کس دھڑلے سے کل زرداری صاحب نے فرمایا تھا:کسی کے نام پہ جعلی کھاتہ اگر میں نے کھولا ہے تو وہی بے خبر ذمہ دار ہے، میں نہیں۔ اب اخلاق اور اصولوں کا رونا کیا۔
صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوئی مگر کس طرح؟ کوئی دن میں بات کھلے گی۔ کسی پارٹی نے سودے بازی کی یا معاملات انفرادی طور پر طے پائے۔ بدھ کی صبح تک حکومت پوری طرح پر امید نہیں تھی۔ سنجرانی صاحب مایوس تھے اور مستعفی ہونے پر آمادہ۔ ان سے کہا گیا کہ انتظار فرمائیں۔ غالباً آخری شب دو تین ووٹوں کی کمی پوری کر لی گئی۔ ممکن ہے یہ پانچ افراد کا کوئی گروپ ہو، جس نے ایک ایک بیلٹ پیپر پر دو دو مہریں لگائیں۔
اپوزیشن کی نامرادی اور حکومت کی کامیابی کے عوامل قابلِ فہم ہیں مگر تفصیل معلوم کرنامشکل۔ مرکز، بلوچستان" پختون خوا اور سب سے بڑھ کر پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہیں۔ ترقیاتی فنڈز وہی دے سکتے ہیں۔ نوکریاں وہی فراہم کر سکتے ہیں۔ تحفظ بھی وہی عطا کر سکتے ہیں۔ صدیوں سے تہہ در تہہ سرپرستی (Patronage) کے اس معاشرے میں اشرافیہ کو غرض آسودگی سے ہو تی ہے، یعنی اختیار اور اقتدار سے۔ حکومتوں کے بل پر وہ تن کر کھڑے ہوتے، کاروبار فرماتے، روپیہ کماتے اور کوسِ لمنِ الملک بجاتے ہیں۔ تمیزِ بندہ و آقا اور دکھاوے کی اس دنیا میں اپوزیشن کے ساتھ جڑے رہنے کا فائدہ کیا؟
اپنی پارٹیوں کے وفادار وہ کیوں رہیں؟ ایوانِ بالا میں داخلے کے لیے ان میں سے اکثر نے نقد فیس ادا کی تھی۔ ابھی کل کی بات ہے کہ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں پختون خوا سے پی ٹی آئی کے پورے بیس ارکان خرید لیے گئے تھے، یعنی پوری دونشستیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نوٹوں سے بھرے ہوئے بریف کیس لے کر زرداری صاحب کے کارندے کوئٹہ پہنچے تھے۔ بچھی بچھائی بساط انہوں نے لپیٹ کر رکھ دی تھی۔ نعرے لگانے اور گریہ و ماتم کرنے والے رضا ربانی کی جگہ، گمنام صادق سنجرانی کو چئیرمین بنانے کا ڈول انہی نے ڈالا تھا۔ غیر ملکیوں کے لہجے میں اردو بولنے والے بلاول بھٹو مٹھائی کا ڈبہ لے کر سنجرانی کے گھر گئے تھے۔
اپنے ہاتھ سے شیرینی کا ایک ٹکڑا ا ن کے منہ میں ڈالا تھا۔ اپنی کامیابی پہ فخر کیا اور ا س کا جشن منایا تھا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ شہباز شریف کے اشارہء ابرو سے نواز شریف کے نامزد کردہ سینیٹ کے ایک امیدوار ہرا دیے گئے تھے۔ روتے پیٹتے وہ لندن لوٹ گئے تھے۔ برسوں کی سرمایہ کاری برباد ہوگئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پچھلے ہفتے کوٹ لکھپت جیل سے بڑے بھائی نے چھوٹے کو پیغام بھیجا: اب کی بار بھی ویسا ہی کوئی کرشمہ نہ کر دکھانا۔ کہا جاتاہے کہ شکست پر شہباز شریف کی ہوائیاں اس لیے بھی اڑی ہوئی تھیں کہ غم سوا تھا۔ انہیں جواب طلبی کا اندیشہ بھی تھا۔ ڈانٹ پڑنے کا خوف بھی۔
ایک طرف بہت بڑا بحران اور دوسری طرف عظیم امکانات سے ملک دوچار ہے۔ خدا خدا کر کے امریکہ سے مفاہمت کا امکان پیدا ہوا ہے۔ اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں ہر سال چالیس پچاس بلین ڈالر برباد کرنے کے حق میں نہیں۔ یہ سرمایہ وہ امریکی معیشت کی بحالی پہ صرف کرنا چاہتے ہیں کہ آئندہ الیکشن جیت سکیں۔ یہ پاکستان کے کل قومی بجٹ سے زیادہ ہے۔ پاکستان کی انہیں ضرورت آپڑی ہے۔ اس لیے کہ کسی اجنبی سرزمین سے غیر ملکی افواج کی واپسی آسان نہیں ہوتی۔ پاکستان کے بغیر یہ مرحلہ سر نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے بغیر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتاہے، جنگ بندی ہو سکتی ہے اور نہ خطے میں قومی سلامتی سے متعلق امریکی مفادات بچائے جا سکتے ہیں۔
مدتوں بعد حکمران پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ میں ہم آہنگی ہے۔ مدتوں کے بعد قومی سلامتی کے باب میں اسلام آباد کے حوالے سے راولپنڈی میں اندیشوں کے سنپولیے نہیں رینگتے۔ ایسے میں شورش برپا کرنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سیاست کے جادوگر ہیں۔ مگر وہ صورتِ حال پڑھ نہ سکے، نکتے کو پا نہ سکے۔ شریف اور زرداری، دونوں حکمران خاندان مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔
احتساب کرنے والے پورے وثوق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ، قانون نافذ ہوا تو شریف اور زرداری خاندان کا کوئی ایک بھی آدمی بچ کر نکل نہیں سکتا۔ نیب کے ایک اعلیٰ افسر سے جب پوچھا: کیا کافی ثبوت آپ کے پاس موجود ہیں؟ وہ کھلکھلا کر ہنسا اور کہا: ثبوتوں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ ایک ایک خاتون، ایک ایک آدمی اور ایک ایک بزرگ کے نام کروڑوں روپے سمندر پار سے منتقل ہوئے ہیں۔ درجنوں جعلی کھاتوں کا سراغ مل چکا۔ ہر ایک کیس میں وعدہ معاف گواہ موجود ہیں او رمزید بہم ہو رہے ہیں۔
اگر یہ دعویٰ درست ہے اور بظاہر درست ہے تو برباد لشکروں کا ساتھ کون دے اور کیوں دے؟ ایک صدی ہونے کو آئی، جب اقبالؔ نے کہا تھا
جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نُمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ
مِری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
مَیں اپنی تسبیحِ روز و شب کا شُمار کرتا ہوں دانہ دانہ
ہر ایک سے آشنا ہوں، لیکن جُدا جُدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب، کسی کا مَرکب، کسی کو عبرت کا تازیانہ
نہ تھا اگر تُو شریکِ محفل، قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مِرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر میء شبانہ
مِرے خم و پیچ کو نجومی کی آنکھ پہچانتی نہیں ہے
ہدَف سے بیگانہ تِیر اُس کا، نظر نہیں جس کی عارفانہ
شفَق نہیں مغربی اُفق پر یہ جُوئے خوں ہے، یہ جوئے خوں ہے!
طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ
جلسے میں، جلوس میں، اخبار میں، ٹی وی میں ایوان اور دربار میں جمہوریت کا غوغابہت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بائیس کروڑ کی یہ قوم جمہوریت اوڑھتی، جمہوریت پہنتی، جمہوریت کھاتی اور جمہوریت پیتی ہے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ سلطانیء جمہور کے نعرے ہی کافی ہیں یا ملک کو اخلاقیات اور علم کی کوئی ضرورت بھی ہے؟ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سماج بنیادی اصولوں سے یکسر بے نیاز ہو کر فروغ پا سکا ہو؟
سوال کیا جاتاہے کہ کیا حکمران جماعت بے اصولی کی مرتکب نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کون سے اصول اور کون سی بے اصولی؟ اقتدار کے بے رحمانہ کھیل میں انصاف، اصول اور سچائی کا کیا کام؟ کل یہی حربے نواز شریف اور زرداری نے برتے تھے۔ آج وہی کپتان نے۔ کس دھڑلے سے کل میاں نواز شریف نے ارشاد کیا تھا: میرے اثاثے اگر آمدن سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا؟ کس دھڑلے سے کل زرداری صاحب نے فرمایا تھا:کسی کے نام پہ جعلی کھاتہ اگر میں نے کھولا ہے تو وہی بے خبر ذمہ دار ہے، میں نہیں۔ اب اخلاق اور اصولوں کا رونا کیا۔