آزادی مگر قانون کی بالاتری بھی، آزادی مگر ریاست کی تقدیس بھی، آزادی مگر ڈسپلن، قومی مفادات اور بے چارگانِ خاک کی حفاظت بھی۔ اگر یہ نہیں تو پھر یہ انارکی کا سفر ہے، خودشکنی اور خود اپنی تباہی کا سامان۔
عقل و علم کی جو امانت آدمی کو بخشی گئی، غلام اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ تین صدیوں سے روسو کا جملہ دہرایا جاتاہے۔ انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر کہیں زنجیروں میں جکڑا ہے۔ 1400برس سے اہلِ ایمان عمر فاروقِ اعظمؓ کا قول سنتے اور سناتے آئے ہیں: انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا تھا، تم کب سے انہیں غلام بنانے لگے؟
آزادی ہے کیا؟ فکر و عمل پہ ہر طرح کی پابندیوں کا خاتمہ، لیکن ظاہر ہے کہ قانون کے دائرے میں۔ لامحدود آزادی کا کبھی کوئی تصور آدم کی اولاد میں نہیں تھا، آدمؑ سے پہلے ضرور۔ جانوروں کی طرح بے مہار ہومونی اینڈرسل کے دماغ کا سائز آدمی سے بڑا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کو ذبح کر کے کھا جاتے۔ شاید اسی لیے روزِ ازل آدم کو سجدہ کرنے والے فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ خوں ریزی کرے گا۔ شایداسی لیے ابلیس نے کہا تھا کہ وہ اسے بھٹکا دے گا۔ اسے وہ اغوا کر لے گا۔ فرشتوں سے تو پروردگار نے یہ کہا کہ میں جانتا ہوں اور تم جانتے نہیں۔ ابلیس کو جواب یہ دیا: لیکن میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ کیا روزِ ازل کے پیمان کی بازگشت اقبالؔ کے سخن میں تھی، جب انہوں نے کہا تھا:
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیٔ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اور سیاستدانوں کے بارے میں شیطان کی زبان سے کہلوایا۔
ابلیس کے فرزند ہیں اربابِ سیاست
;اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
انسانی تاریخ کے کتنے ہی زمانے انارکی سے خون آلود ہیں۔ خود بر صغیر میں غلامی کا دروازہ اسی لیے کھلا۔ آبادیاں ہیں کہ ذہنی بخار میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ایک خطہ; زمین ہی نہیں، کبھی پورے کا پورا کرّہ ارض فساد سے بھر جاتا ہے۔ عالمگیر جنگیں، جن میں کروڑوں انسان قتل ہوئے۔ ان سے زیادہ راستوں اور ویرانوں میں پامال۔ امریکہ کے ریڈ انڈین اور آسٹریلیا کے ابرجین، کروڑوں افریقی جو غلام بنالیے گئے۔ ان میں آدھے سے زیادہ بحری جہازوں میں دم توڑ گئے۔ چنگیز خاں، ہلاکو اور تیمور ابھرتے ہیں، ہٹلر اور مسولینی پیدا ہوتے ہیں۔ جابر حکمرانوں کے خلاف عوامی بغاوتوں کی ہمیشہ تحسین کی جاتی ہے، لیکن عرب بہار میں لیبیا، شام، مراکش، مصر اور عراق کو ہم نے اجڑتے دیکھا۔ بغاوت بھی منظم اور شعوری چاہیے۔
ہزاروں برس کے انسانی تجربے نے ریاست کو جنم دیا کہ افتادگانِ خاک کی حفاظت وہی کر سکتی ہے۔ ایک مرتب نظام جو طاقتوروں کا ہاتھ پکڑ سکے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ چھوٹے سر والا حبشی تم پر حاکم بنا دیا جائے تو اس کی بھی اطاعت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد ریاست کی پیروی ہے، حکمران کی نہیں۔ آزادی میں ڈسپلن اور ڈسپلن میں آزادی، تاریخ کا سبق یہی ہے۔ امن کی ضمانت یہی ہے۔ آبادی کے مختلف طبقات میں عمرانی معاہدہ، سب سے روشن مثال میثاقِ مدینہ ہے۔
پاکستانی صحافت میں آزادیء اظہار کی بحث زوروں پہ ہے۔ لکھنے والے کیا آزاد ہیں یا پابہ زنجیر اور کیا اخبار نویسوں کو ریاستی جبر کے خلاف بروئے کار آنا چاہئیے؟ جی ہاں، ضرور آنا چاہئیے۔ اس لیے کہ ریاست فرد کا گلا گھونٹ ڈالے تو معاشرے پست سے پست تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ادراک کی صلاحیت مرجھانے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی سب توانائی کھو دیتی ہے۔
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر;
جسے زیباکہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
اتنی ہی بڑی سچائی یہ ہے کہ قانون کا احترام باقی نہ رہے، معاشرے میں ڈسپلن قائم رکھنے والا کوئی نظم، ادارہ اور مرکز باقی نہ رہے تو وہ جنگل ہو جاتے ہیں۔ آدمی کی تمام تر صلاحیت خودشکنی اور باہمی آویزش میں کھپتی ہے۔ ہم کسی ہٹلر اور مسولینی سے محفوظ ر ہے لیکن نسبتاً چھوٹے پیمانے پر ایک سے زیادہ بار وہ یورش ہم نے دیکھی ہے، قومی زندگی کو جس نے بدشکل اور برہم کر دیا۔ کراچی میں الطاف حسین اور اس کا ٹولہ قبائلی پٹی اور میدانوں میں طالبان کی نمود۔
دو عشرے قبل فوجی حکمران نے الیکٹرانک میڈیا کا دروازہ چوپٹ کھول دیا۔ معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے یہ ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ ایک Turning point۔ اب ایسی آزادی کا ہم نے تجربہ کیا کہ کم ہی کوئی مثال ہوگی۔ کسی چیز کی کوئی تقدیس باقی نہ رہی۔ کذب بیانی اور طعنہ زنی شعار ہو گئی، حتیٰ کہ گالی گلوچ کے لیے لشکر استوار ہوئے۔ ابتدا ایم کیو ایم نے کی لیکن اب مرکزی دھارے کی بڑی پارٹیاں بھی اس میں مبتلا ہیں۔ دشنام طرازی سے حریف کو پریشان کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو جشن مناتے ہیں۔
کچھ کے پاس رضاکار زیادہ ہیں، جو مخالفین کو تباہ کر ڈالنے کے آرزومند ہیں۔ کچھ کے پاس ذہنی قلی ہیں، زیادہ سے زیادہ اور" بہترین" گالیاں گھڑنے پہ جو عطا و بخشش کے مستحق ہوتے ہیں۔ ٹی وی مباحثوں میں مباحثہ کتنا اور کس قدر ہے، جھوٹ، الزام تراشی اور ڈھٹائی کس قدر؟ ہم سب جانتے ہیں کہ یک بیک ملنے والی آزادی اپنے ساتھ غیر ذمہ داری کا طوفان لاتی ہے۔ اس پر لیکن کم ہی غور کیا گیا کہ ایک معاشرہ جب باہم الجھ جاتا ہے توتعمیر کی خو باقی نہیں رہتی، تخریب کے تیور غلبہ پا لیتے ہیں۔ اس لیے کہ برہمی عقل کو چاٹ لیتی ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کند ہوجاتی اور جذباتی توازن باقی نہیں رہتا۔
پاکستان ایسے ملک میں یہ اور بھی خطرناک ہے کہ ایک سفاک پڑوسی کے ساتھ پیدا ہوا۔ عالمی طاقتوں کی کشمکش کا میدان ہے۔ بیرونی آقاؤں کے بل پر ان غیر ریاستی اداروں یعنی این جی اوز نے جنم لیا، جن کا ایجنڈا سمندر پار سے آتا ہے۔ معاشی اعتبار سے تباہ حال، باہم الجھی ہوئی ایک قوم دشمن کو راہ دیتی ہے۔ نو تخلیق ملک میں ریاست سے انحراف کرنے والے پہلے سے موجود تھے۔ مثال کے طور پر بنگالی قوم پرست، جن کی دشمن نے پشت پناہی کی۔ ایم کیو ایم اور طالبان، جنہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ وہ اشاعتی ادارے اور چینل بھی خطرناک ہیں، جو دشمن کی ترجیحات نافذ کرنے پر تلے رہے، اور ظاہر ہے کہ ذاتی مفادات کے لیے۔ ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ ان پہ ہن برسا۔
اخبار نویس ہیں جو غیر ملکیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ جن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتاہے۔ بہلا پھسلا کر جنہیں برتا جاتا ہے۔ کابل، دبئی، دہلی، لندن اور نیو یارک میں جو وصولیاں فرماتے ہیں۔ قومی سلامتی کے تقاضے جن کے لیے بے معنی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا: ملک کوئی چیز نہیں ہوتا، قوم کچھ نہیں ہوتی، اصل چیز اظہارِ صداقت ہے۔ صداقت یعنی ایک آدمی کا اندازِ فکر اور مؤقف۔
پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف نے کہا تھا: ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ سات بجے سے گیارہ بجے تک قومی اداروں کا مضحکہ اڑاتے اور دشمن کی مدد کرتے ہیں۔ دنیا میں کہیں اور بھی یہ ممکن ہے؟
آزادی مگر قانون کی بالاتری بھی، آزادی مگر ریاست کی تقدیس بھی، آزادی مگر ڈسپلن، قومی مفادات اور بے چارگانِ خاک کی حفاظت بھی۔ اگر یہ نہیں تو پھر یہ انارکی کا سفر ہے، خودشکنی اور خود اپنی تباہی کا سامان۔