شیکسپئر کو اقبالؔ کی طرف سے پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین ان پہ صادق آتا ہے۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
ایک جملے میں شاید یہ کہا جا سکتاہے: متوکل تھے، وہ سرتاپا متوکل۔ پروردگار پہ ان کا ایمان ایسا محکم تھا کہ عمر بھر کسی ذاتی یا اجتماعی امتحان میں متزلزل نہ ہوئے۔ اخلاقی زندگی ایسی شفاف کہ الزام تو کیا، ان کے دشمن کبھی ڈھنگ کا طعنہ بھی نہ دے سکے۔ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ایک مفلس، منتشر اور منقسم قوم کی گردن پر بگڑی ہوئی اشرافیہ اور ماضی میں زندہ رہنے والے جذباتی علماسوارتھے۔۔
1937ء کا ہارا ہوا الیکشن۔ پھر قائدِ اعظم کی خیرہ کن کامیابی اور ابد الآباد تک باقی رہنے والی نیک نامی کا راز کیا ہے؟ ان کی صداقت شعاری، غیر معمولی حکمت، ریاضت، وعدے کی پاسداری اور یکسوئی پر بہت کچھ لکھا گیا۔ ایک موضوع اب تک تشنہ ہے، حیرت انگیز جذباتی توازن۔
برطانوی بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے ایما پر جب یہ کہا گیاکہ کراچی کے ہوائی اڈے پر ان کے بھائی کا ذاتی طور پر وہ استقبال کرلیں توجواب دیا " میرا بھائی لندن جائے گا تو کون خیر مقدم کرے گا؟" لیکن پھر فوراً ہی گورنر جنرل ہائوس میں استقبالیہ برپا کرنے کا حکم صادر کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد عبد الغفار خان سے مذاکرات کیے۔ علامہ مشرقی نے راولپنڈی میں ملاقات کے لیے مدعو کیا۔ آدھ گھنٹہ انتظار کے بعد قائدِ اعظم واپس تشریف لے گئے۔ کہاتو صرف یہ کہا: I think، he is busy۔ کافرِ اعظم قرار دینے والے مولوی صاحب کا کبھی نام تک نہ لیا۔
قرآنِ کریم میں ہے:" واذا خاطبھم الجاھلون قالو سلاما" جاہل جب الجھنے کی کوشش کریں تو وہ طرح دے جاتے ہیں۔ شخصیت میں ایسا تعجب انگیز آہنگ کیونکر جنم لیتاہے۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کی نادرروزگار تصنیف کشف المحجوب کا خلاصہ شاید یہ ہے: سالک کو مقصد جب عزیز ترہو تو نفیء ذات کی راہ پر وہ اترتا ہے اور بالاخر قادر ہو جاتا ہے۔ آدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ خود ہے۔ محمد علی جناح سے صلاح الدین ایوبی تک، نور کا ایک سلسلہ چلا آتا ہے۔
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو، پندگرو، راہ گزر تو دیکھو
حدِ نظر تک روشنی ہے۔ بھارت کے سابق وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے قائدِ اعظم کی وفات کے عشروں بعد ان کا اعتراف کیا۔ نیلسن منڈیلا کی طرح آنے والی صدیوں کے مدبر بھی انہیں دریافت کرتے رہیں گے۔ نیلسن منڈیلا پہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی۔ دنیا بھر کے قلمکار ان پہ فدا اور دنیا کا ہر ملک میزبانی کا منتظر۔
سفیروں کو ہفتوں انتظار کرنا پڑتامگر پاکستانی سفیر کو فوراً ہی شرفِ ملاقات بخشا گیا، ناشتے کی میزپر۔ پاکستان کے دورے میں بات چیت اسلام آباد میں ہوتی، خیر مقدمی تقریب لاہور کے شالامار باغ میں۔ ہمیشہ سے یہی قرینہ تھا۔ مسکرائے اور کہا: لیکن مجھے تو اپنے لیڈر جناح کے مزار پر جانا ہے۔ وزیرِ منتظر (Minister in waiting)مشاہد حسین کی آنکھیں آج بھی چمک اٹھتی ہیں۔
نسل در نسل تحسین کرنے والے بے حساب، بے شمار لیکن سب سے موزوں خراجِ تحسین شاید مولانا شبیر احمد عثمانی نے پیش کیاتھا "وہ بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے "۔۔ اور سٹینلے والپرٹ نے: کوئی بھی لیڈر ایک ہی کارنامہ انجام دے سکتاہے، ایک نئی قوم کی تشکیل، آزادی کا حصول یا ایک نئے وطن کا قیام۔
قائدِ اعظم نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے۔ تازہ ترین شہادت سری نگر سے آئی ہے، جہاں سب بھارت نواز لیڈروں نے کہہ دیا: قائدِ اعظم سے انحراف کر کے ہمارے اجداد نے غلطی کی تھی۔ محمد علی نے کہا تھا: قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمان لیڈروں کی آئندہ نسلیں ہندوئوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتی رہ جائیں گی۔
اردو افسانے اور غزل پہ نگاہ رکھنے والے علامہ صدیق اظہر نے فلیٹیز ہوٹل لاہور کے گھومنے والے دروازے پر نواب زادہ نصر اللہ خان کو روکا اور تمہید باندھنا شروع کی: آپ جانتے ہیں کہ نیاز فتح پوری غالبؔ کے مخالف تھے۔۔ نواب صاحب عجلت میں تھے۔ ناچیزنے عرض کیا: چھوڑیے علامہ صاحب، نہ ماننے والے اللہ کو نہیں مانتے۔ ایک زندہ آدمی کا زندہ قہقہہ۔
دو طرح کے لوگوں پر تعجب ہوتاہے۔ وہ جو کائنات کے خالق کو نہیں مانتے اور نہیں بتاتے کہ یہ کائنات ایک حادثہ ہے تو زندگی کو برقرار رکھنے والے اربوں کھربوں توازن کس طرح برقرار ہیں، ہمیشہ کیسے برقرار رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جو 75۔ 6فیصد ووٹ حاصل کرنے والے، اجلے اور کھرے قائدِ اعظم کے قائل نہیں۔ ان میں سے ایک نے لکھا تھا کہ وہ جاں نثار اختر کو علامہ اقبالؔ سے بڑا شاعر سمجھتا ہے۔ آخر عمر میں فراق گورکھپوری پاگل سے ہو گئے تھے۔
خالی قمیض پہنے بیٹھے رہتے اور اقبالؔ کو گالیاں بکا کرتے۔ فرماتے: سہلِ ممتنع میں لکھنا سہل نہیں۔ جان پہ بن آتی ہے۔ کسی لیڈر کے قد کاٹھ کا تعین آنے والے زمانے کیا کرتے ہیں، جب ماضی کے تعصبات مر جاتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا ملک تاراج کرتا ہوا، نپولین بسمارک کی قبر پہ پہنچا تو اس کی شمشیر فاتح کی خدمت میں پیش کی گئی۔ ایک نگاہِ غلط انداز اس نے ڈالی اور کہا: کیا میرے پاس اپنی تلوار نہیں؟
محمد علی کو یاد کرتے ہوئے ایک مقدس ہیولہ ذہن میں ابھرتا ہے، علمی، انتظامی، عسکری اور سیاسی جینئس۔ جنہیں تاریخ پہ اثر انداز ہونے والی سو بڑی شخصیات میں شمار کیا گیا، امیر المومنین، عمر ابن خطابؓ۔ ارشاد کیا تھا: ہم کسی کو دھوکہ نہیں دیتے لیکن دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ سلطان محمد فاتح یاد آتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا: آپ کی تاریخ ساز کامیابیوں کا راز کیا ہے۔
جواب ملا: میری داڑھی کے بالوں کو بھی پتہ چل جائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو میں قصوروار۔ کانگریس اور انگریز حکمرانوں کو اگر معلوم ہو جاتا کہ قائدِ اعظم ٹی بی میں مبتلا ہیں تو شاید ہندوستان کی تقسیم سال بھر کو موخر ہو جاتی۔۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہوتا۔ ابرہام لنکن یاد آتے ہیں، غلاموں کی آزادی اور میکسیکو پر حملے کے ہنگام جن کی قوم ان کی مخالف تھی۔ کمسن بچیوں کی شادی کے سوال پر تنازعہ اٹھا اور مسلمان مشتعل ہو کر متحد ہوئے توقائدِ اعظم نے کہا: قوم نیا لیڈر چن لے۔ یہی کچھ تحریک خلافت میں کیا۔ فرمایا: گھڑی کی سوئیوں کو الٹا نہیں گھمایا جا سکتا۔ وہ جانتے تھے کہ خلافت کا زمانہ بیت گیا۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
با ایں ہمہ اسلامی تعلیمات پر وہ اسلامی نظام کے علمبرداروں سے زیادہ یکسوتھے۔ سیکولر ازم کا غلغلہ 1895ء اور سوشل ازم کا بھی اسی اثنا میں اٹھااور چند برس میں عروج پر پہنچ گیا۔ یہ دونوں نعرے نہرو نے اپنا لیے کہ اکثریت فیشن کی دلدادہ ہوتی ہے۔ قائدِ اعظم نے سیکولرازم کا نام لینا بھی گوارا نہ کیا۔ کیمونسٹوں کے بارے میں کہا تو فقط یہ کہا: ففتھ کالمنسٹ۔ یعنی سوادِ اعظم سے منحرف بلکہ غدّار۔ وہ غدّار ہی نکلے۔ سات عشرے امریکہ دشمنی پہ سیاست کی اور پھر اسی کی بیعت کر لی۔ بیعت بھی اپنے وطن کے خلاف۔ اب وہ این جی اوزچلاتے ہیں۔
ہوسِ لقمہء تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
شیکسپئر کو اقبالؔ کی طرف سے پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین ان پہ صادق آتا ہے۔
حفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا