اس خوبصورت وادی میں سردی اتنی زیادہ تھی کہ طویل عرصے کے بعد میرے دانت بج رہے تھے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا پہاڑی علاقہ جابہ تھا جو مانسہرہ اور بالاکوٹ کے درمیان تھا۔ ایک دن پہلے بھارتی حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کی ایئر فورس نے بالاکوٹ میں جیش محمد کے ایک ٹریننگ کیمپ پر حملہ کیا جس میں 300 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ جس جگہ پر حملہ کیا گیا، یہ بالاکوٹ نہیں بلکہ جابہ تھا جو بالاکوٹ سے کم ازکم بیس کلومیٹر دور تھا۔ جابہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں اسلام آباد سے براستہ ایبٹ آباد پہنچنے میں مجھے ساڑھے تین گھنٹے لگے تھے۔ بھارتی ایئر فورس نے 26 فروری کو حملہ کیا تھا۔ اس دن اسلام آباد سے بالاکوٹ تک بارش ہوتی رہی لہٰذا ہم تمام دن بارش رکنے کا انتظار کرتے رہے۔ شام کو پتا چلا کہ 27 فروری کی صبح بارش رک جائے گی لہٰذا ہم 27 فروری کی صبح چار بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے اور ساڑھے سات بجے جابہ پہنچے۔ یہاں مانسہرہ میں جیو نیوز کے نمائندے کوثر سلیم بنگش ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔ وہ گزشتہ رات کو بارش میں حملے والی جگہ تک پہنچ گئے تھے لیکن اندھیرے کے باعث راستے میں پھسل گئے اور زخمی ہو گئے۔ اب وہ دوبارہ ہمارے ساتھ جانے کے لیے تیار تھے۔
میں نے بنگش صاحب سے پوچھا کہ جس جگہ بھارتی ایئر فورس نے بم گرائے وہ جگہ کتنی دور ہے؟ بنگش صاحب نے اپنے سامنے کھڑے ایک پہاڑ کی چوٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل رات تو ہم وہاں اڑھائی گھنٹے میں پہنچے تھے، اب پتا نہیں کتنی دیر لگے گی۔ ہمیں یہ سفر پیدل طے کرنا تھا کیونکہ جائے وقوعہ کی طرف کوئی سڑک نہیں جاتی تھی۔ اردگرد پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں اور برفانی ہوا میری لیدر جیکٹ سے آر پار ہو کر ہڈیوں میں گھس رہی تھی لیکن ہم نے آہستہ آہستہ پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا۔ رنگ برنگے خوبصورت پرندے ہمارے آگے پیچھے پھدک کر ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک چشمے پر پڑی۔ سردی کے باعث چشمے کا پانی منجمد ہو کر برف بن چکا تھا۔ میں نے کیمرہ مین حمران الیگزینڈر کی توجہ منجمد چشمے کی طرف دلائی تو وہ ٹھٹھر گیا۔ کچھ دیر کے بعد ہمیں فرنٹیر کور کے دو جوان نظر آئے۔ ان سے راستہ پوچھا تو انہوں نے بھی پہاڑ کی چوٹی کی طرف اشارہ کر دیا۔
اس پہاڑ پر چڑھتے ہوئے مجھے اپنے دائیں بائیں پہاڑوں میں اکا دکا مکانات نظر آرہے تھے۔ یہاں مکئی اور گندم کے چھوٹے چھوٹے کھیت تھے۔ ان پہاڑوں میں رہنے والوں کی گزر اوقات مکئی اور گندم کے علاوہ مویشیوں پر ہوتی ہے۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں تین کلو میٹر پیدل چڑھائی چڑھنے کے بعد ہمیں وہ ٹوٹے ہوئے درخت دکھائی دیئے جن پر بھارتی ایئر فورس نے بم گرائے تھے۔ کچھ مزید اوپر نوران شاہ کا گھر تھا جو اس حملے کا واحد زخمی تھا۔ نوران شاہ قریبی چشمے سے پانی بھر کر لایا تھا اور اس کے سر پر ابھی تک پٹی بندھی نظر آ رہی تھی۔ اس نے ہمیں اپنا گھر دکھایا، جس پر دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں نے نوران شاہ سے پوچھا کہ آپ کے گھر کے آس پاس چار بم گرائے گئے، کیا یہاں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی؟ اس نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ نہیں، یہاں کوئی بندہ نہیں مارا گیا، صرف میں زخمی ہوا ہوں۔ پھر وہ ایک لمحے کے لئے رکا، اس نے کچھ دور زمین پر پڑے ایک کوے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ کوا اس بمباری میں مارا گیا ہے۔ نوران شاہ کے بچوں نے اپنے گھر کے آس پاس گرنے والے بموں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے پتھروں پر رکھے ہوئے تھے۔ آس پاس سے کچھ مزید لوگ بھی ہمیں ملنے آ گئے۔ یہ سب نوران شاہ کے رشتہ دار تھے۔ میں نے پوچھا:یہاں کوئی مدرسہ بھی نہیں؟ ایک شخص نے بتایا کہ یہاں سے کافی دور بچوں کا ایک مدرسہ ہے، وہاں آس پاس کے چھوٹے چھوٹے بچے پڑھنے جاتے ہیں لیکن اس مدرسے کا بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ نوران شاہ بتا رہا تھا کہ اس علاقے میں کوئی سڑک نہیں آتی۔ یہاں مکان بنانا بہت مشکل ہے۔ تعمیراتی سامان خچروں پر لاد کر لانا پڑتا ہے، اب اسے مکان کی مرمت میں بڑی مشکل پیش آئے گی۔ قریب ہی ایک اور مکان پر بھی بموں کے ٹکڑے لگے تھے لیکن یہ مکان مضبوط تھا، زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ جب میں اس مکان کے پاس پہنچا تو مجھے تین چار سال کی ایک معصوم سی بچی نظر آئی جس نے بکری کا ایک سفید بچہ اپنی گود میں اٹھا رکھا تھا۔ میں نے بچی سے نام پوچھا تو اس نے مسکرا کر بتایا میرا نام عظمیٰ ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ اس کی چھوٹی سی بکری کا نام "گلاب" ہے۔ بچی کے باپ نے بتایا کہ کل جب یہاں بم گرے تو ہم سب دہشت سے بے ہوش ہو گئے۔ کافی دیر بعد ہمیں ہوش آیا۔ وہ شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھارتی بمباری کا نشانہ نہیں بنے۔ میں سوچ رہا تھا کہ آج کے دور میں بھارت کی حکومت ان معصوم بچوں کے آس پاس بم گرا کر کس کو بے وقوف بنا رہی ہے۔ اس دوران میرے فون کی گھنٹی بجی۔ بھمبھر سے ایک جاننے والے نے بتایا کہ پاکستان ایئر فورس نے بھارت کا ایک جنگی طیارہ مار گرایا ہے اور بھارتی پائلٹ کو بھمبر کے قریب سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر سننے کے بعد میں نے پہاڑ سے نیچے اترنا شروع کر دیا۔ بھارتی ایئر فورس نے ایک پہاڑی جنگل میں بم گرائے تھے، پاکستانی ایئر فورس نے نہ صرف دشمن کے طیارے مار گرائے بلکہ ان کا پائلٹ بھی زندہ گرفتار کر لیا۔ بھارتی وزیراعظم مودی کو لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔ موصوف نے الیکشن جیتنے کے لیے جو ڈرامہ کیا تھا وہ فلاپ ہو گیا۔
ایک طرف مودی کو اپنی اپوزیشن کے طنز اور طعنوں کا سامنا تھا، دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو ان کی اپوزیشن نے بھرپور تعاون مہیا کیا۔ عمران خان نے 28 فروری کو گرفتار بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب بھارت کا گرفتار پائلٹ واہگہ کے راستے واپس وطن جا رہا تھا تو بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن کے آس پاس آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں پر شدید گولہ باری کی گئی، جس میں پاک فوج کے دو جوانوں کے علاوہ کئی معصوم شہری بھی شہید ہوئے۔ پاکستان نے بھارت کا گرفتار پائلٹ زندہ حالت میں واپس بھیجا، بھارت نے پاکستان کے ایک قیدی شاکر اللہ کی لاش ہمیں بھیجی۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی نے یہ سارا ڈرامہ اپنی ایئر فورس کے زیر استعمال طیاروں کی خامیاں سامنے لانے کے لئے کیا تھا تاکہ فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دیا جا سکے۔ مودی نے پاکستان کے خلاف ایک غیر علانیہ جنگ کے ذریعے سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ ہر جنگ میں کچھ ہیرو اور کچھ مسخرے شہرت حاصل کرتے ہیں۔ اس جنگ کی ہیرو پاکستانی قوم ہے جس کی امن پسندی دنیا کو نظر آ گئی ہے اور اس جنگ کا مسخرہ مودی ہے، جس نے جابہ میں بم گرا کر ایک بے گناہ کوا مار دیا۔