احساس اور ادراک شاید کچھ ہو چکا۔ بات وہی ہے: وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔ الفاظ کی نہیں، یہ عمل کی دنیا ہے اور پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے:
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں
دانشور اس بحث میں الجھے رہتے ہیں کہ ہم مسلمان پہلے ہیں یا پاکستانی۔ سوال مختلف ہونا چاہئیے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
غالبؔ عظیم شاعروں میں سے بھی عظیم ترین تھے۔ با ایں ہمہ علمی اور اخلاقی بالیدگی کے آرزومند آدم زاد کو قرآنِ کریم آدمی کہتا ہے، انسان نہیں۔ کتاب میں انسان وہ ہے، جو آدمی بننے کی تمنا پالے۔ مولوی صاحبان تسلیم کریں یا نہ کریں، سیدنا آدم ؑ سے پہلے بھی انسان کا وجود تھا۔ سورہ دہر کی پہلی آیت یہ ہے "کتنے زمانے گزرے کہ انسان کوئی قابلِ ذکر چیز ہی نہ تھا"۔ روزِ ازل پروردگار نے فرشتوں کو آدم ؑ کے حضور سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے یہ کہا تھا: "زمین میں وہ خوں ریزی کرے گا" جناب آدم ؑ یا حوّاؑ کیا خوں ریزی کے مرتکب ہوئے تھے؟ بلکہ ان سے پہلے کی نسلیں۔ ہمارے قدامت پسندوں کو سائنس اور تحقیق سے چڑ ہے؛ چنانچہ وہ ہر ایجاد اور ہر انکشاف کی تردید پر تلے رہتے ہیں تا آنکہ وہ زندگی کا کبھی الگ نہ ہونے والا حصہ ہو جائے۔ ذہنی طور پر وہ ماضی میں زندہ رہتے ہیں اور قبائلی عہد کا اسلام برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔ آپؐ سب زمانوں کے ہادی تھے:
آپؐ ان کے لیے بھی رحمت ہیں
جو زمانے ابھی نہیں آئے
اسلام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اتارا گیا۔ مولوی صاحبان نے پرنٹنگ پریس کی مخالفت کی۔ پرنٹنگ پریس کیا، لاؤڈ سپیکر تک کی، جس پر اب وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں۔ اسلام کے نہیں، وہ اپنے اپنے فرقوں کے نمائندہ ہیں۔ اسلام میں فرقہ بندی کا کیا جواز؟ روزِ حساب کیا یہ پوچھا جائے گا کہ تم دیوبندی ہو یا بریلوی؟
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی
چیخوف کے ایک ناول کا منظر یاد آتا ہے: "وہ پڑھتا رہتا؛ حتیٰ کہ شام کے سائے کتاب کے اوراق پر اتر آتے۔ پھر خیال کی شدّت اور جذبے کی سرمستی کے عالم میں وہ سوچتا: انسان امر کیوں نہیں ہے، کیوں نہیں ہے آخر؟ یہ رگوں اور نسوں کے جال، یہ قوّتِ گویائی، یہ احساسِ خودی، کیا یہ سب کچھ مٹی میں مل کر مٹی ہو جائے گا اور کروڑوں برس تک سورج کے گرد چکر لگایا کرے گا؟ مٹی ہی میں ملانا تھا تو آدمی کو اس الوہی ذہن کے ساتھ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ "
جو بات ملحد کی سمجھ میں نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ جس خالق نے انسانوں کی ان گنت نسلیں پیدا کیں، جس نے سب آسمان اور ستارے تخلیق کیے، دس ملین انواع کی تمام مخلوقات کیلئے رزق کا اہتمام کیا، کیا وہ آدمؑ کی تخلیق پہ قادر نہ تھا؟ جو بات علمائِ کرام کے ادراک میں نہیں آتی، وہ یہ ہے کہ زندگی بدلتی رہتی ہے۔ آدم زاد کی جبلّتیں وہی ہیں مگر بہت کچھ تبدیل ہوتا رہے گا۔ ایک چیز البتہ کبھی نہ بدلے گی، ایک حدیثِ قدسی جس کا احاطہ کرتی ہے: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پہ ناز فرمایا۔ ارشاد کیا: جو کسی کو دوں گا، تیرے طفیل دوں گا اور جو کسی سے لوں گا، تیری وجہ سے۔ (مفہوم)
ہوش و خرد کا دامن چھوڑ کر زندگی کسی طرح سرخرو اور ثمربار نہیں ہو سکتی۔ کاروبارِ سیاست میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرے کی ایک ہیئتِ حاکمہ ہونی چاہیے اور اس کی اطاعت کی جانی چاہیے۔ اس کے بغیر امن ممکن نہیں ... اور امن ہی وہ چیز ہے، جس میں انسانی صلاحیت نشوونما پاتی اور معجزے کر دکھاتی ہے؛ بشرطیکہ آزادی اسے میسر ہو... اور سب جانتے ہیں کہ آزادی لامحدود نہیں ہوتی۔
ہزاروں برس کے تجربات کے بعد وہ بہترین طریق جو بنی نوعِ آدم نے حکومت کی تشکیل کے لیے اختیار کیا، رائے دہی کا ہے۔ ایسی وسیع تر مشاورت کا، پوری قو م جس کا حصہ ہوتی ہے۔ چودہ سو برس پہلے کے مدینہ منورہ میں، ظاہر ہے کہ ووٹروں کی فہرستیں شائع کرنا ممکن نہ تھا۔ موزوں ہوتا تو سرکارؐ اپنا جانشین نامزد فرما دیتے۔ پھر قاعدہ کیا ہوتا؟ اصول کیا وجود میں آتا؟ وہ اپنا جانشین نامزد کرتا اور اس کے بعد کا اپنا؟ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ نے عمر فاروقِ اعظم ؓ کو نامزد کیا۔ اس لیے کہ ان پر کسی بڑے اختلاف کا ہرگز اندیشہ نہ تھا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔
بہترین لوگوں پر مشتمل ایک مجلسِ شوریٰ آپؐ نے قائم کی، ایک کمیٹی، جس نے سیدنا عثمانؓ کو اختیار سونپا۔ فاروقِ اعظمؓ کے فرزند عبداللہ بن عمرؓ ایک بے بہا عالم تھے۔ اصرار کے باوجودآپؓ نے انہیں جانشیں بنانے سے انکار کر دیا۔ دور تک دیکھنے والی نظر وہ رکھتے تھے۔ مومن کے باب میں قرآنِ کریم کہتاہے کہ ادنیٰ خیال بھی اگر ان کے ذہن میں آئے تو چونک ا ٹھتے ہیں۔ سیدنا عثمانؓ کے بعد، جن سے ایک کے بعد دوسری صاحبزادی آپؐ نے بیاہ دی تھی، سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کو عنان سونپی گئی۔ باقی تاریخ ہے۔ ریاست کی بالاتری سے انکار ہوا تو خرابی شروع ہو گئی۔
ریاست کی ایک تقدیس ہوتی ہے۔ یہ صرف حکومت ہے، جو امن کی ضمانت دے سکتی ہے، جان و مال اور عزت و آبرو کے محفوظ رہنے کی۔ آدمی کی تمام تاریخ یہ ہے کہ حکمران اگر ظالم ہوں اور نجات ان سے درکار ہو تو جدوجہد میں احتیاط اور حکمت برتی جائیگی۔ ایسا نہ ہو کہ طوائف الملوکی پھیل جائے۔ خانہ جنگی ہو جائے۔ افغانستان کی مثال سامنے ہے۔ شام، لیبیا اور نائجیریاکی بھی۔ ایسی ایسی دردناک کہانیاں ہیں کہ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔
ایک عشرہ ہوتا ہے، کابل سے ایک جہاز اغوا کر کے لندن لے جایا گیا۔ مردوں نے داڑھیاں منڈوا دیں اور خواتین نے شٹل کاک برقعے اتار پھینکے۔ وہ اعتقاد جو دلوں میں نہیں اگتا اور سچّے انہماک سے پیدا نہیں ہوتا، محض معاشرے کا جبر ہوا کرتا ہے۔ رہ گیا شٹل کاک برقعہ تو کیا مدینہ منورہ کی پاکباز خواتین یہی اوڑھا کرتی تھیں؟ وہ کاروبار کیا کرتیں۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے کی انہیں آزادی حاصل تھی... اور مسجدِ نبوی کے صحن میں سرکارؐ سے وہ بحث کیا کرتیں۔ وہ آزاد لوگ تھے اور ان کا مذہب خوف کی پیداوار نہ تھا۔ خوف کو یقین سے کیا تعلق؟ ایمان علم کا مرہونِ منّت ہوتا ہے۔
انتہا پسند مذہبی تنظیمیں ہمارے عظیم فکری مغالطوں اور عسکری قیادت کی پہاڑ ایسی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ ہمیشہ عرض کرتا ہوں، غلطیوں سے نہیں بلکہ انسان ان پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔ حکمران ناقص ہیں تو ان سے نجات کے راستے کھلے ہیں، آئینی راستے۔ فساد بدترین چیز ہے "الفتنہ اشد من القتل" فتنہ قتل سے بڑا گنا ہ ہے۔ دشمن کی مزاحمت بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، مولوی صاحبان کی نہیں۔
احساس اور ادراک شاید کچھ ہو چکا۔ بات وہی ہے: وصالِ یار فقط آرزو کی بات نہیں۔ الفاظ کی نہیں، یہ عمل کی دنیا ہے اور پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے:
اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو
تو جان لو کہ یہاں آدمی کی خیر نہیں