام تک پہنچانا اور کچلنا ہوگا۔
اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ ہمارے ریاستی اِداروں میں اتنی استعداد ہے کہ وہ اندرونی و بیرونی اشتراک سے ہونے والی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کو پامال کرنے جیسی مزموم سازشوں کا دندان شکن جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اِس لیے اربابِ اختیار فوری طور پر دہشت گردوں کے خلاف حکمتِ عملی بنائیں تاکہ عملی کاروائی میں تاخیر نہ ہو کیونکہ فیصلہ کُن اور نتیجہ خیز اقدامات حالات کا تقاضا ہیں بلا جواز تاخیر سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے۔
معاشی بحالی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں بلاشبہ سرمایہ کاری کے لیے امن ناگزیر ہے لیکن دہشت گرد ایسی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ٹرین کو اغوا کرنے اور مغویوں کو مارنے والوں کے بھانک مقاصد بڑے واضح ہیں وہ ملک کا روشن چہرہ داغدار کرنا چاہتے ہیں تاکہ پُرامن پاکستان کی نفی ہو اور سرمایہ کار ڈر کر چلے جائیں جسے سمجھ کر حکمتِ عملی ترتیب دینا ضروری ہے۔
آپریشن شروع کرنے سے قبل ہی اکیس افراد کا قتل ثابت کرتا ہے کہ ٹرین پر حملے میں ملوث لوگ بے رحم اور سفاک ہیں اور ملک میں خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں۔ مقامِ شکر کہ ریاستی اِداروں نے دہشت گردوں کا پیغام سمجھنے میں کوئی تاخیر نہیں کی حالانکہ دہشت گردوں نے مغویوں کے تین گروپ بنا کر خودکش حملہ آوروں کی تحویل میں دے کر ہدایت کر رکھی تھی کہ جوابی کاروائی کی صورت میں خود سمیت سب کو اُڑا دیں۔ ایسی وحشت و سنگدلی کا مظاہرہ کرنے والوں کو انھی کی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔
ریاستی اِداروں نے چند گھنٹوں میں ہی خود کش حملہ آوروں کو نشانہ بناکر نہ صرف سینکڑوں مغویوں کو باحفاظت بازیاب کرالیا بلکہ ملوث تمام 33 دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کردیا۔ اِس دوران چار فوجی جوان بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔ ایسے وقت میں جب پیاروں کو کھونے کا صدمہ شدید ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف سرعت سے کاروائی پر بھی پوری قوم میں عسکری قیادت کے متعلق تشکرکے جذبات عروج پر ہیں۔ مزید اطمنان کا پہلو یہ ہے کہ ٹرین حملہ کی عالمی برادری نے کھل کر مذمت کرتے ہوئے پاکستان کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ سازگار فضا کو غنیمت جانتے ہوئے دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے پرفی الفور کام شروع کیاجائے۔
ٹرین پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ دہشت گردوں نے رولز آف گیم بدل دیئے ہیں وہ انسانی جانوں سے کھیلتے ہوئے کوئی تفریق نہیں کرتے یہ بلوچ حقوق کی جدوجہد ہرگز نہیں اِس لیے جو دہشت گردی کو محرومی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں وہ بھی اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کرلیں۔ دنیا بھر میں جو تنظیمیں مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں وہ مزاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کرتیں حماس ہو یا طالبان جیسی تنظیموں نے بھی مزاکراتی عمل کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے جارح قوتوں سے بات چیت کی اور مطالبات منوائے جب کہ بلوچستان تو پاکستان کا حصہ ہے لیکن بلوچ حقوق کے نام پر دہشت گردی کرنے والے تو بات چیت سے انکاری اور پہاڑوں پر جا بیٹھے ہیں جس کا مطلب یہ ہے اُن کے عزائم کچھ اور ہیں لہذا جب دہشت گردوں نے رولز آف گیم بدل دیئے ہیں تو ریاستی اِدارے بھی شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کو چن چن کر مار دیں اور اِن کا وہی حشر کریں جو تامل تنظیم اور اُس کے سربراہ پربھاکرن کا ہوا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے میں کوئی ابہام نہیں لیکن اِس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ بین الریاستی نیٹ ورک مقامی سہولت کاروں کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتا لہذا جب ریاستی اِدارے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کریں تو جرم میں مدد اور معلومات دینے، مالی تعاون کے ساتھ ہتھیار فراہم کرنے اور ظالم کو مظلوم اور حق بجانب بنا کر پیش کرنے والوں کو بھی نظر انداز نہ کریں۔ اب جبکہ صوبہ میں سی پیک کی صورت میں ترقی کا عمل زور و شور سے جاری ہے گوادر ائیرپورٹ فعال ہوچکا اور دنیا میں پاکستان بارے مثبت رائے فروغ پذیر ہے جسے دہشت گرد سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں اِس لیے بہتر ہوگا کہ دہشت گردی میں ملوث سے لیکر سہولت کاروں تک کو بیک وقت نشانے پر رکھا جائے۔
بلوچ حقوق کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کا صوبہ میں تعلیم و صحت کے منصوبوں پر کام کرنے والوں کونشانہ بنانا ثابت کرتا ہے کہ حقوق کی بات محض جواز ہے اگر بلوچوں سے مخلص ہوتے تو صحت و تعلیم کے منصوبوں پر کام کرنے والوں سے تعاون کرتے۔ کوئلہ و دیگر معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کو صوبہ سے نکالنے کی راہ ہموار نہ کرتے۔ اب تو دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے لیکن بلوچ حقوق کے نام نہاد علمبردار صوبہ سے غیر بلوچوں کو نکالنا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے پنجابیوں، سندھیوں اور پشتونوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ایسی عصبیت کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی ایسے حالات بنانے والے قوم پرست نہیں اغیار کے راتب خور ہیں یہ اپنی قوم کے دشمن ہیں اُن کی کاروائیاں بلوچ قوم کو ترقی سے محروم رکھنے کے لیے ہیں۔ ہمدردی کا نقاب اوڑھنے والے ایسے لوگوں کے اِرادے واضح ہیں لہذا بلوچ قوم کو چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف ریاستی اِداروں کے ساتھ چلے تاکہ امن قائم ہو اور بلوچستان ترقی کے عمل میں شامل رہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے مگر کچھ جماعتوں اور شخصیات کی اِس حوالے سے خاموشی اور مُبہم طرزِ سیاست ہے جو درست نہیں کیونکہ اِس طرح رضامندی کا تاثر جنم لے رہا ہے جو دہشت گردوں کے لیے طلبا، اساتذہ، سیاسی کارکنوں سمیت مختلف شعبوں کی سرکردہ شخصیات میں ہمدردی بڑھانے کاباعث ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ریاستی اِدارے امن پسند بلوچ اکثریت کے تعاون سے مٹھی بھر دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو سختی سے کچل دیں افغانستان اور بھارت میں متحرک پاکستان مخالف عناصر کی بیک وقت سرکوبی سے ہی امن بحال اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔