اس انگریز خاتون نے پاکستانی قوم کو سمجھ لیا تھا، اپنی کتاب کا عنوان یہ رکھا تھا، Waiting for Allah، اللہ کا انتظار۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
ہم ایک انوکھی قوم ہیں۔ دنیا بھر میں مغالطے ہوا کرتے اور پروان چڑھتے ہیں، ان سے مگر چھٹکارا پانے کی سعی بھی کی جاتی ہے۔ ہم مغالطوں کی پرورش وپرداخت کرتے ہیں، آبیاری فرماتے ہیں۔
مغرب نے اللہ کا انکار کر دیا ہے۔ اصل اور دائمی حیات کو تج دیا ہے، جو حقیقی، دائمی اور لا محدود ہے۔ بھارت کو بالاتری کا بخار چڑھا ہے اور وہ بھی مذہبی نعروں کی بنیاد پر۔ جو انتقام لیتے ہیں، وہ بس بدلہ ہی لینے میں کھپ جاتے ہیں۔ زندگی کی تمام رعنائی اور تمام امکانات اس ایک جنون کی نذر ہو جاتے ہیں۔ با ایں ہمہ، ان اقوام کی کوئی ترجیحات تو ہیں، ایک موزوں عزم کے ساتھ، جن میں وہ جتی رہتی ہیں۔ ہماری کوئی منزل ہے اور نہ راستہ۔ ساری کی ساری توانائی خود شکنی، بھول بھلیوں، باہمی تصادم اور ٹامک ٹوئیوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ عبقری اسد اللہ خان کے بقول
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
پوٹھوہار کی ضرب المثل ہے کہ جلد باز کو تین بار غسل خانے کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ گلابی نمک پر ہونے والے شور شرابے ہی کو لیجئے۔ ہفتے بھر سے جس پر ہنگامہ برپا تھا۔ یہ کہ بھارت 35پیسے فی کلو کے حساب سے کھیوڑہ کی کانوں کا نمک خرید کر 121ارب ڈالر سالانہ کما تا ہے۔ اب یہ کھلا کہ یہ محض ایک مفروضہ تھا، سچائی کی ایک رمق بھی جس میں نہیں۔ کسی نے کہانی گھڑی یا خواب دیکھا۔ وہی کہاوت کہ کاٹا اور لے دوڑی۔تحقیق اور تصدیق کی ضرورت کسی نے محسوس نہ کی۔ مشرق بعید سے لے کر امریکہ تک پھیلے پاکستانیوں نے ہر کہیں صفِ ماتم بچھا دی۔ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بھاگو دوڑو، لیجیو، ہم لٹ گئے، ہم برباد ہو گئے۔ ہمارا ملکی قرضہ 100ارب ڈالر ہے، جس کے بوجھ تلے ہم ہلکان ہو رہے ہیں، موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہیں اور اس سے بیس ارب ڈالر زیادہ ہر سال صرف نمک کے لین دین میں لٹ جاتے ہیں۔ ؎
سود ائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے
مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
حقائق یہ ہیں :بھارت کو 24ہزار ٹن سے زیادہ نمک کبھی برآمد ہی نہیں کیا گیا۔ اس میں سے نوے فیصد سوا ارب آبادی میں کھپ جاتا ہے۔ صرف 4.8لاکھ ڈالر کی آمدن اس سے ہوتی ہے۔ اگر پورے کا پورا نمک بھی عالمی منڈی میں بیچ ڈالے تو زیادہ سے زیادہ 48لاکھ ڈالر کما سکتا ہے۔ 121ارب ڈالر کا کیا سوال، دنیا بھر میں نمک کا کل کاروبار ہی 13.50ارب ڈالر کا ہے۔ مزید یہ کہ دہائی دینے والوں نے بنکاک، فرانس اور نیویارک کے سپرسٹورز میں نمک سے بھری جن بوتلوں کی تصاویر شائع کیں، ان میں سے اکثر پاکستان میں بنی اور برآمد کی گئیں۔ 1986ء سے جو ہم دنیا کو بیچ رہے ہیں۔
کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
وسائل کے اعتبار سے پاکستان ایک غریب ملک ہرگز نہیں۔ آئینی سیاست کی تین صدیوں کے محتاط ترین مدبر، بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا: دنیا کی سب نعمتیں اللہ نے ہمیں بخشی ہیں۔ آنے والے سب مہ و سال نے ان کے اس ارشاد کی تصدیق کی۔ زرخیز زمین، ایسی زرخیز کہ دنیا بھر میں شاید ہی اس کی کوئی مثال ہو۔ مٹی مگر جھاڑ جھنکاڑ کے سوا خود بخود کچھ پیدا نہیں کرتی۔ ہم آج بھی ہزاروں برس پہلے کی طرح زمین کاشت کرتے ہیں۔ ناہموار، جس میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ کھیت کے ایک حصے میں بے سبب زاید، دوسرا سوکھے کا سوکھا۔
ناقص ترین بیج ہم استعمال کرتے ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں خبر آئی تھی کہ چین نے فی ایکڑ 200من چاول پیدا کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے، ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ چودہ پندرہ من۔ اس لیے کہ دھان کا آدھا حصہ چھلکے پر مشتمل ہوتا ہے۔ گیہوں کی اوسط پیداوار 20من فی ایکڑ ہے۔ پر امید اور صاحب عمل محقق ظفر الطاف مرحوم کہا کرتے: ہم 65من فی ایکڑ کے حساب سے بغیر کھاد کی گندم اگا سکتے ہیں۔ اگر آلودہ نہ ہو تو جاپان، امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں تین گنا قیمت پہ ہم بیچ سکتے ہیں۔
کہتے کہتے زبان تھک گئی، لکھتے لکھتے ہاتھ تھک گئے کہ کسان کو تعلیم دینا ہو گی، اس کی مدد کرنا ہو گی۔ اسے سکھانا ہو گا کہ زمین ہموار کرے، اسے بتانا ہو گا کہ بہترین بیج کون سا ہے اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ اس کی زمین ہموار ہونی چاہئے۔ کھاد بروقت ملنی چاہئے اور موزوں قیمت پر، کرم کش ادویات کو ملاوٹ سے پاک کرنا ہو گا۔ سیلابی انداز کی بجائے، فواروں سے آبپاشی کرنا ہو گی۔ صرف دس فیصد پانی استعمال ہو گا اور پیداوار چالیس فیصد بڑھ جائے گی۔
درد دل لکھوں کب تک، جائوں ان کو دکھلادوں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خوں چکاں اپنا
چند سال پہلے تک کے اعداد و شمار یہ ہیں کہ پاکستان میں فی کس زیر کاشت رقبہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ ملک میں پائپ بنائے جائیں اور ایک ڈیڑھ عشرے میں بچھا دیئے جائیں تو حیرت انگیز نتائج نکلیں۔ اڑھائی کروڑ ایکڑ چار کروڑ کے برابر ہو جائیں گے اور باقی ماندہ اڑھائی کروڑ ایکڑ کاشت کرنے کے باوجود بھی پانی بچ رہے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ سہل نہیں، منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ تمام دوسرے معاملات کو بھی ملحوظ رکھنا ہو گا۔ تحقیقاتی اداروں کو بہتر بنانا ہو گا۔ ماہرین اور کارکنوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کرنا ہو گی۔ کسانوں کی رہنمائی کے مراکز قائم کرنا ہوں گے۔ ہر کہیں لیبارٹری تشکیل دینا ہو گی۔ معجزے نہیں ہوتے، دنیا میں کہیں معجزے نہیں ہوتے، ریاضت کرنا پڑتی ہے۔ ریاضت بھی، یکسوئی اور مستقل مزاجی کے ساتھ۔
بہت مشکل ہے، دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
مرحوم نعت گو حفیظ تائب یاد آیا۔ آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کر کے واپڈا میں بھرتی ہوئے تھے۔ آخر آخر پروفیسر تھے۔ ملک کی معزز ترین شخصیات میں سے ایک۔ ہمیشہ جن سے بھلائی کی امید رکھی جاتی۔ ہمیشہ جن کا اکرام کیا جاتا۔ ان سے پوچھا: حفیظ صاحب آپ کی خیرہ کن کامیابی کا راز کیا ہے۔ اس انکسار کے ساتھ جو ان کا شیوہ اور شعار تھا، فرمایا: عمر بھر کسی کام کو حقیر نہیں سمجھا۔
ہم مغلوں کے وارث ہیں۔ آسودہ اور شادمان زندگیوں کے طلبگار۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند ہیں۔ ہماری کامیابی اور ناکامی میں سب کی سب ذمہ داری فقط حکمران کی ہوتی ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کی طرح ہم بھٹکتے رہتے ہیں۔ سبھی کو سوچنا ہو گا، سبھی کو اپنا فرض نبھانا ہے۔ سبھی کو ایثار کرنا ہے۔ پیچھے رہ جانے والوں کو تیز دوڑنا پڑتا ہے? اور ہمارا حال یہ کہ
میں پا شکستہ جا نہ سکا قافلے تلک
آتی اگرچہ دیر صدائے جرس رہی
میرے ایک دوست نے کہا:میں ایک وقت بھی روکھا پھیکا اور کم سواد کھانا نہیں کھا سکتا۔ حیرت ہے، میں نے سوچا:کاش اس معتبر اور معزز آدمی کو سمجھایا جا سکے کہ خورو نوش کا انبساط بھوک میں ہوتا ہے۔ دستر خوان پر اطمینان اور شکر گزاری کا احساس۔ ہوش مندی کے 60برسوں میں جھانک کر دیکھا۔ زندگی بھر کے بہترین کھانوں میں سے ایک وہ تھا، جو چک نمبر 41اور چک نمبر 42جنوبی سرگودھا کے راستے میں کھایا تھا۔
ایک قدیم، قبائلی سیاہ پوش راجپوت خاتون، ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان ٹاہلی کی خنک چھائوں اور کنویں کا کنارہ۔ اس نے پوچھا: بچو!تمہیں بھوک لگی ہے؟ پھر آٹا گوندھا اور تنور دہکایا۔ دیسی گندم کی چپڑی ہوئی روٹی، لسی اور چٹنی۔ کھانے پینے کی سب متنوع چیزیں کوئی مجھ سے لے، وہ بھوک اوراطمینان واپس کردے۔ یہ کھانا پنج تارہ ہوٹلوں کے ہر طعام سے بہتر تھا۔ وہ زندگی، اس زندگی سے بہتر تھی۔ وہ عورت ماں جیسی تھی۔ ماں جیسی کیا، ماں تھی۔
حافظِ شیراز نے سچ کہا تھا:زندگی مہرو محبت سے پھلتی پھولتی ہے، فقط معلومات کے خزانے جمع کرنے سے نہیں۔
زندگی میں اتنی ہی شادمانی ہوتی ہے، جتنی کہ فطرت سے ہم آہنگی۔ اتنی ہی بے چینی جتنا کہ فطرت سے تصادم۔
آدمی کو مشقت میں پیدا کیا گیا، آزمائش کے لیے۔ عصری تقاضوں کا اسے ادراک کرنا ہوتا ہے۔ وہ ماضی میں زندہ نہیں رہتا۔ حیات کا حسن دلیل پہ استوار ہوتا ہے، سپنوں پہ نہیں۔ اس انگریز خاتون نے پاکستانی قوم کو سمجھ لیا تھا، اپنی کتاب کا عنوان یہ رکھا تھا، Waiting for Allah، اللہ کا انتظار۔
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو