اسد الرحمٰن نے کوئی معرکہ سر نہیں کیا مگر زندگی کا راز پالیا۔ اور وہ یہ ہے کہ آدمی فطرت سے جتنا ہم آہنگ ہوگا، اتنا ہی آسودہ۔ جتنا انحراف، اتنا ہی اضطراب، اتنا ہی الجھاوا، اتنا ہی آدمی خسارے میں۔ اسی کا ایک شعر ہے ؎
منکشف ہوتے ہیں اس آن میں رندوں پہ جہاں
کہر میں لپٹے ہوئے چاند پہ جب رات کھلے
سچ تو یہ ہے کہ اسد الرحمٰن نے مجھے چونکا دیا۔ کچھ نامور، کچھ بے نام، بے لوث خدمت گار اور بھی ہیں، محروموں کا ہاتھ تھامنے والے اور بھی ہیں۔ ایسے بھی ہیں، جو تشہیر اور تحسین چاہتے ہیں۔ اپنے لیے نہ سہی، اپنے ادارے کے لیے کہ چرچا ہو، اعتبار قائم ہواور عطیات بڑھیں۔
اسد الرحمٰن کے سے شاعر اور بھی ہیں۔ اس سے بہتر اور برتر بھی۔ افتخار عارف ہیں، اظہار الحق ہیں۔ اسد الرحمٰن کے دوست منصور قیصر اور سب سے بڑھ کر ظفر اقبال ؎
پربتوں کی ترائیوں میں ردائے رنگ تنی ہوئی
بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا
اسدالرحمٰن کی شاعری سرشار کرتی ہے۔ روزِ ازل کے پیمان کی یاد دلاتی ہے۔ اظہار الحق کو پڑھتے بھی مگر ایسا ہی ہوتاہے۔ ایک شعر تو اس کا ضرب المثل ہوگیا
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پر ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
پھر افتخار عارف ہے۔ خیال کے رہوار
پہ سوار اس کے ہاتھ میں موقلم ہے۔ تصویر بنا دیتاہے
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر؟
جاہ و جلالِ دام و درہم اور کتنی دیر؟
اسد الرحمٰن میں ایسی کون سی بات ہے کہ آدمی حیرت زدہ ہی رہے۔ شعر کم ہی سناتا ہے۔ کہتا ہے : ابھی وہ شعر میں نے لکھا ہی نہیں، جو پیش کیا جا سکے۔ کیا وہ محض آرزو میں زندہ ہے؟ سر سبز کھیتوں کے درمیان خواب و خیال کی دنیا میں؟ شب گاؤں پہ تنے آسمان پہ ستارے جگمگاتے ہیں۔ چاندنی داستانیں سناتی ہے۔ کیا اس میں وہ مگن ہے اور مگن رہنا چاہتا ہے؟ اللہ نے آدمی کو اس بے نیازی کے لیے پیدا نہیں کیا تھا۔
پچھلے برس وہ ملنے آیا۔ میانوالی کے مکین کچھ خوبیاں رکھتے ہیں۔ بے تکلف، پر اعتماد اور آزاد رو۔ بہت سے میانوالی منصور قیصر کے توسط سے ملے۔ ان میں سے ایک احمد خان ہیں، جن کی وضعداری، سادگی اور شرافت برقرار رہنے والی توقیر دل میں پیدا کرتی ہے۔ ایک اعزاز انہیں ایسا حاصل ہے کہ باید و شاید۔ اب کی بار کوئی امیدوار ان کے مقابل نہ اٹھا۔ کسی نے کاغذاتِ نامزدگی ہی داخل نہ کیے۔ دوسرے تو کیا، مقبولِ عام نون لیگ کو بھی قسمت آزمانے والا کوئی نہ ملا۔
پہلی ملاقات میں اسد الرحمٰن نے کچھ زیادہ بات نہ کی۔ بتایا گیا کہ کاشتکاری کرتا ہے۔ رمضان کا ہلال طلوع ہو تو سال بھر کی جمع پونجی سے اجناس، پھل سبزیاں، چینی، گھی اور کھجوریں خرید کر پپلاں کے ایک میدان میں ڈھیر کر دیتا ہے۔ جو چیز جس بھائو خریدی ہوئی، اسی پہ فروخت۔ سلیقہ مندی کے ساتھ ایک پورا نظام۔ بازار کے مقابلے میں چنانچہ قیمت دس سے پچاس فیصد کم۔ مثلاً کھجور اور چنے کی دال 150 کی بجائے 90روپے۔ پوچھا: کیا میڈیا ٹائون اسلام آباد میں ایسے ہی تجربے کے لیے وہ مدد کریں گے؟ جواب اثبات میں لیکن جوش و خروش کے بغیر۔ جوش و خروش اسدالرحمٰن میں خال ہی ہوتاہے۔ بات پوری مگر ہیجان کے بغیر۔
اب اس نے ایک بڑا میڈیکل سٹور بنایا ہے۔ اپنی فلاحی تنظیم "سانجھ " کے پلیٹ فارم سے۔ ضمانت یہ ہے کہ دوائی جعلی ہرگز نہ ہوگی۔ منافع دس فیصد سے زیادہ نہیں اور یہ بھی ضرورت مندوں پہ صرف کیا جائے گا۔ ایک دن اس نے کارڈ چھپوائے اور بانٹ دیے۔ عرض کیا: منصور قیصر لندن میں ہے، جس کے ہمراہ مجھے آنا تھا۔ بھولپن سے اس نے کہا : مگر کارڈ تو بانٹے جا چکے۔ تب ڈاکٹر امجد ثاقب سے میں نے درخواست کی کہ ازراہِ کرم وہ بھی ہمراہ ہو لیں۔ مقصود یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے طفیل کچھ وقار تقریب میں پیدا ہو۔
ایسی سادہ اور استوار مجالس عام طور پر برپا نہیں ہوتیں، جیسی کہ یہ تھی۔ کوئی شور شرابا، ریا نہ تکرار، دعوے، نہ دکھاوا۔ دور دور سے شرفا آئے تھے۔ شہر کے بیشتر معززین لیکن اسد نے کہا کہ عطیات وہ قبول نہیں کرے گا۔ شام ڈھلی تو پپلاں سے 30، 35کلومیٹر پرے جھیل کنارے ایک دل آویز ریستوران میں ضیافت کے لیے لے گیا۔ اس پر تھوڑا سا غصہ مجھے آیا۔ ذرا سا احتجاج بھی کیا۔ چند لقموں کے لیے اتنی مسافت۔ واپسی پہ پھر چالیس پینتالیس منٹ کا سفر طے کیا۔ پپلاں سے آگے ایک چھوٹے سے گاؤں سے گزر کر کھیتوں میں پہنچے اورخواب گاہ کا راستہ دکھایا۔
ایک بہت ہی سادہ ساکمرہ، قدیم وضع کی چار رنگین چارپائیاں، تین چھوٹے چھوٹے میز، منسلک غسل خانہ مگر ایک عدد ائیر کنڈیشنربھی۔ ڈاکٹر صاحب تو فوراً ہی پڑ رہے۔ باقی دونوں ہمسفر شاعر سلیم شہزاد اور کہانی کار ملک مہر علی اسد الرحمٰن کے پاس صحن میں جا بیٹھے۔ فجر کی اذان تک شعر سنائے اور سنے جاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب تو سحر دم روانہ ہوگئے۔ ملک مہر علی اور سلیم شہزاد بھی جلد جاگتے ہیں۔ میں تاخیر سے اٹھا اور تیار ہوا۔ میز پر طرح طرح کی نعمتیں تھیں۔ دیسی مرغی، تازہ مکھن، بیسنی روٹی لیکن وہ چھاچھ۔
شہر تو کیا، اب اکثر دیہات بھی اس سے محروم ہیں۔ چھاچھ ان بہترین مشروبات میں سے ایک ہے، جو آدمی کو بخشے گئے۔ معدے کو صحت مند اور اعصاب کو توانا رکھنے کے لیے ایسی شاید ہی کوئی دوسری چیز ہو۔ پون صدی ہوتی ہے، پٹھانکوٹ میں سید ابو الاعلیٰ مودودی کے رفیق ملک غلام علی کو معدے کا مرض لاحق ہوا تو طبیب نے یہی تجویز کی۔ صبح دم ملک صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قریبی گاؤں سے لایا کرتے۔ اسد الرحمٰن بے تاب تھے کہ دیسی مرغی اور تازہ مکھن کا لطف اٹھاؤں۔ میں بیٹھا چھاچھ پیتا رہا۔ سب چھاچھ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہلکی آگ پر دودھ اگر بہت دیر تک گرم نہ ہو تو بلونے پر بھی چکنائی رہ جاتی ہے۔ افادیت کم کر دیتی ہے۔ کھانا بھی کھایا۔ لذیذ، بہت ہی لذیذ۔
ہاں، مگر یہ ہوا تھی، اجلی صاف ہوا۔ جیسی کہ سینکڑوں برس پہلے ہوا کرتی۔ شاعر نے کہا تھا : تازہ ہوا بہار کی دل کا ملال لے گئی۔ ارتقا کے سفر میں جوسنگین مظالم آدمی نے اپنے آپ پر کیے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا شاید یہ ہے کہ اس نے ہوا، پانی اور خوراک آلودہ کر دی۔ ذہن بھی آلودہ، ترجیحات ہی غلط۔ یہ دنیا جنت کبھی نہ تھی ،لیکن اب تو آدمی نے خود کو برباد ہی کر ڈالا ہے۔ اپنی بیشتر مسرتیں پاؤں تلے روند ڈالی ہیں۔ خود کو تباہ کر لیا، اس پر ملال بھی نہیں۔
اسد الرحمٰن نے کوئی معرکہ سر نہیں کیا مگر زندگی کا راز پالیا۔ اور وہ یہ ہے کہ آدمی فطرت سے جتنا ہم آہنگ ہوگا، اتنا ہی آسودہ۔ جتنا انحراف، اتنا ہی اضطراب، اتنا ہی الجھا وا، اتنا ہی آدمی خسارے میں۔ اسی کا ایک شعر ہے ؎
منکشف ہوتے ہیں اس آن میں رندوں پہ جہاں
کہر میں لپٹے ہوئے چاند پہ جب رات کھلے