یہ ایک پرانی بحث ہے جو نئے پاکستان میں ایک نئے زاویے سے دوبارہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام الناس کو اس بحث کی خبر نہیں کیونکہ یہ بحث اقتدار کے ایوانوں تک محدود ہے۔ پاکستان اور بھارت میں حالیہ کشیدگی کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن پر انہیں صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بھارت میں بھی خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ ان اقدامات سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ بہت بہتر ہوئی۔ پاکستان کو صرف بھارت نہیں بلکہ کئی اور بیرونی ممالک کی سازشوں کا بھی سامنا ہے اور ان ممالک میں اسرائیل سرفہرست ہے۔ 26 فروری کو بالا کوٹ کے قریب جابہ میں بھارتی ایئر فورس کے حملے کے بعد سے عالمی میڈیا میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ اس حملے میں بھارت نے اسرائیلی ساختہ اسلحہ استعمال کیا۔ مصدقہ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر راجستھان کے راستے سے پاکستان پر ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پاکستان کے خفیہ اداروں کو اس حملے کی قبل از وقت اطلاع مل گئی اور پاکستان نے بھارت کو یہ پیغام بھجوایا کہ اگر ہماری سرزمین پر دوبارہ حملہ کیا گیا تو بہت بھرپور جواب دیا جائے گا اور یوں بھارت کا یہ حملہ ٹل گیا۔ بھارت اور اسرائیل کے اس "پاکستان دشمن اتحاد" کے تناظر میں کچھ دنوں سے عمران خان کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ہمیں بھارت اور اسرائیل کا اتحاد توڑنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ عمران خان کو یہ مشورہ 26؍فروری کے بھارتی حملے سے پہلے بھی دیا گیا تھا اور 26 فروری کو بھارتی حملے کے بعد بھی دیا گیا۔ مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ اگر تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں، اگر مصر، اردن اور ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں اس طرح پاکستان کے خلاف اسرائیل اور بھارت کا اتحاد ختم ہو جائیگا۔ یہ مشورہ اسرائیل نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں نظر آتا ہے۔ عمران خان یہ مشورہ تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دے دیں تو پورے مغرب کے ہیرو بن سکتے ہیں لیکن ان مشوروں پر ان کا سادہ سا جواب تھا۔ "دل نہیں مانتا"
مشورہ دینے والوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو دل کی نہیں بلکہ دماغ کی بات ماننا چاہئے لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کی تائید نہیں کر سکتا۔ مجھے مشورہ دینے والوں کی نیت پر ذرہ بھر شک نہیں لیکن عمران خان کا جواب سن کر دل کو اطمینان ہوا کہ بہت سی خامیوں کے باوجود عمران خان کسی دبائو اور خوف میں آنے والا سیاستدان نہیں۔ ان کے یوٹرن لینے کی سیاست پر میں نے بہت تنقید کی ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ اسرائیل کے معاملے پر یوٹرن نہیں لیں گے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحث جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں شروع ہوئی تھی جب امریکہ نے "آپریشن سائیکلون" کے ذریعہ افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے "مجاہدین" کو اسلحہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان کیساتھ ساتھ اسرائیل کی خدمات بھی حاصل کیں۔ 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو ان کو اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے چینل کھولنے کا مشورہ دیا گیا۔ مشورہ دینے والے صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس زمانے میں نصیر اللہ بابر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ایڈوائزر تھے۔ بابر صاحب کو اس مشورے میں سازش کی بو نظر آئی لہٰذا مذکورہ سرکاری ملازم کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ 1990 میں اس سرکاری ملازم نے صدر غلام اسحاق خان کے ساتھ مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت آئی تو انہیں بھی اسرائیل کو "انگیج" کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں تو انہیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان کے تمام بیرونی قرضے معاف ہو سکتے ہیں۔ 1994 میں ان کی جنیوا میں یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے یاسر عرفات کو بتایا کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ اگر پی ایل او کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور اسرائیل میں بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ یاسر عرفات پھٹ پڑے۔ گلوگیر لہجے میں کہا ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لئے تیار نہیں اور مذاکرات کے ذریعہ صرف ہمیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کر لی تو ہم مذاکرات کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ اس ملاقات کے اگلے دن میں نے ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی خواہش ظاہر کی لیکن بے نظیر حکومت نے اس معاملے پر بریک لگا دی۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کی کھلم کھلا کوششوں کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ اگر ایسی کوشش نواز شریف یا محترمہ بے نظیر بھٹو کرتے تو واجب القتل قرار پاتے۔ مشرف حکومت کی طرف سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سرعام رابطوں پر پاکستان کی پارلیمنٹ میں تو شور ہوا لیکن غداری اور کفر کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والے خاموش رہے۔ واضح رہے کہ عمران خان سمیت وہ تمام پاکستانی جو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے مخالف ہیں، یہودیوں کے ساتھ تعلقات کے مخالف نہیں۔ یہودیوں کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں فرق ہے۔ بہت سے یہودی بھی اسرائیل کی فلسطین دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ جس طرح بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اسرائیل نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل نے 2017 میں تل ابیب کے بجائے یروشلم (بیت المقدس) کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ نے تو یروشلم میں اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان کر دیا، کیا پاکستان یروشلم میں اپنا سفارتخانہ قائم کر سکتا ہے؟ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد کشمیر پر پاکستان کا موقف مضبوط ہو گا یا کمزور؟ 23 مارچ کو ہم یوم پاکستان مناتے ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی ایک قرار داد منظور کی تھی۔ 1945 میں قائد اعظمؒ نے بمبئی کے ایک جلسے میں امریکی صدر ٹرومین کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگوائے اور کہا کہ وہ دس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے بجائے امریکہ میں آباد کیوں نہیں کر لیتا؟ 1947 میں اسرائیل کے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے قائداعظمؒ کو ٹیلی گرام بھیجا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن پاکستان نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مخالفت کی۔ جن مسلم ممالک نے رائے عامہ کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو تسلیم کیا وہاں انتہاء پسندی نے جنم لیا۔ مصر ایک مثال ہے۔ ترکی نے 1949 میں اسرائیل سے تعلقات قائم کئے لیکن آج دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو صرف بھارت کے ساتھ اس کے اتحاد کی نظر سے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین پر قائداعظمؒ کے موقف کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ فلسطین اور کشمیر کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر عمران خان کا دل نہیں مانتا لیکن فیصلہ عمران خان نے نہیں پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ اس معاملے پر بند کمروں میں نہیں پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس میں بحث ہونی چاہئے۔ ہمیں دھوکے میں نہیں رہنا چاہئے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہوں گی۔ اصل نشانہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہے۔ اسرائیل صرف نیو کلیئر فری پاکستان کا دوست بن سکتا ہے۔