پاکستان نہ بنتا تو ہم کیا ہوتے؟ باجوہ صاحب سپہ سالار ہوتے، عمران خان وزیر اعظم اور نہ یہ خاکسار اخبار نویس۔ ہمارا حال وہی ہوتا جو بھارت کے مسلمانوں کا ہے، اچھوتوں سے بدتر۔ بلکہ اہل کشمیر کی طرح، ہر عتاب اورہر تحقیر کا ہدف۔
جنرل باجوہ کا پیغام کیا ہے؟ ایک تو یہ کہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور ٹیکس وصولی کی جو مہم حکومت نے شروع کی ہے عسکری قیادت اس میں شامل و شریک ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔
ریاست کے یہی دو بنیادی کام ہوتے ہیں۔ امن و امان اور ٹیکس وصولی۔ بے شک نظام عدل کی تشکیل، صحت اور تعلیم بھی۔ ایسے سول اداروں کی تعمیر جو عام آدمی کے مسائل حل کریں۔ قضیوں کو نمٹا سکیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ سول ادارے ہی قومی تحفظ اور خوش گوار مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں۔
کالا دھن یعنی چھپا کے رکھاروپیہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس ہم ادا نہیں کرنا چاہتے۔ سرکار، ریاست سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ خزانہ خالی ہے تو خالی رہے۔ حکومت بھیک مانگ کر اپنے اخراجات پورے کرے۔ سڑکیں اور پل بنائے۔ اگر بجلی اور گیس ہم چوری کریں تو زیادہ قرض لے۔ بنی اسرائیل کی طرح، جنہوں نے کہا تھا: موسیٰؑ لڑے اور اس کا ربّ۔ شاید اسی لئے موسیٰؑ نے کہا تھا:"انی اعوذ بک ان اکون من الجاھلین "،"میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہو جاؤں"۔
ریاست ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ صرف حکومت کی نہیں، صرف فوج کی نہیں بلکہ ایک ایک شخص کی۔ افواج نہیں، اقوام ملک کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔
بجا ارشاد کہ ریاست اور فرد میں اعتماد کا رشتہ قائم نہ ہو سکا تو صرف شہری ذمہ دار نہیں۔ کاروبار حکومت چلانے والے بھی اتنے ہی خطا کار ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا؟ یعنی کہ ریاست کو طاقتور سے سوال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ محترمہ مریم نواز ارشاد کرتی ہیں کہ ان کا تعلق حکمران خاندان سے ہے۔ یعنی کچھ بادشاہ اورباقی رعایا۔ کچھ لوگ حکم چلانے کے لئے پیدا کئے گئے اور کچھ حکم بجا لانے کیلئے۔
یہی رویہ جناب آصف علی زرداری کا ہے۔ پرسوں عدالت میں کہا :یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ ان سے اچھا سلوک کیجیے۔ مراد یہ کہ دارو گیر عام لوگوں کے لئے ہوتی ہے۔ اہل زر اور اہل سیاست کے لئے ہرگز نہیں۔ پھر کہا: ہم بھی کمزور نہیں، ہم وزیر اعظم کی مانند نہیں کہ چھپکلی سے ڈر جائیں۔ زرداری واقعی نہیں ڈرتے۔ اپنے انجام سے بھی نہیں۔ ان کا مذہب عقل ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملا نہ حکیم
وہ اپنے سسر ذوالفقار علی بھٹو کے پیرو کار ہیں جن کا خیال تھا زندگی ذکاوت کا کھیل ہے۔ جی نہیں، اس دنیا کا ایک مالک و پروردگار ہے اور اس کے صادر کردہ قوانین ہیں۔ خوش دلی سے یا طوعاً و کرہاً، ہر ایک کو ان کی پاس داری کرنا ہوتی ہے۔ صاحب ادراک وہ ہے، جو اس راز سے آشنا ہے جس نے آدمی، زندگی اور کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے۔ من عرفہ نفسہ فقد عرف ربہ، جس نے خود کو جان لیا، اس نے پالنے والے کو پہچان لیا۔
اللہ کی آخری کتاب میں ارشاد یہ ہے کہ اللہ کے دانا بندے وہ ہیں، اٹھتے بیٹھتے پہلوئوں کے بل کیے، جو اللہ کو یاد کرتے رہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کیا کرتے ہیں۔ صوفیا اسی ذکر کی تلقین کرتے ہیں؟ اگرچہ آخری مقصودیہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ قلب و دماغ کی گہرائیوں سے ذات باری تعالیٰ کے وجود کا ادراک کیا جائے، جس کا فرمان یہ ہے ما الحیاۃ الدنیا الا متا ع الغرور۔ دنیا کی زندگی دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
زرداری کے برعکس بھٹو ایک قوم پرست تھے۔ زرداری کے لئے پاکستان ان کا گھر نہیں ایک موقع ہے، ایک Opportunity۔ شریف خاندان کا حال بھی یہی ہے، دولت اور دولت اور دولت اور اس کے لئے حکمرانی۔
دولت مندی نے زرداری اور شریف خاندان کو کیا دیا؟ گجرات کے چودھریوں، ملک ریاضوں کو کیا دیا؟ فقط دنیاوی آسودگی کے آرزو مند ہم سب پاکستانیوں کو کیا دیا؟ سب جنرلوں، ججوں، جرنلسٹوں اور تاجروں کو؟
عجیب بات ہے کہ مغرب خدا کو نہیں مانتا مگر اس کے تشکیل کردہ قوانین کو تسلیم کرتا ہے۔ ذہنی اور روحانی آسودگی اسے حاصل نہیں۔ تحفظ کا احساس یقینا ہے۔ ایک عام مغربی کم جھوٹ بولتا اور نفسیاتی پیچیدگیوں سے زیادہ آزاد ہے۔ جرائم پیشہ اور نوسر باز وہاں بھی ہیں۔ ریاست کے ساتھ اکثریت کا رشتہ مگر وفا کا ہے۔ عدالت بروئے کار ہے اور پولیس بھی۔ سرکاری اہلکار شہریوں کی مدد کرتے ہیں۔ تنازعات نمٹاتے ہیں، ایسا نہ کریں تو سزا پاتے ہیں۔ کبھی کبھار کی بات دوسری ہے۔ مغربی معاشرے کا عام چلن قانون کی پاس داری ہے، ہمارا شعار، قانون سے انحراف۔
ان کا طریق قوم پرستی ہے، ہمارا بے نیازی۔ دعوے دار ہم روحانیت کے ہیں۔ ہمارا وزیر اعظم" ایاک نعبدو و ایاک نستعین" سے خطاب کا آغاز کرتا ہے، مگر شاید ہی اس نے کبھی مطلب پر غور کیا ہو۔ ہم سب کا حال یہی ہے۔ حتیٰ کہ ٹی وی پر جگمگاتے مقبول واعظین کرام کا بھی۔ ذکر سرکارؐ کا کرتے ہیں۔ مثالیں، سید ابوبکر صدیقؓ ،عمر فاروق اعظمؓ کی دیتے ہیں۔ آسودہ وہ امراء کے دستر خوانوں پر ہوتے ہیں۔ ہم صحافیوں کا حال شاید اس سے بھی بدتر ہے۔ جج اور جنرل بھی ہمی ایسے ہیں۔ باتیں اور، باتیں اور باتیں۔ یہ ملک اللہ کے نام پر بنایا گیا۔
بارہاقائد اعظم نے کہا کہ قرآن کریم اللہ کا دستور ہے۔ وزیر اعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ مشیران کے باقیوں جیسے ہیں۔ دن آلودہ راتیں آلودہ تر ہیں۔ وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ قصاص اورانتقام کے فرق سے آشنا نہیں۔ یہ علم بھی نہیں کہ صاحب معاملہ جج نہیں ہوتا۔ جرم یا قصورکا تعین عدالت کرتی ہے یا ثالث۔ دوسروں کے جہانگیر ترین ان کے نزدیک واجب القتل ہیں۔ اپنے جہانگیر ترین کے بارے میں ایک بار انہوں نے مجھ سے یہ کہا: وہ ایک سپیشل آدمی ہے۔" سپیشل" کا مطلب، بہترین خصوصیات کا حامل آدمی۔
بارہا وزیر اعظم کے ساتھ طول طویل سفر کئے۔ باقی تو چھوڑیے ٹریفک قوانین تک کا احترام ان کے دل میں نہیں پایا جاتا۔ بجا کہ بدعنوان وہ نہیں مگر بدعنوانی سے چڑ بھی نہیں۔ برادرم ایاز امیر کی موجودگی میں ان کے سب سے قریبی مشیر کے بارے میں ایک بار خاکسار نے پوچھا: آوارہ نگاہی کے سوا، اس آدمی کا کوئی اور وصف بھی ہے؟ مشیر تو خیر ڈھے ہی پڑا اور خوشامد پر اتر آیا، وہ خود بھی بغلیں جھانکنے لگے، مذمت مقصود نہیں۔ جب سے 92نیوز پر دس بجے شب کے پروگرام مقابل کی ذمہ داری سونپی گئی، اپوزیشن کے خلاف ان کا مقدمہ دل و جان سے لڑا ہے۔ یہ کہ حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کا انہیں حق نہیں جس طرح کہ اگست 2014ء میں خان صاحب کو نہیں تھا۔
بات بس اتنی ہے کہ اصول کی پرواہ کسی کو نہیں۔ قانون کی اطاعت کا جذبہ کسی میں نہیں پایا جاتا۔ خال خال لوگ آئین کی تقدیس کے قائل ہیں، ٹنوں معلومات کے باوجود جو فیاّضی سے وہ اچھالتے ہیں۔ علامہ جاوید غامدی سے یہ طالب علم کبھی متاثر نہ ہو سکا۔ ایک بات البتہ وہ بالکل ٹھیک کہتے ہیں، دستور کو شعائرِ دین کی طرح محترم ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ ریاست کے ساتھ آدمی کی وفاداری اتنی ہی پختہ ہونی چاہیے، جتنی کہ اپنے گھر، اپنی اولاد اور ماں باپ کے ساتھ۔
پاکستان نہ بنتا تو ہم کیا ہوتے؟ باجوہ صاحب سپہ سالار ہوتے، عمران خان وزیر اعظم اور نہ یہ خاکسار اخبار نویس۔ ہمارا حال وہی ہوتا جو بھارت کے مسلمانوں کا ہے، اچھوتوں سے بدتر۔ بلکہ اہل کشمیر کی طرح، ہر عتاب اورہر تحقیر کا ہدف۔