ہمارے عہد کے عارف نے سچ کہا تھا:اللہ کو کسی لشکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ ایک آدمی کا انتظارکرتا ہے، جو سچے دل سے اسے مانے اور قلب کی گہرائیوں سے پکارے۔
تیرہ برس ہوتے ہیں، دفتر سے فون موصول ہوا کہ تین دن سے کالم نہیں لکھا۔ عرض کیا، طبیعت حاضر نہیں۔ "موضوعات تو ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں "۔ ہاں!موضوعات ہمیشہ ہوتے ہیں لیکن جب تک دل پہ دستک نہ ہو، کرناٹک کے اس واقعہ نے جہانِ معنی پہ کتنے ہی در کھول دیے ہیں اور خیال سمت درسمت پرواز کرتا ہے۔
مودی کے ہندوتوا کی ہیبت مسلم برصغیر کے کروڑوں دلوں پہ مسلط تھی۔ بظاہر ایک عام سی لڑکی نے بازو لہرایا اور اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہیبت تحلیل ہونے لگی۔
امام غزالیؒ کو مٹی اوڑھ کر سوئے ایک زمانہ بیت گیا تھا کہ مراکش میں مواحدین کی لہر اٹھی۔ طارق بن زیاد کے راستے پر پندرہ بیس میل کی سمندری کھاڑی کو انہوں نے پار کیا اورسپین میں مسلم اقتدار دو سو سال کے لیے دراز ہو گیا۔
وہ کون لوگ ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ مرنے والے مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں۔ غزالیؒ آج بھی زندہ ہے۔ کسی نے کہا تھا: فرض کریں اسلام کا ساراعلمی خزانہ برباد ہو جائے تو امامؒ کی تصنیف "احیاء العلوم" سے از سرِ نو مرتب ہو سکتا ہے۔
اسی مراکش میں ایک لشکر داخل ہوا تھا۔ جنگل کنارے پڑاؤ ڈالا، تو شب کی تاریکی میں بھیڑیوں، چیتوں اور شیروں کی دھاڑ سنائی دینے لگی۔ مجاہدین سپہ سالار موسیٰ بن نصیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بلا تامل وہ جنگل میں داخل ہوئے۔ پھر اعلان کیا: ہم اللہ او ر رسولؐ کے پیامبر ہیں۔ اس زمین پر اس کے دین کا پرچم گاڑنے آئے ہیں۔ تم اگر اس کی مخلوق ہو تو اللہ کے ان بندوں کے لیے خالی کر دو۔ نہ ماننے والے تو حدیث بھی نہیں مانتے۔ عرب دنیا کے دو بڑے شہزادوں نے پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ قولِ رسولؐ کی ضرورت اب باقی نہیں ۔ قولِ رسولؐ کی وہ اہمیت اگر نہیں، جو ہمیشہ سے مسلمان مانتے آئے ہیں تو قرآنِ کریم کے الہامی ہونے کی گواہی اس کے سوا ہے کیا؟
آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، دل اندھے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کی شہاد ت یہ ہے کہ شیر، چیتے اور بھیڑیے اپنے بچے منہ میں اٹھائے قطار درقطار جنگل سے نکل گئے۔ موسیٰ بن نصیر کے ماتحت، آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد کو سپین بھیجا گیا تھا۔ ہسپانیہ کو فتح کرنے کیلئے نہیں بلکہ ایک محفوظ ٹھکانا تشکیل دینے کیلئے۔ طارق کے ر گ و پے میں مگر بجلیاں دوڑ رہی تھیں۔ نان و نمک کا نہیں، وہ ایک جلیل القدرخواب کا آدمی تھا۔ آدھا سپین فتح کرنے کے بعد سمندر پار اس نے اطلاع بھیجی۔
ایک جرّار لشکر کے ساتھ حیرت زدہ جنرل اس کے تعاقب میں روانہ ہوا۔ تعجب اور غصے سے بھرا ہوا۔ اس نوجوان سالارنے یہ کیا حرکت کی۔ ایسا بھی کبھی ہوتا ہے کہ رسد اور کمک کی پرواہ کیے بغیر ایک چھوٹی سی فوج اس طرح بڑھتی چلی جائے۔ وقائع نگار نے لکھا ہے: گھوڑے سے اترے بغیر طارق کو موسیٰ نے طلب کیا اور جسارت پہ جواب طلبی کی۔ طارق کے عقب میں وہ سپاہ کھڑی تھی، چند ہفتوں میں جس کے ولولوں نے تاریخ کا نیا باب لکھ دیا تھا۔
پہلی بار مسلمان یورپ میں داخل ہو گئے تھے۔ وہ عالمِ اسلام کا نیا ہیرو تھا۔ سرکارؐ کو دنیا سے پردہ کیے بہت دن نہیں بیتے تھے۔ اصحابؓ کی یادیں ابھی تازہ تھیں۔ عمر بن عبد العزیزؓ کی کہانی ابھی کوئی دن پہلے کی بات تھی۔ نرگسیت ابھی دلوں میں گھر نہ بناتی تھی۔ جیسا کہ بارہ صدیوں بعد مغرب کے عظیم سائنسدان آئن سٹائن نے کہا تھا: انا اتنی ہی بڑی ہوتی ہے، جتنا علم چھوٹا ہو۔ ادراک جتنا وسیع ہو، ذاتی اہمیت اسی نسبت سے کمتر ہوتی جاتی ہے۔
طارق آگے بڑھا۔ سردار کے گھوڑے کی رکاب کو بوسہ دیا اور کہا: میں خطا کا مرتکب ہوں۔ چند دن ہی گزرے تھے کہ یورپی سپاہ ڈھے پڑی۔ سفر اورتگ و تاز کے ایام نے سردار کو تھکا سا دیا تھا۔ شب کو مسیحی وفد مذاکرات کے لیے نمودار ہوا۔ چہرے پر کچھ شکنیں سی، بالوں کی جڑوں سے سفیدی جھانکتی ہوئی۔ بات چیت نا مکمل رہی۔ اگلی صبح وہ لوٹ کر آئے تو انہوں نے سردار کو تازہ دم پایا۔ رات بھر کی نیند سے آسودہ اور ایمان کی طاقت سے مالا مال، وہ جواں سال دکھائی دیتا تھا۔ تب ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: آدمی نہیں، یہ دیوزاد ہیں۔ شب بوڑھا تھا، اب شباب کا عالم ہے۔ معاہدے پر دستخط ہو گئے۔
ساڑھے سات سو بر س کے بعد اسی ہسپانیہ کا عالم یہ ہوا کہ ایک حکمران کو چند ماہ نصیب ہوتے اور پھر کوئی دوسرا آدھمکتا۔ ہر آنے والا سابق کو بد عنوان اورجرائم پیشہ قرار دیتا اور چند ہفتے یا مہینے بیت جانے پر کسی نئے قہرمان کے لیے تخت خالی کر دیتا۔ اب وہ اس ایقان اور توکل سے محروم تھے، جس نے معجزے کر دکھائے تھے۔ پانچ سو برس کے بعد اسی مراکش میں ایک خوانچہ فروش نے خودسوزی کا ارتکاب کیا اور عالمِ عرب ایک آندھی کی زد میں تھا۔ تخت اچھالے اور تاج گرائے جانے لگے۔ اسے "عرب بہار" کہا گیا لیکن بہا ر نہیں، یہ خزاں کی تمہید تھی۔ ان کے اجداد کبھی سر ہتھیلیوں پہ رکھے ایک کے بعد دوسری سرزمین فتح کرتے چلے جاتے تھے۔ اب وہ اپنی اغراض، ادنیٰ مفادات اورجبلتوں کے بندے تھے۔ شہر شہر میں استعمار کے کارندے، ذہنی غلام۔
کل شام پشاور کا قصد کیا۔ آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں میں سے ایک کے والدِ گرامی دوست محمد خاں سے ملاقات کے لیے۔ انہوں نے بتایاکہ جس دن بیٹا شہید ہوا، کاروبار سے انہوں نے ہاتھ اٹھا لیا۔ فرزندوں کے سپرد کر ڈالا۔ نہایت رسان سے پھر یہ کہا: اگر یہ ملک سلامت رہے اور نمو پائے تو یہ قربانی رائیگاں نہیں ہوگی۔
پھر کشمیر کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ بے ساختہ دوست محمد خاں نے کہا: یہ علی گیلانی کیسا عجیب آدمی تھا۔ ساٹھ پینسٹھ برس وہ مقتل میں سراٹھائے کھڑا رہا۔ ایک لمحے کو اس کے پایۂ ِاستقلال میں لغزش نہ آئی۔ عرض کیا: دل ایمان سے آباد ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ توکل میں ایسی قوت ہے کہ خواہ ساری دنیا مقابل ہو، آدمی چٹان کی طرح اٹل رہتا ہے۔ مقصد جسے عزیز ہو، وہ اپنے ذاتی غموں اور مسرتوں سے آزاد ہو جاتا ہے:
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
محمد علی کی مثال سامنے ہے: جس دلاور نے انہیں کافرِ اعظم کہا تھا، عمر بھر اس کا نام لینا بھی اس عالی دماغ نے پسند نہ کیا۔ اسی لیے وہ قائدِ اعظم کہلائے، لیڈروں کے لیڈر۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ان کی عظمت بڑھتی جاتی ہے۔ تاریخ کے دوام میں وہ روشن سے روشن تر ہوئے جاتے ہیں۔
ہمارے عہد کے عارف نے سچ کہا تھا:اللہ کو کسی لشکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ ایک آدمی کا انتظارکرتا ہے، جو سچے دل سے اسے مانے اور قلب کی گہرائیوں سے پکارے۔