ایسے ہوتے ہیں، اللہ کے بندے، شکر گزار، شادماں اور قناعت پسند۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
عبد دیگر، عبدہ ُ چیزے دگر۔ بندہ اور ہے، اللہ کا بندہ کچھ اور!شاکر خان کا اللہ بھلا کرے۔ آج کا دن اس نے جگمگا دیا۔ خیال کی ویران پڑی دنیامیں ایک گلستان آباد کر دیا۔ میر ؔصاحب یاد آئے
چلتے ہو تو چمن کو چلیے، سنتے ہیں بہاراں ہیں
پھول کھلے ہیں، پات ہرے ہیں، کم کم بادو باراں ہے
اور یہ کہ
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
بلیو ایریا کے ایک پلازے کی چھاؤں میں شاکر خان جوتے پالش کرتے ہیں۔ اسی عمارت کے تہہ خانے میں ایک کمرہ کسی نے عبادت کے لیے مختص کر رکھا ہے، ایک چھوٹی سی مسجد۔ اس "مسجد" کی سیڑھیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ دفتری اوقات میں نمازی حضرات تشریف لاتے۔ کسی کو مگر خیال نہ آیا کہ ان کی مرمت کرا دی جائے۔ یہ خیال شاکر خان کے صالح ذہن میں پروان چڑھتا رہا۔ ہمارے پٹھان بھائی عجیب ہیں۔ کوئی خیال دل و دماغ میں پھوٹ پڑے تو اسی کے ہوجاتے ہیں۔ پھر اسے سینچتے رہتے ہیں ؛تا آنکہ بارآور ہو جائے۔
اپنی خون پسینے کی کمائی سے شاکر خان ایک ایک روپیہ بچاتے رہے، حتیٰ کہ پچیس ہزار روپے جمع ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ اس نے تخمینہ لگوایا ہوگا۔ اندازہ کیا ہوگا کہ کل کتنی رقم درکار ہوگی۔ آخر کار ایک دن کام شروع ہوا اور مکمل ہوگیا۔ اس کی تصویر کسی نے سوشل میڈیا پہ ڈال دی ہے، جس میں ایک بزرگ کے پہلو میں وہ خاموش اور حیران سابراجمان ہے۔ عاجزی اور انکسار کے ساتھ۔ اس کے چہرے پر لکھا ہے: تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو۔ اس کی آخر کیا ضرورت تھی؟ اس لیے تو یہ کام میں نے کیا نہیں تھا۔
اسلام آباد کا بلیو ایریا کروڑ پتیوں کا مسکن ہے۔ ایک سے ایک بڑا تاجر۔ لش پش کرتے شوروم اور خوش خوراک لوگوں سے بھرے ریستوران۔ ایک ایسا بھی ہے کہ دور تک قطار لگی رہتی ہے۔ ٹریفک الجھتی رہتی ہے۔ موسمِ سرما کے آغاز میں سوٹ سلوانے کے لیے کپڑے کی ایک مشہور دکان کا رخ کیا۔ کسی قدر جھجکتے ہوئے، مینیجر صاحب نے کہا: دو ماہ انتظار کرنا ہوگا۔ پوٹھو ہار میں زمستاں کا موسم دو تین ماہ ہی کو محیط ہوتا ہے۔ یکم دسمبر سے 28فروری تک۔ کون اس قدر انتظار کرے؟
ان کروڑ پتیوں میں سے کسی کو کیوں نہ سوجھی؟ ا س لیے کہ سعادت شاکر خان کے لیے لکھی تھی، اللہ جسے توفیق دے۔ چالیس برس ہوتے ہیں، ساغر صدیقی کو دیکھا تھا۔ لاہور کے اس مجذوب شاعر کو، میلا سا لباس پہنے جو مال روڈ اور انار کلی میں گھومتا رہتا۔ ایک شعر اس زمانے میں اس کاسنا تھا، جو آج نہاں خانہ دل کی خلوتوں سے طلوع ہوا اور ماہتاب سا دمکنے لگا۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
کہیں سے ان کو بلاؤ، بڑا اندھیرا ہے
عالی قدر اصحاب رضوان اللہ اجمعین سے سرکارؐ نے پوچھا: وہ کون سا دینار ہے، جو ہزاردیناروں پہ بھاری ہے۔ جیسا کہ ان اہلِ صفا کا دستور تھا، عرض کیا: اللہ اور اس کارسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: کسی کے پاس اگر دو دینار ہوں اور وہ ان میں سے ایک صدقہ کر دے۔
مدینہ منورہ میں امویوں کی سفاک سپاہ نے قتلِ عام کیا تو امام زین العابدینؓ قریب کی ایک بستی میں جا بسے تھے۔ بعد ازاں کتنے ہی لوگوں کو انہوں نے پناہ دی۔ ان میں سے ایک وہ بھی تھا، کربلا کے دن جو زیاد کے لشکر میں تھا۔ زیاد، جس نے کہا تھا: دنیا نقد ہے اور آخرت ادھار۔
گڑگڑاتا ہوا، خوف زدہ وہ شخص امامؓ کے قدموں میں گرا اور کہا: آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں۔ فرمایا: کیسے میں تمہیں بھول سکتا ہوں؟ تم وہی ہو جو خاندانِ رسولؐ پہ ٹوٹ پڑے تھے۔ فلاں کے پیکر میں، میں نے تمہیں نیزہ گاڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ مگر آپؓ نے اسے پناہ دی اور کامل پناہ!
یونہی نہیں، خلق یونہی کسی کی شیدا نہیں ہو جاتی اور لیل و نہار کی سب گردشوں کے باوجود شیدا رہتی ہے۔
کوئی دن بیت چکے تو امامؓ حرم پاک تشریف لے گئے۔ یہ ہشام بن عبد الملک کا دور تھا۔ حجرِ اسود پہ بھیڑ بہت تھی۔ وہ انتظار میں کھڑا رہا۔ امامؓ اتنے میں نمودار ہوئے، زرد رو اور نحیف۔ آپؓ کو دیکھا تو مجمع چھٹ گیا۔ قرار اور سکون کے ساتھ آپؓ آگے بڑھے اور بوسا دیا، سیدنا عمر ابنِ خطابؓ نے جس کے بارے میں کہا تھا: تو ایک پتھر ہی تو ہے مگر یہ کہ آپؐ نے تمہیں چوما تھا۔ حیرت زدہ ہشام نے سوال کیا: یہ کون آدمی ہے، جس کے لیے خلق جھکی پڑتی ہے۔ فرزدق، اس عہد کے بے مثال شاعر نے جس پر ایک قصیدہ لکھا: یہ تو وہ ہے، جسے وادیء بطحا پہچانتی ہے۔ یہ وہ ہے، حرم کے درودیوار بھی جسے پہچانتے ہیں۔ ایک ایک کر کے کتنے ہی اہلِ ایثار یاد آئے۔ سب کہانیاں مٹ جاتی ہیں، ساری عظمتیں فنا ہوتی ہیں۔ سب شکوہ و جلال خاک بسر ہوتاہے۔ اہلِ ایثار کی یاد مگر باقی رہتی ہے اور اللہ کی راہ میں زندگیاں نذر کرنے والوں کی۔
رحیم یار خان کی گرد آلود بستی امانت کالونی میں حافظ محمد اسمٰعیل بچوں اور بڑوں کو تین عشروں تک تعلیم دیتے رہے۔ اس ناچیز سمیت سینکڑوں نے ان سے قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھا۔ ایک دھیلے کے روادار نہ تھے۔ نابینا ہو گئے تھے مگر یادداشت ایسی کہ سبحان اللہ۔ ادراک ایسا کہ دیکھنے، سننے والے ششدررہ جاتے۔ ایک دن ارشاد کیا: حدیثِ رسولؐ کی تشریح میں زمان و مکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اکرام ایسا کہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد کا رخ کرتے تو راستوں میں کھڑے ہوئے مودب ہو جاتے۔ " حافظ صاحب سلام، حافظ صاحب السلام علیکم"۔ تعبیر الرویا کا علم ایسا کہ باید و شاید۔ ایک دن کسی نے کہا: حافظ صاحب! خواب دیکھا ہے کہ صحن میں کپڑے سوکھنے کے لیے پڑے ہیں اور ان پہ خون کے دھبے ہیں۔ فرمایا: اللہ رحم کرے، اگر ایسا ہے تو مشرقی پاکستان جدا ہو جائے گا۔
آپ کی وفات کے بعد یہ واقعہ کسی نے سنایا: ایک دن کسی جاننے والے نے ان سے کہا: حافظ صاحب! آپ کی زمین زیادہ زرخیز ہے۔ ہمیں تو ڈھنگ کی اراضی نہ مل سکی۔ ایک لمحہ تامل کے بغیر ارشاد کیا: پٹواری کو کل بلا لیجیے گا۔ اپنی زمین اس کے سامنے منتقل کر دی۔ یہی نہیں، عمر بھر اس کا ذکر تک نہ کیا۔ سکول میں پڑھایا کرتے۔ 1960ء کے عشرے میں دو سو روپے ماہوار تنخواہ تھی۔ حرفِ شکایت کبھی زبان پر نہ لائے۔ ہمیشہ آسودہ، دائم شاد اور شکر گزار۔
ایسے ہوتے ہیں، اللہ کے بندے، شکر گزار، شادماں اور قناعت پسند۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
عبد دیگر، عبدہ ُ چیزے دگر۔ بندہ اور ہے، اللہ کا بندہ کچھ اور!