چیخ چیخ کر ایک ایک چیز ایک عظیم اور بے کراں خالق کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ گونگوں، بہروں اور اندھوں کو مگر کون سمجھائے؟ الّا یہ کہ وہ خود کرم فرمائے۔ الّا یہ کہ کوئی حادثہ ہو۔ اس منفرد شاعر احسان دانش نے کہا تھا
آجائو گے حالات کی زد پر جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے
کھڑکی سے جھانک کر دیکھا اور ہکّا بکّا رہ گیا۔ یہ اوائل اپریل کی ایک سحر تھی۔ چھوٹے سے مکان سے متصل وسیع و عریض لان میں کچنار کے دو پودے اہتمام سے گاڑے تھے۔ کھلتے ہیں تو اودے رنگ کے پھول حشر بپا کرتے ہیں۔ گیندا اور گلاب کی طرح، جو سرما کے عتاب میں مرجھا گئے تھے، سبھی گل خوبصورت ہوتے ہیں۔ آنگنوں میں کھیلتے ہوئے بچوں کے ہمکتے ہاتھ۔ آسمان سے برستی بارش، زمین اور آسمان کے درمیان معلق بادل، پانیوں پہ تیرتی کشتیاں، قرآنِ کریم کہتاہے کہ یہ سب اس پروردگار کی نشانیاں ہیں، جس نے یہ جہان پیدا کیا اور آدم زاد کو اپنا خلیفہ بنایا۔
ایک دن بڑے بھائی لندن سے آئے اور شب بھر قیام کیا۔ سحر اٹھے تو یہ کہا : یہ مکان کبھی فروخت نہ کرنا۔ ایک دن میری عدم موجودگی میں پروفیسر احمد رفیق اختر تشریف لائے۔ بہت دن سے ملاقات نہ ہوئی تھی۔ کچھ دیر اس چھوٹے سے گھر کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہے۔ صحن کا سبزہ اور پودے جس کے اندر داخل ہوتے ہوئے محسوس ہوتے۔ شیشے کی دونوں کھڑکیاں فراخ تھیں۔ کچھ دن بعد ملے توکہا :What a beauty، what a beauty۔ کیسا جمال، کیسا حیران کن جمال۔
کوئی آنکھیں موند لے اور موندے رکھے، خیال و فکر کے دروازے کوئی بند کر دے تو کر ڈالے۔ انفس و آفاق میں اس کی نشانیاں ہیں۔ پہاڑوں میں جھرنے پھوٹتے ہیں۔ لاکھوں طرح کے حسین پرندے پروردگار کی حمد گاتے اور اس کی عنایت سے چنیدہ رزق پاتے ہیں۔ میدانوں میں دریا بہتے اور کہانیاں کہتے ہیں۔
فرمایا: اللہ جمیل و یحب الجمال۔ اللہ جمیل ہے اور جمال سے محبت فرماتا ہے۔ کچھ مناظر شاید زیادہ تابناک ہوتے ہیں۔ دور دور تک پھیلے سبز کھیتوں پہ لامتناہی نیلا آسمان اور ہوا میں تیرتے پکھیرو۔ کچھ منظر یاد رہتے ہیں، کچھ بھول جاتے ہیں۔ کچھ ہمیشہ کے لیے حافظے کی لوح پہ نقش۔ لگ بھگ 12برس پہلے موسمِ بہار کی اس سحر کا جادو آج اچانک جی میں جاگ اٹھا۔ کچنار لگائے دو تین برس بیت گئے تھے لیکن ہر بار کہر کی نذر ہو جاتے۔ اس سال توانا ہوئے اور خوب توانا۔ ہوا کی لہروں میں جھومتے جاگتے جیسے کوئی داستان کہا کرتے۔ امید بہت تھی کہ اب کے برس پھول بہت کھلیں گے اور میرؔ یاد آئیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آس مرجھاتی گئی۔ اس دن عجب ماجرا ہوا۔ کھڑکی کھولی تو سینکڑوں شاخوں پہ لاکھوں پھول۔ جیسے کوئی کہتا ہودیکھو، دعا باریاب ہوئی اور دفعتاً ع
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔدیکھتا رہا،
دیر تک مبہوت دیکھتا رہا۔ کل شب ایک بار پھر وہ منظر جی میں جاگ اٹھا۔ اب تک جاگ رہا ہے۔ اب تک چہار جانب گلستاں ہے۔ اب تک ہر سمت خوشبو۔ بانسری کے بارے میں مولانا روم نے کہا تھا
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آواز دوست
سوکھی تار، سوکھی لکڑی، سوکھا چھلکا، پھر اس میں "دوست " کی آواز کہاں سے آئی؟
کوئی سننا چاہے، کوئی دیکھنا چاہے تو وہ سنائی دیتاہے، ہر کہیں دکھائی دیتاہے۔ شہد کی مکھی کہاں کہاں سے خوشبو اٹھا لاتی اور وہ شیرینی میں ڈھالتی ہے، انسانی شفا اور ضرورت کے جس میں ہزار سلسلے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ اس پہ ہم نے الہام کیا ہے، اسے یہ فرض ہم نے سونپا ہے۔
درویش نے کہا تھا : دو چیزیں آدمی کبھی نہیں سمجھ سکے گا: مصطفیﷺ کے مقامات و مراتب کتنے ہیں اور نفسِ انسانی کے فریب کتنے۔ سب سے بڑا فریب شاید اپنی دانش کا غرور ہے، پروردگار تک جو پہنچنے نہیں دیتا۔ عامی ہی کیا، وائٹ ہیڈ مین، برٹرنیڈرسل اورسٹیون ہاکنگ جیسے ذہن بھٹکتے ہیں تو بھٹکتے رہ جاتے ہیں۔ ورنہ کہاں کہاں وہ قیام فرما نہیں ہے۔ کہاں کہاں سے وہ صدا نہیں دیتا۔
انسان کا نظامِ ہضم۔ گلے کی نالی سے شروع ہو کر معدے تک، تاب و توانائی وہیں سے پھوٹتی ہے اور علالت و درماندگی بھی۔ لاچار ایک آدمی جناب رسالت مآبؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میرا بھائی بیمار ہے۔ پیٹ کے درد سے تڑپتا ہوا۔ فرمایا: کھانے کو اسے شہد دو۔ کچھ دیر میں وہ پھر بھاگتا ہو اآیا اور عرض گزار ہوا : درد تھما نہیں۔ ارشاد کیا : تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ کچھ دیر میں مریض اور لواحقین بشاش تھے۔ اس عظیم آسمانی کیمیا دان نے، خاک بسربعض کیمیا دان جسے پہنچ نہیں پاتے، انہضام کا یہ طریق ایسی باریکیوں سے بنایا ہے کہ کل تک تو ادراک ہی ممکن نہ تھا۔ آج سائنس کی رفعت و ترقی کے بعد بیشتر پہلوئوں کا تجزیہ ممکن ہے۔ بظاہر خورا ک کی نالی سے ابتدا ہوتی ہے لیکن منہ میں دانت ہیں اور لعاب کی رطوبت۔
دانتوں کی ساخت ایسی ہے کہ سامنے والے تو چہرے کو خوبصورت بناتے ہیں۔ اطراف اور پیچھے والے دانت زیادہ چوڑے ہیں اور پیسنے کے لیے بہترین ساخت۔ مکمل اور بہترین انداز میں استوار۔ کسی کو شبہ ہو تو سامنے والے دانتوں سے چبانے کی کوشش کر دیکھے۔ لعاب کانہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس کے بغیر لقمہ چبانا اور نگلنا کسی سزا سے کم نہ ہوتا۔ بیماری سے بعض کا گلا خشک ہو جاتاہے تو پھر ا س نعمت کا احساس ہوتاہے۔ چبا کر لقمہ خوراک کی نالی میں دھکیل دیا جاتاہے۔ ٹھیک اسی لمحے سانس کی نالی ایک لمحے کو بند ہو جاتی ہے۔ انسانی ذہن اگر ہمیشہ اور خود بخود یہ حکم صادر نہ کرے تو کھانے کے ذرات سانس کی نالی میں چلے جائیں۔ موت واقع ہو جائے۔
خوراک کی نالی میں طاقتور اعصاب ہیں۔ انہی کے بل پر کھانا معدے میں اترتا ہے۔ تب ایک اور عجیب واقعہ رونما ہوتاہے۔ مضبوطی سے ایک ڈھکن بندہو جاتاہے۔ سائنسدان اسے ایل ای ایس کا نام دیتے ہیں۔ اب خواہ آدمی الٹا لٹک جائے، کھانا لوٹ نہیں سکتا۔ دانتوں سے خوراک پیسنے کا عمل، لعاب، سانس کی نالی کا بند ہونا، معدے کی دیواروں میں مسلسل حرکت، انسانی شعور کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ پیدا ہونے والے بچّے کو معلوم ہوتاہے کہ دودھ کیسے پینا ہے۔ کیسا عجیب، مکمل اور پیچیدہ نظام ہے۔ دل کی دھڑکن کے ساتھ خون مسلسل گردش کرتاہے۔ لہو معدے سے گزرتا ہے توتوانائی پورے بدن میں پھیلا دیتاہے۔ چولستان کے صحرا میں آخرِ شب کی چاندنی، بانسری کی کلیجے میں اتر جانے والی آواز، دور کسی حدی خوان کی صدا، ایسا لگتاہے کہ آدمی ہاتھ بڑھا کر چاند ستاروں کو چھو سکتاہے۔
چیخ چیخ کر ایک ایک چیز ایک عظیم اور بے کراں خالق کے وجود کا احساس دلاتی ہے۔ گونگوں، بہروں اور اندھوں کو مگر کون سمجھائے؟ الّا یہ کہ وہ خود کرم فرمائے۔ الّا یہ کہ کوئی حادثہ ہو۔ اس منفرد شاعر احسان دانش نے کہا تھا
آجائو گے حالات کی زد پر جو کسی دن
ہو جائے گا معلوم خدا ہے کہ نہیں ہے