Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Aafiat

Aafiat

امن بھیک میں نہیں ملتا۔ یہ طاقت، خوف کا توازن اور تحمل و تدبیر چاہتا ہے۔ افسوس کہ اپنے بحران کا ابھی ہمیں ادراک ہی نہیں۔ ابھی تو سوچ بچار پر بھی ہم آمادہ نہیں۔

نوا ز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تو مینارِ پاکستان بھی پہنچے۔ اپنے یادگار خطاب میں بھارت کی سیاسی قوتوں کا انہوں نے ذکر کیا، پاکستان کو تسلیم کرنے کے جو حق میں نہ تھیں۔ ان کاکہنا یہ تھا کہ واجپائی پاکستان کے وجود کو جواز کیوں بخش رہے ہیں۔ معترضین سمیت ساری دنیا کو سنانے کے لیے بلند آواز سے انہوں نے کہا " پاکستان میری مہر سے نہیں چلتا " دوسرے الفاظ میں یہ کہ پاکستان ایک سچائی ہے، جسے تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اس حقیقت کو مانے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔

اس دورے کے فوراً بعد کارگل کی جنگ شروع ہو گئی۔ پاک فوج نے بہت سی قیمتی جانیں کھو دیں۔ دنیا بھر میں خفت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ جنگی اعتبار سے یہ ایک کامیابی تھی۔ بدترین حالات میں جنگ بندی کے باوجود کہ رسد اور اسلحے کی فراہمی ممکن نہ رہی، بھارت کا جانی نقصان کہیں زیادہ تھا۔ آخری تجزیے میں مگر یہ دیوانہ پن تھا، ایک المناک مہم جوئی۔ بعد کے برسوں میں بھی پاکستان جس کی قیمت چکاتا رہا۔ اسے ایک غیر ذمہ دار ریاست قرار دیا گیا۔

نواز شریف کی رخصتی اور مارشل لا نافذ ہونے کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن منت سماجت سے پاکستان آئے تو سخت شرائط عائد کیں۔ اوّل یہ کہ ٹی وی کیمروں کے سامنے فوجی صدر سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ ثانیاً انہیں براہِ راست پاکستانی عوام سے خطاب کا موقع دیا جائے گا۔ پی ٹی وی سے نشر ہونے والی اس تقریر میں انتباہ کے انداز میں انہوں نے کہا:خون سے سرحدیں نہیں بدلی جا سکتیں۔ یہ ہماری تاریخ کے سیاہ ترین لمحات میں سے ایک تھا۔

دو عشرے بعد آج ہم غور کرتے ہیں تو دو نکات ابھرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ دور رس نتائج کا ادراک کیے بغیر ایسے بڑے فیصلے صادر کرنا تباہ کن ہوتاہے۔ دوسرا یہ کہ ایک کمزور معیشت کسی بھی ملک کے لیے کتنی خطرناک چیز ہے۔ فارسی محاورے کے مطابق احتیاج شیروں کو لومڑی بنا دیتی ہے۔ یہ چرچل سے منسوب ہے لیکن درحقیقت یہ ایک فرانسیسی مفکر نے کہاتھا: جنگ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے جنرلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

عراق دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک کو عراقِ عرب اور دوسرے کو عراقِ ایران کہا جا تا۔ ایک فارسی اور دوسرا عربی بولنے والا۔ عمر فاروقِ اعظمؓ کے عہد میں عراق ایران کے زیرِ نگیں تھا۔ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کا آغاز ہوا تو آگ پھیلتی گئی۔ جنگ شروع کرنا سہل ہوتاہے لیکن پھروہ ہاتھ سے نکل جایا کرتی ہے۔ اسی زمانے میں امیر المومنینؓ نے کہا تھا: کاش ایران اورعرب کے درمیان آگ کی ایک دیوار حائل ہو جائے۔

اس آدمی نے یہ بات کیوں کہی تھی، جسے تاریخِ انسانی پر اثر انداز ہونے والی دوسری بڑی شخصیت کہا جاتاہے۔ جو انتظامی، علمی، عسکری اور سیاسی اعتبار سے جینئس جانے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ملکوں، قوموں اور معاشروں کے فروغ کا انحصار امن اور استحکام پہ ہوتاہے۔

محاذ آرائی میں حرارت بہت جنم لیتی ہے۔ ہیجان پھوٹتا ہے تو پھیل جاتا ہے لیکن پھر اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ حصولِ پاکستان کے فوراً بعد قائدِ اعظم نے اسی لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات کی آرزو کی تھی۔ ممبئی میں اپنی رہائش آپ برقرار رکھنا چاہتے تھے کہ کبھی کبھار کچھ وقت وہاں بتایا کریں۔ بھارتی قیادت اور صحافت سے رابطہ برقرار رکھیں۔

کراچی کے ہندوئوں پر یلغار ہوئی تو وہ سخت تشویش میں مبتلا ہوئے۔ کراچی کی انتظامیہ سے رابطہ کرتے رہے کہ چنگاریاں شعلہ نہ بن سکیں۔ 11ستمبر1948ء کی تاریخی تقریر کے پسِ منظر میں بابائے قوم کا یہ احساس کارفرما تھا کہ آبادی کے مختلف طبقات میں ایک ہم آہنگی ضروری ہے۔ قومیں ایک کم از کم اتفاقِ رائے میں پروان چڑھتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے، جسے آئینی اصطلاح میں social contract یا عمرانی معاہدہ کہاجاتا ہے۔ ایک ہمہ گیر سمجھوتہ، جس کے بغیر مختلف مذہبی، لسانی اور نسلی گروہ قرار کی زندگی جیتے ہیں۔ میثاقِ مدینہ کی روح یہی تھی۔

پروردگار نے جب قریش کو اپنی نعمتیں یاد دلائیں تھیں۔ قریش کے مانوس کرنے کے سبب

ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب

لوگوں کو چاہئیے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں

جس نے ان کو بھوک میں کھانا دیا اور خوف میں امن ریگزار میں اناج اگتا نہ پانی کی فراوانی تھی۔ قریش کو تجارت سے رزق دیا گیا۔ انہیں سلیقہ بخشا گیا کہ ایران اور شام کے راستے میں پڑنے والے قبائل سے سمجھوتے کر کے تجارتی قافلے رواں رکھیں۔ روم، ایران اور چین تک کے تاجر عرب کے ساحلوں پر اترتے، سال بھر اترتے رہتے۔ اس سے عربوں کو امن بھی عطا ہوا، جو آدمی کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔

رزق میں فراوانی کی دعا کے لیے، جناب عباس بن عبد المطلب ؓ دوسری بار سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دعا تو آپؐ نے کی اور رفتہ رفتہ جنابِ عباس ؓ خوشحال ترین لوگوں میں شامل ہوگئے ؛تاہم ایک ایسی بات آپؐ نے کہی، جس میں حکمت و حقیقت کے ہزار پہلو ہیں۔ آپؐ نے کہا " اے میرے چچا، جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، اس نے عافیت سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگی "غالباً اسی موقع پر یہ دعا تعلیم کی تھی

" اللھم انی اسئلک العفو و العافیہ فی الدنیا و الاٰخرہ "

اے اللہ، میں دنیا اور آخر ت میں معافی اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔

غور کیجیے تو احساس ہوتاہے کہ ہماری قوم کو عافیت درکار ہے۔ اس کے مزاج میں مگر ہیجان ہے۔ وہ باہم صف آرا ہے، خودشکنی پر تلی ہوئی۔ اس کے بڑے بڑے گروہ ایک دوسرے کو پست و پامال کرنے کے آرزومند ہیں۔ فہم و فراست تو کیا، عقلِ عام بھی ہیجان میں معطل ہو جاتی ہے۔ دانش وہ چراغ ہے، جو جذباتی اعتدال کی کیفیت میں نور بکھیرتا ہے۔ دو مشتعل آدمی ایک دوسرے کے درپے تھے۔

سرکارؐ نے دیکھا تو اس مفہوم کا جملہ ارشاد فرمایا: ایک ایسا کلمہ میں جانتا ہوں کہ وہ پڑھ لیں تو آسودہ ہو جائیں۔ کسی خیر خواہ نے ان میں سے ایک کو یہ بتانے کی کوشش کی تو برہمی سے بولا" کیا میں پاگل ہوں؟ " تربیت ہوتی رہی تو آخر کار عرب دانش و دانائی کی راہ پہ چلے۔ پہلے عربوں اور پھر ترکوں کی قیادت میں ایک ہزار برس تک مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی تا آنکہ جبلتوں کے غلبے کا دور لوٹ آیا۔ علم جاتا رہا، تفکر جاتا رہا، جہالت لوٹ آئی۔

ہم ابتلا میں ہیں۔ معیشت برباد ہے اورسہولت سے سنور نہیں سکتی کہ عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہماری اقتصادیات ہم آہنگ نہیں۔ سرحدوں کے اند ر اور سرحدوں پر بھی امن ہمیں درکار ہے۔ ٹھنڈے دل سے اس پہ تدبر چاہئیے، تدبر اور منصوبہ بندی۔ امن بھیک میں نہیں ملتا۔ یہ طاقت، خوف کا توازن اور تحمل و تدبیر چاہتا ہے۔ افسوس کہ اپنے بحران کا ابھی ہمیں ادراک ہی نہیں۔ ابھی تو سوچ بچار پر بھی ہم آمادہ نہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.